جیسے چوبیس سال پہلے سپریم کورٹ پر ہونے والا حملہ آج بھی طعنہ بن کر مسلم لیگ ن کے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے بالکل ویسے ہی پتھروں سے بھرے پلاسٹک بیگز ہمیشہ مریم نواز کے سیاسی رویے کا اظہار بن کر ان کا پیچھا کرتے رہیں گے۔لہذا میں اس تجزیے سے اتفاق نہیں کرسکتا کہ مریم نواز نے نیب دفتر کے باہر اپنی طاقت کا اظہار کر کے سیاسی فائدہ حاصل کیا۔ البتہ مریم نواز اپنے اس عمل کے ذریعے تین طرح کے پیغامات دینے میں کامیاب رہی ہیں ۔ ایک پیغام انہوںنے مولانا فضل الرحمن کو دیا کہ مزاحمت کی سیاست کے میدان میں وہ تنہا نہیں بلکہ نواز شریف ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔یوں نیب پر حملہ ن لیگ سے مایوس اور ناراض مولانا کے لیے اطمینان کا باعث بنا ہو گا کہ چلیں بلاول اور شہباز شریف نہ سہی ، مریم اورنواز شریف تو ایجی ٹیشن کی سیاست میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مریم نواز نے دوسرا پیغام اپنے چچا کو دیا ۔ انہیں ایک بار پھر بتایا کہ وہ ان کے مفاہمانہ سیاست کے نظریے سے اتفاق نہیں کرتیں۔ مریم نے کھلے لفظوں میں پیغام دیا کہ بس بہت ہو چکی مفاہمت کی سیاست ، اس سے کچھ حاصل ہوا ، نہ ہو گا۔لہذا آپ اپنے راستے پہ چلیے ،میں اپنے راستے پہ چلتی ہوں۔ مریم نے تیسرا پیغام اپنے کارکنوں، میڈیا اور طاقتور حلقوں کو دیااور وہ یہ کہ وہ شہباز شریف کی لیڈر شپ کو تسلیم نہیں کرتیں اور اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں۔ وہ خود سے کارکنوں کو متحرک کر سکتی ہیں،تحریک کی قیادت کر سکتی ہیں اور چاہیں تو سڑکوں پر جلائو ، گھیرائو اور پتھرائو کا منظر پیدا کر کے ٹی وی سکرینوں کا رخ اپنی جانب موڑ سکتی ہیں۔ گویا مریم نواز نے پیغام دینے کی کوشش کی کہ وہ شہباز شریف کے مقابلے میں ایک مکمل لیڈر ہیں اور اُن سے مختلف بھی۔ مریم نواز کو ایساکیوں کرنا پڑاہے اسے سمجھنا بھی مشکل نہیں۔ کچھ عرصہ سے مریم کی خاموشی سے دو طرح کے تاثر ملے تھے ، ایک یہ کہ وہ بھی مختلف وجوہات کی بنا پر مفاہمت کا شکار ہو گئی ہیں اور دوسرا یہ کہ انہوں نے اپنے چچا شہباز شریف کے نظریے کو تسلیم کر لیا ہے کہ خاموشی وقت کی ضرورت ہے۔ یہ تاثر زیادہ دیر تک قائم رہنے کا مطلب یہ تھا کہ مریم کی ذاتی شناخت کمزور ہو جاتی اور مستقبل کی قیادت مستقل طورپر شہباز شریف کی جھولی میں جا گرتی۔گویا سیاسی بقا کے لیے مریم نواز کی طرف سے ایسا پیغام آنا ضروری تھا جس سے ان کی الگ ذاتی سیاسی پہچان برقرار رہتی ۔ مستقبل کی تخت نشینی شریف خاندان کاایک بڑا مسئلہ ہے ۔ یہ وہ جنگ ہے جوجاتی عمرہ اور ماڈل ٹائون کے بیچ زوروں سے جاری ہے ۔شہباز شریف کے طرز سیاست کی اتباع مریم کے سیاسی مستقبل کو نگل سکتی ہے۔ یہی سوچ کر مریم نواز میں بے چینی بڑھنا منطقی معلوم ہوتا ہے۔ اس تاثر کی نفی چھوٹی ہی سہی اپنے خاندان میں ایک سیاسی جیت تو ہے ۔ یہ ممکن نہیں کہ نیب کے حملے والے واقعے سے شہباز شریف کے اندر بے چینی پیدا نہ ہوئی ، ان کے فلسفۂ مفاہمت کونقصان نہ پہنچا ہو، ان کو پارٹی پر اپنی گرفت کمزور محسوس نہ ہوئی ہواور انہوں نے خود کو بے بس محسوس نہ کیا ہو۔ شہباز شریف اور مریم میں ایک چیز البتہ مشترک ہے اور وہ یہ کہ پاکستانی اداروں کو نا اہل، جانبداراورکمزور بتانے میں دونوں کا ہی ثانی نہیں۔ پاکستان کے73ویں یوم آزادی کے موقع پر جب ہم اپنی سیاسی تاریخ کا تجزیہ کر رہے ہیں تو دیکھنا یہ ہو گا کہ پاکستان کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ پاکستان کے اداروں کو ایک حکمت عملی کے ساتھ تباہ کیا گیا ہے ۔ اداروں کوپہلے اپنے سیاسی فائدے کے لیے کمزور کر کے موم کی گڑیا بنا دیا گیا۔پھر پوری منصوبہ بندی کے ساتھ جب چند خاندان اداروں سے زیادہ طاقتور ہو گئے ، نیب ، پولیس، ایف آئی اے اور نچلی عدالتیں ان کے گھر کی لونڈی بن گئیںتو چرچا کیا گیا کہ ان اداروں کی کوئی ساکھ نہیں کیونکہ یہ ادارے تو حکمرانوں کے اشاروں پہ چلتے ہیں ۔یہ یونہی ہے کہ : پہلے تو عقل وہوش سے بیگانہ کر دیا مشہور خود ہی پھر مجھے دیوانہ کر دیا مسلم لیگ ن کے رہنمائوں سے سوال ہے کہ اداروں کو کمزور رکھنا کس کی ترجیح تھی۔ پولیس اور عدلیہ کو کون اپنے اشاروں پہ رکھنا چاہتا تھا، کون ہر جگہ پہ ’’اپنے بندے‘‘ لگانا چاہتا تھا۔ اپنا ڈی سی، اپنا جج، اپنا پٹواری، اپنا آئی جی، اپنا ایس ایچ او، اپنا ڈی جی ایف آئی اے اور اپنا چیف الیکشن کمشنر۔ اب شور مچایا جا رہا ہے، پولیس جانبدار ہے ،اس نے ریلی پہ پتھرائو کیا، نیب جانبدار ہے، اس نے حکومت سے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے ، عدلیہ جانبدار ہے ، اقامے پر فارغ کر دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ کے پاس حکومت تھی توآپ نے احتساب کے نام پر سیف الرحمن کی مدد سے کس قسم کا ادارہ قائم کیا اور اسے کیسے چلایا؟ پولیس کو کیسے سیاسی انتقام اور پرچے بازی کے لیے استعمال کیا۔ عدلیہ کے ججوں کے ساتھ ہونے والی آپ کی آڈیو ٹیپس منظر عام پر آ چکی ہیں۔ جب آپ کے پاس اداروں کو غیر جانبدار بنا کر اپنے پیروں پہ کھڑا کرنے کا موقع تھا، آپ نے کیا کیا؟ آج آپ کیسے پولیس اور نیب کو جانبدار قرار دے سکتے ہیں۔ آپ اداروں کی تباہی کا ذمہ دار کسے قرار دے رہے ہیں ۔ کیا آپ خود سے شکوہ کر رہے ہیں؟ آج اگر مریم نواز ذاتی سیاسی فائدے اورخود کو شہباز شریف سے الگ ، منفرد اور طاقتور دکھانے کے لیے پولیس پر پتھرائو کراتی ہیں ، پولیس جوانوں کو ظالم اور نیب کو جانبدار قرار دے دیتی ہیں۔اداروں کے تشخص کی پامالی کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتی ہیں تو یہ پاکستان کی کیسی خدمت ہے ؟ پاکستان کی تباہ حالی کے ذمہ دار کوئی اور نہیں وہی سیاستدان ، سیاسی جماعتیں اور طاقتیں ہیں جنہوں نے پاکستان میں ادارے بنانے تھے مگر انہوں نے تباہ کیے اوراب مریم اس گناہ میں اپنا بھرپور حصہ ڈال رہی ہیں۔