ہیروڈوٹس نے کہا تھا :انسان کی سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ وہ بہت کچھ جانتا ہو مگر کچھ بھی اختیار نہ رکھتا ہو۔ مصور پاکستان نے کہا تھا : آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی اس وقت ڈالر کو پَر لگ چکے ہیں ،ایک ہی دن میں کئی بار اڑان بھر کر نہ صرف قومی قرضوں میں اضافے کا سبب بن رہا ہے بلکہ ایکسپورٹرز کو بھی پریشان کر رکھا ہے۔اس وقت ڈالر کی بڑھتی قیمت کو روکنا ناگزیر ہو چکاہے ۔ اگر حکومت نے اسے روکنے کے بروقت اقدامات نہ کیے تو کئی ایکسپورٹرز اپنے کام سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ جب ڈالر ایک روپیہ اوپر جاتا ہے تو ایکسپورٹرز پر ہزاروں روپے کا بوجھ بن جاتا ہے۔یہ صورتحال ڈالر کی غیر یقینی کشمکش کے باعث پیدا ہوتی ہے۔ ایکسپورٹرز کی برآمدات کا انحصار درآمدات پر ہوتا ہے،کیونکہ اسے خام مال درآمد کرنے کے 90 دن بعد ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ خام مال مہنگا پڑنے سے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں تیار ہونے والی اشیاء کے ریٹ بڑھ گئے ہیں، یہی وجہ ہے اس وقت آپ کا کسٹمر چین ،بنگلہ دیش اور بھارت منتقل ہو رہا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں روز بروز تبدیلی نے بزنس مین کے لیے بجٹ بنانا بھی مشکل کر دیا ہے۔ انھیں ہر وقت یہ خطرہ رہتا ہے کہ 90 دن بعد جب ادائیگی کا وقت آئے گا تو ڈالر کی قیمت کیا ہو گی۔ایسی صورتحال میں کاروباری لوگ کیا کریں ۔وہ حکومت سے ایک ہی مطالبہ کر رہے ہیں،کہ ڈالر کی قیمت چاہے کچھ بھی مقرر کر لی جائے لیکن اسے ایک سال کے لیے فکس کر دیںتاکہ کاروباری طبقہ اپنا حقیقی بجٹ بنا سکے۔ پاکستان سے ڈالر کی سمگلنگ بھی بڑا مسئلہ ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد غیر قانونی تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔تقریباً35سے 50 لاکھ ڈالرز روزانہ کی بنیاد پر سمگل ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اس کے علاوہ ایران بھی ڈالرز کی ضرورت پاکستان سے پوری کرتا دکھائی دیتا ہے۔ لہٰذاپاکستانی سرکار کو ملکی مفاد کے لیے ڈالر کی سمگلنگ روکنے کے لیے خصوصی اقدامات کرنا ہوں گے۔تاکہ ہم اپنے مسائل پر قابو پاسکیں ۔ اس کے علاوہ ان حالات میں برآمدات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ڈالر پر قابو پانے کے لیے طلب اور رسد کے فرق کو کم کرنا بھی ضروری ہے جو کہ برآمدات بڑھانے سے ہی ممکن ہے۔موجودہ حکومت نے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے کہ وہ پرتعیشات اشیاء درآمد نہیں کرے گی ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ50 ارب ڈالرز کی درآمدات میں سے اگر تین ملین ڈالرز کی درآمدات روک بھی لی جائیں تو کیا فرق پڑے گا۔اسی طرح گاڑیوں کی درآمد پر پابندی لگانے سے بھی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ حقیقی تبدیلی اس وقت آئے گی جب برآمدات میں اضافے کے نئے راستے نکالے جائیں گے۔ یاد رکھیں اخراجات کم کرنے سے ملک ترقی نہیں کرتے بلکہ آمدن بڑھانے سے ترقی کی منزلیں طے ہوتی ہیں۔ ڈالر کی غیر یقینی صورتحال کے باعث برآمدکندگان کسٹمرز سے ڈالرز نہیں منگوا رہے۔ وہ اس انتظار میں ہیں کہ ڈالر مزید بڑھے اور جب یہ بڑھنا رک جائے تو فنڈز پاکستان منگوائے جائیں۔ تاکہ زیادہ منافع کمایا جا سکے۔ دوسری طرف درآمدکندگان اس ڈر میں ڈالرز خرید کر ادائیگیاں کرتے جارہے ہیں کہ ڈالر مزید مہنگا ہونے سے نقصان کم سے کم ہو۔ مارکیٹ کے اس رویے سے بھی بدولت بھی ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ اس وقت پاکستان اور چین نے اپنی مقامی کرنسیوں روپے اور یوآن میں تجارت کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ ان دونوں ممالک کا ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کرتے ہوئے امریکی ڈالر کا استعمال ترک کرنے کا منصوبہ ہے۔ توقع ہے کہ مقامی کرنسیوں کے استعمال سے جنوبی ایشیاء کے خطے میں معاشی پریشانیوں میں کمی آئے گی۔ ہم نے مقامی مصنوعات پر درآمدی مصنوعات کو ترجیح دینے کی عادت ڈالنی ہے۔جو باعث افسوس ہے ۔ جب پاکستان عسکری طور پر کمزور نہ ہوا تو عالمی برادری نے ہمیں معاشی طور پر مفلوج کر کے اپنے مذموم مقاصد حاصل کر نا شروع کر دئیے ہیں ۔یہ سبق نہ پہلے کسی نے یاد رکھا نہ آئندہ رکھے گا کہ طاقت کی اپنی نفسیات ہوتی ہے۔طاقت میں اندھی طاقتیں بالعموم اندھی، گونگی اور بہری ہوتی ہیں۔ نہ وہ مدمقابل کے خد و خال دیکھتی، نہ اس سے کلام کرتی اور نہ اس کی دلیل سنتی ہیں۔ طاقت کا غرور اور طاقت آزمائی کا جنوں، طاقت کی وہ کمزوری ہے جو اسے نفع و نقصان سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ غرور، تکبر، رعونت اور خودسری کے تند خو گھوڑوں پر سوار یہ قوتیں، تصوارتی فتح کے پھریرے لہراتی اپنے حریف پر جھپٹتی ہیں۔مگر کیا انھیں علم نہیں کہ ان سے بھی ایک قوت طاقتور ہے ،جو ان کے بارود خانوں کو تاخت و تاراج کر دیتی ہیں ۔