لاہور(نامہ نگار خصوصی)چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان نے وزیراعظم عمران خان خان کے 16 مشیران خاص کے تقرر کیخلاف درخواست پر وفاقی حکومت،وزیر اعظم کے تمام ایڈوائزرز اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کے جواب مانگ لیا ، عدالت نے ریمارکس دیئے بد قسمتی ہے لوگ بریف کیس لے کر آتے اور بریف کیس بھر کے چلے جاتے ہیں۔عدالت نے درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے معاونین خصوصی کی ملک کیلئے خدمات اور اثاثوں کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔فاضل چیف جسٹس نے ندیم سرور ایڈووکیٹ کی درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس نے قرار دیا سپشلسٹ لوگ ہوں، ٹیکنیکل ایکسپرٹس اسمبلی سے نہ مل سکیں تو ایسے لوگوں کو ایڈوائزر لگایا جا سکتا ہے ۔ عدالت نے استفسار کیا آئین میں کہاں ذکر ہے کہ وزیراعظم کے ایڈوائزر تعینات کئے جا سکتے ہیں؟ ۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا آئین کے آرٹیکل 93 کے تحت وزیر اعظم معاون خصوصی تعینات کر سکتا ہے ، آئین ایڈوائزرز کو پارلیمنٹ میں تقریر کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے ۔ چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا نوٹیفیکیشن جس میں کہا جاتا ہے معاون خصوصی کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابرہو گا یہ کہاں سے لیتے ہیں؟ ۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا سپریم کورٹ کے زلفی بخاری کیس کے فیصلے کی روشنی میں ایسا کیا جاتا ہے ۔ چیف جسٹس نے پوچھا معاون خصوصی کیسے کابینہ کی میٹنگ میں بیٹھ سکتے ہیں؟۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا معاون خصوصی کابینہ میں نہیں بیٹھ سکتے ، معاون خصوصی خاص طور پر بلائے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا بتا سکتے ہیں کتنے معاون خصوصی ہیں؟ اور ان کی کیا خصوصیت ہے ؟ ،ان میں سے اکثر اوورسیز پاکستانیز ہیں، ہمارے بڑے بزنس ٹائیکون ہیں، کبھی میڈیا کے ذریعے ایسی بات سامنے نہیں آئی کہ بہت بڑی رقم پاکستان بھیجی ہے ، 25 یا 30 کروڑ کی سرمایہ کاری لائے ہوں پھر بات ہے ، بڑے ہوٹلوں میں قیام کر لیا اور دوستوں پر کچھ خرچ کر دیا ،ایسا تو معمول میں ہوتا ہے ، ہمارا کلچر ہے کہ اس قسم کے خرچے کر کے چلے جاتے ہیں، یہ تو ان سفید پوش لوگوں کا نام استعمال کرتے ہیں جو 15، 16 گھنٹے کام کرتے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا جی بالکل انہی سفید پوش لوگوں کی وجہ سے ہمارے ملک میں غیر ملکی سرمایہ آتا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا بڑے لوگ صدر مملکت، وزیراعظم کو چیک دے کر تصویریں چھپوا کر میڈیا پر آجاتے ہیں، سفید پوش اوورسیز پاکستانیز اصل حصہ ڈالتے ہیں، یہاں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ جاتے ہوئے کیا کچھ لے گئے ہیں۔عدالت نے وفاقی حکومت اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے وزیراعظم کے تمام معاونین خصوصی کی تعیناتی کا طریقہ کار،ملک کیلئے خدمات اور اثاثوں کی تفصیلات بھی مانگ لیں۔صباح نیوزکے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کیا وزیر اعظم کو اتنا مکمل اختیار ہے کہ وہ اپنے کسی بھی ذاتی ملازم کو اپنا مشیر بناسکتے ہیں، کیا اس کے لئے کوئی قابلیت نہیں،وزیر اعظم کی کابینہ کا جو اجلاس ہوتا ہے اس میں بھی مشیر بیٹھتے ہیں۔یہاں پر ایک مشیر نے ملک میں25ہزار روپے کے اثاثے ڈکلیئر کئے اور بیرون ملک 25ہزار ڈالرز ہیں۔