روزنامہ 92کے پڑھنے والوں تک جب یہ اخبار پہنچے گا تو پاکستان کے چار میں سے تین صوبوں میں ضمنی انتخابات میں ووٹ ڈالے جا رہے ہوں گے‘ قومی اسمبلی کے آٹھ اور پنجاب اسمبلی کے تین انتخابی حلقوں میں معرکہ برپا ہونے جا رہا ہے‘ قومی اسمبلی کے آٹھ میں سے سات حلقوں میں تحریک انصاف کے چیئرمین ملک بھر کی ساری سیاسی پارٹیوں کے اتحاد اور اس اتحاد کی سرپرست اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ کریں گے‘ یہ ایک دلچسپ بلکہ حیران کن مقابلہ ہو گا‘ حیران کن؟ جی ہاں‘ اتنا ہی حیران کن جیسا آپ تین ماہ پہلے جولائی میں دیکھ چکے ہیں۔آج اتوار کی صبح جب تحریک انصاف کا کوئی ووٹر صندوقچی میں پہلا ووٹ ڈالے گا تو اس وقت تک ممکن ہے فریق مخالف کے ڈبوں میں ’’فرشتوں کی وساطت سے پندرہ ہزار ووٹ ڈالے جا چکے ہوں‘ حضرت اقبال نے کہا تھا کہ فرشتے تیری نصرت کو‘ اتر سکتے ہیں گردوں سے ‘ قطار در قطار اب بھی۔ لیکن سیاست میں مداخلت کرنے والے فرشتے آسمانوں سے نہیں اترتے بلکہ اندھیرے کمروں سے برآمد ہوتے ہیں‘ جولائی میں بھی یہ فرشتے بروئے کار آئے لیکن آسمانی فرشتوں کی راہ میں کون حائل ہو سکتا ہے‘ پندرہ ہزار ووٹ پہلے بھی ڈالے گئے تھے لیکن وہ بیس میں سے صرف ایک میں کارگر ہو سکے وہ بھی جب دن کی روشنی میں بھری صندوقچیوں میں سے کچھ حصہ چرا لیا گیا تھا ۔ہر داغ ہے اس دل پر اور داغ ندامت بھی۔ مگر کسی کو شرم آئے تو سہی۔موضع لالیاں ضلع جھنگ میں ایک کاواں والی سرکار ہوا کرتی تھی‘ کوّے پورا دن اس کے گرد منڈلاتے رہے‘ سرکار ان کے دانہ پانی کا انتظام وافر رکھتی ‘ دور نزدیک کے دیہاتی لوگ اپنی گائے بھینس کی چوری کے بارے میں جاننے کے لئے کاواں والی سرکار سے رجوع کرتے‘ ایسی ہی ایک ’’چڑیا والی سرکار‘‘ لاہور میں ہوا کرتی ہے‘ اس کی چڑیا گھریلو چڑیا کی طرح نہیں ہے کہ اس دیوار سے اڑی اس منڈیر پر جا بیٹھی یا ہمسایہ کے صحن میں اگے درخت کی شاخ پر چہچانے لگی‘ یہ چڑیا پل بھر میں‘ امریکہ‘ یورپ اور ایون فیلڈ کے پراسرار اور مشہور ایوانوں تک رسائی رکھتی ہے‘ اسی چڑیا نے جولائی کے انتخابات سے ذرا پہلے یا بعد اطلاع دی تھی کہ عمران خاں کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے‘ اس جادو نے اسٹیبلشمنٹ کے جن کو پتھر بنا دیا ہے اور کہیں مکھی کی شکل دیوار پر چپکا دیا تھا‘ اس کا کچھ بس نہیں چل رہا‘ بے بسی کے عالم میں ’’ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم‘‘ انہیں یہ بھی گلہ ہے کہ پنجاب میں جس پارٹی کا طوطی بولتا تھا‘ اس کی طوطی کی بولتی بند ہے۔ان کی اپنی چڑیا جس کی چہکار کی ایک دنیا دیوانی تھی‘ اب کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔‘‘ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ 75برس سے سیاسی جماعتوں کے ساتھ کھیلتی رہی ہے‘ پہلی بار اس کا پالا پاکستانی عوام سے پڑ گیا ہے‘ ابتائی برسوں میں انگریزوں کی تربیت یافتہ شہری انتظامیہ (بیورو کریسی) اسٹیبلشمنٹ کی قیادت کرتی رہی‘ پہلے دس برس انہوں نے کھل کر کھیلا‘ بڑے بڑے سیاسی عہدے ہتھیا لئے اور سیاستدانوں کو کٹھ پتلی بنائے رکھا سیاستدان کٹھ پتلی بنے رہنا سیکھ گئے‘ غلام ابن غلام اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی قیادت سکندر مرزا(جن کے بارے میں آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ وہ ہی یوں میں تھے یا شی یوں میں ۔یعنی وہ اصل میں فوج کی نمائندگی کرتے رہے یا سول بیورو کریسی کی’’پھر ایو ب خان کے بعد یہ قیادت مستقلاً انہی کے ہاتھ لگ گئی اور اب ایوب خان ‘ یحییٰ خان‘ ضیاء الحق ‘ مشرف کی طرح اگر اسٹیبلشمنٹ براہ راست حکمران نہ بھی ہو تو ایک موثر پریشر گروپ یا طاقتور سیاسی دھڑے کی طرح بھی سیاستدانوں پر اثر انداز ہوتی رہی ہے۔ان کا یہ کردار ضیاء الحق کے بعد سے حالیہ برس 9اپریل تک نمایاں نظر آتا ہے۔ بینظیر ‘ نواز شریف‘ بے نظیر پھر نواز شریف‘ مشرف کی سرپرستی میں ق لیگ اس کے بعد جنرل کیانی کی وساطت سے بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں پانچ‘ پانچ برس کی ایک ایک مدت انہی پاپی کھلاڑیوں میں تقسیم کر دی گئی۔ بے نظیر دنیا سے اٹھ گئی‘ پیپلز پارٹی بکھرنے لگی تو عمران خاں متبادل کے طور پر سامنے آ گئے کاہل اور کند ذہن غیر سیاسی قیادت غیر سیاسی غیر روائتی عمران خاں کو صحیح طور پر سمجھ سکی نہ درست تجزیہ کرنے پر قادر ۔نتیجہ یہ ہے کہ انہوں نے نہ صر ف اپنا دبدبہ اور اثرورسوخ کھو دیا بلکہ عمران خاں کے سوا ملک بھر کی سیاسی قیادت کو مٹی میں ملا دیا ۔آج عمران خاں کے علاوہ کوئی سیاسی جماعت عملاً موجود ہی نہیں ہے کہ جس کی سرپرستی کر کے اسٹیبلشمنٹ اپنا بھرم رکھ سکے۔ ہی سچ ہے کہ شہباز شریف نہیں ہے جو مرکزی حکومت کا نظام چلا رہے ہیں ‘ نہ ہی بھان متی کا کنبہ پی ڈی ایم اتحاد ہے جو سیاسی میدان میں عمران خاں کا مقابلہ کر رہا ہو۔چہروں پر نقاب اوڑھ کر یا چھپ چھپا کے سیاسی مقابلہ ممکن نہیں‘ کھلم کھلا مقابلے میں آنا پڑتا ہے ۔کھل کھلا کے سامنے آنے کا اب حوصلہ ہے نہ عوام میں پذیرائی کہ جن کے تعاون سے عمران خاں کو پسپا کیا جا سکے۔ ابھی تک اسلام آبادمیں اگر کوئی ’’نام نہاد‘‘ حکومت قائم ہے تو وہ اپنے بل پر کھڑی ہے نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کے سہارے‘ بیساکھیوں کی حالت حضرت سلیمان علیہ السلام کے عصا کی طرح ہے جسے دیمک نے چاٹ کے کھوکھلا کر دیا ہو‘ ہوا کا ایک جھونکا سارا بھرم کھول سکتا ہے۔ جولائی میں برپا ہونے والے انتخابی معرکے اور اس کے نتیجے میں پنجاب میں آنے والی تبدیلی کے بعد مرکز کی حکومت قائم ہے تو عمران خاں کے صبر اور قناعت کے سبب ہے۔عمران خاں اگر جارحانہ میدان میں نکل آئے تو پرامن یلغار اور عوامی قدموں کی دھمک اور کثرت ایسی ہو گی کہ جس طرح ہاتھیوں کے پائوں میں گھاس۔ 9اپریل 2022ء تک یہ تاثر موجود تھا کہ فلاں سیاسی جماعت اقتدار میں آنے والی ہے اس لئے کہ اسٹیبلشمنٹ اس کے ساتھ ہے۔ یہی تاثر بے نظیر کو نواز شریف پر کبھی نواز شریف کو بے نظیر پر برتری دلاتا رہا۔یہی تاثر 2018ء میں عمران خاں کے لئے بھی پایا جاتا تھا‘ بیچ میں کسی کی ہوشیاری اور چالاکی بھی کام کر رہی تھی‘ جس نے عمران خاں کی پارٹی کے مضبوط حلقوں میں اپنی پسند کے آدمی گھسا دیے اور عمران خاں نے بھی نئی سرخوشی میں انہیں قبول کیا ‘ آخر میں وہی تھے جنہوں نے فیصلے کے دن عمران خاں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا۔ عمران خاں کے خیال میں انہوں نے غداری کی ‘ نہیں ، وہ وفادار تھے اپنے آقا کے جس نے انہیں ٹکٹ دلوائے‘ صرف یہی نہیں احتیاط کے دامن کو زیادہ وسعت دیتے ہوئے مسلم لیگ نواز ‘ایم کیو ایم‘ خواجہ آصف اور بلوچستان سے بھی لوگوں کو جتوایا گیا‘ تاکہ عمران خاں کی طنابیں کھینچ کے رکھی جا سکیں۔ عام طور پر خیرو و برکت کے لئے نئی صبح طلوع ہونے کا کہا جاتا ہے مگر عمران خاں کیلئے رمضان المبارک میں 10اپریل کو ایسی شب طلوع ہوئی جو اس کیلئے لیلتہ القدر تھی۔ ہزار مہینوں کی خوش بختی اور خیرو برکت سے بھی فزوں تر‘ اس رات کسی کی اپیل‘ آواز یا درخواست کے بغیر ہر شہر ‘ قصبے ‘ گلی کوچے سے ملکوں ملکوں عوام امڈ کے آئے۔شاید وہ دلوں میں اترنے آئی کوئی نِدا تھی جو کانوں نے نہیں سنی ‘ سیدھی دلوں میں اتر گئی۔ اسی نِدا کے زیر اثر کروڑوں پاکستانیوں اور پاکستان سے باہر کروڑوں ہمدردوں نے اسلام آباد کے ایک کونے ، بنی گالہ کے تنہا گھر میں ،جس میں ایک میاں بیوی کے سوا کوئی نہ تھا،سستانے اور آرام کر نے کیلئے لیٹے ہوئے عمران خاں کو سوار ہونے کیلئے اپنے کندھے پیش کر دیے۔ بابرکت مضبوط‘ طاقتور اور قابل اعتماد سہارا عمران خاں کو گھر آرام کرتے میسر آ گیا۔ بڑے ہی بیوقوف اور ناداں لوگ ہیں جو یہ سمجھ بیٹھیں گے کہ وہ عوام کے سمندر کارخ موڑ سکتے ہیں یا غیب سے اٹھی ’’نوائے سروش ‘‘ کی گونج مدھم کر سکیں گے۔