تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ تاریخ سے کوئی نہیں سیکھتا جس طرح عمران خان کی حکومت 23سالہ سیاسی جدوجہد کے دعوے کے باوجود بغیر کسی تیاری کے اقتدار میں آئی تھی‘بالکل اسی طرح شہباز شریف کی مخلوط حکومت بھی حالات کا سامنا کرنے کے لئے بالکل تیار نہیں۔شہباز شریف پنجاب کی حکمرانی کا ایک وسیع تجربہ رکھتے ہیں لیکن وزیر اعظم کے طور پر وہ فی الحال کافی گھبرائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ حالات ہیں کہ دن بدن گھمبیر ہو رہے ہیں اور انہیں کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ خادم پنجاب کی حیثیت سے وہ خوب شعلہ بیانی کرتے تھے اور تمام شعبہ زندگی پر انہیں عبور حاصل تھا۔دوسرے صوبوں کے بارے میں ان کی معلومات ادھوری ہیں اور وہ پنجاب کی ہی مثالیں دیتے نظر آتے ہیں۔کے پی کے دورے کے دوران ان کی تقریر کسی Contentسے عاری تھی۔انہوں نے اپنے فن تقریر کا غلط اندازہ لگایا اور کوئی تیاری نہیں کی۔وزیر اعظم کے تقریر نویسوں کے لئے بھی یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔کپڑے بیچ کر سستا آٹا فراہم کرنے والا ان کا بیان ایک لطیفہ بن چکا ہے۔ حکومت پنجاب کے زمانے کے جتنے شعر ان کو یاد تھے انہوں نے بے موقع سنا دیے۔انہیں چاہیے کہ وہ وزیر اعظم کے شایان شان تقریر کیا کریں۔ فی الحال وزیر اعظم اپنی کابینہ کے اہم اراکین کے ہمراہ لندن میں موجود ہیں تاکہ نواز شریف سے رہنمائی لے سکیں۔انہیں پتہ ہونا چاہیے کہ عوام کی نظر میں یہ اقدام کسی طرح بھی مستحسن نہیں ہے۔نواز شریف ن لیگ اور جناب وزیر اعظم کی نظر میں جتنے بھی محترم ہوں قانون کی نظر میں وہ ابھی تک مجرم اورمفرور ہیں۔شاید نواز شریف کا انہیں لندن طلب کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ شہباز شریف اور قوم کو یہ بتا سکیں کہ اقتدار کی اصل باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہے۔ شہباز شریف کی لندن طلبی سے مریم نواز کو کسی حد تک سکون ملا ہے کہ اقتدار اب بھی انہی کے ہاتھ میں ہے اور نواز شریف کی انا کو بھی تسکین ملی ہے ورنہ یہ صلاح مشورہ تو آن لائن کانفرنس کے ذریعے بھی ہو سکتا تھا۔پاکستان کے عام لوگوں کو بانی ایم کیو ایم کا طرز حکومت یاد آ گیا ہے جب لندن کے احکامات پر کراچی میں عمل ہوتا تھا۔عمران خان کی سازش تھیوری کو بھی اس سے تقویت ملی ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے، ورنہ پاکستان کی حالات تو آن لائن بھی زیر بحث آ سکتے تھے۔ لندن کانفرنس کے اس اعلان نے کہ نواز شریف کی سزا کو سپریم کورٹ کے ذریعے معطل کروانے کی درخواست کی جائے گی۔سپریم کورٹ کو بھی ایک نئے امتحان میں ڈال دیا ہے۔اس کانفرنس نے حکومت کے واحد حریف عمران خان کو اپنی تقریروں کے لئے مزید گولہ بارود مہیا کر دیا ہے ۔ سب سے بڑا امتحان تو وزیر اعظم شہباز شریف کے لئے ہے کہ وہ ملک بھی کامیابی سے چلائیں‘ اپنے حلیفوں کو خوش رکھیں اور نواز شریف اور مریم نواز کی انا کی بھی تسکین کریں اور پاکستانی عوام کا سامنا بھی کریں۔مریم نواز کو VIPسکیورٹی مہیا کر دی گئی ہے اور جس فدویانہ انداز سے شہباز شریف اپنے برادر بزرگ سے گلے ملتے نظر آئے ہیں وہ اہل نظر کے لئے قابل غور ہے۔اپنی کمر کی تکلیف کے باوجود وہ اتنا جھکے کہ ان کا سر نواز شریف کے پیٹ سے گلے ملتے نظر آیا۔ مریم نواز کی تقریر یںجوش و خروش سے بھر پور ہیں۔انہوں نے تو اپنی جماعت کو حتمی رائے دے دی ہے کہ مسلم لیگ ن کو عمران خان کے گناہوں کا ٹوکرا اپنے سر نہیں لینا چاہیے اور جلداز جلد انتخابات کا اعلان کرنا چاہیے لیکن بیچ میں ایک سخن گسترانہ بات یہ آن پڑی ہے کہ سیاست کے استاد اعظم آصف زرداری کسی طرح بھی جلدی الیکشن کے حق میں نہیں ہیں اور ایک پریس کانفرنس میں اس کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ شنید یہ ہے کہ وہ نواز شریف کو بھی قائل کر چکے ہیں اور لندن سے یہی اعلان متوقع ہے ۔ن لیگ کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ بھی یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ وہ بیس لاکھ تو کیا بیس افراد کو بھی اسلام آباد داخل نہیں ہونے دیں گے۔دوسری طرف عمران خان اب بیس لاکھ کی بجائے پچیس لاکھ لوگ لانے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ان حالات میں مستقبل قریب میں اسلام آباد کا کوئی خوشنما نقشہ نظروں میں نہیں ابھر رہا۔کوئی بھی فریق تاریخ سے سبق سیکھنے پر تیار نظر نہیں آتا اور جب تک تاریخ سے سبق نہ سیکھا جائے تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے۔خدا کرے کہ تمام فریق عقل اور صبر کا دامن تھامیں اور بات چیت سے مسائل کا حل تلاش کریں۔سیاستدانوں کو اپنے مسائل حتی الامکان خود ہی حل کرنے چاہئیں۔ فوج کی طرف سے بار بار انتباہ کیا جا رہا ہے کہ انہیں سیاست میں نہ گھسیٹا جائے لیکن فی الحال سیاسی جماعتیں اس پر کان دھرتی نظر نہیں آتیں۔مریم نواز کا تازہ مشورہ یہ ہے کہ فوج کا سربراہ ایسا شخص ہونا چاہیے جو ہر داغ سے پاک ہو البتہ وہ اس مشورے کا اطلاق وزیر اعظم‘وزرائے اعلیٰ اور دوسرے وزیروں پر ضروری نہیں سمجھتیں۔موجودہ حکومت کے 60فیصد وزراء ضمانت پر ہیں۔وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب بڑی مشکل سے فرد جرم عائد ہونے سے بچنے کے لئے کوشاں ہیں۔مریم نواز خود اور ان کے والد محترم سزا یافتہ ہیں ۔ وزیر اعظم شہباز شریف پر اس وقت سب سے بھاری ذمہ داری ہے۔ان کا پنجاب میں حکومت کا ریکارڈ بھی ایک مستعد منتظم کا ہے۔باقی ساری جماعتوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں ۔وزیر اعظم کو اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر وطن عزیز کو اس مشکل سے نکالنا ہو گا۔سیاسی قوتوں کے ٹکرائو سے بچنا ہو گا ورنہ حالات سیاسی قوتوں کے ہاتھ سے باہر نکل جائیں گے۔مذاکرات سے ہی مسئلے کا حل نکلے گا۔جتنی جلدی انتخابات ہوں گے اتنا ہی پاکستان کے لئے بہتر ہے۔آخری فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔سری لنکا کی تازہ ترین مثال کو بھی نظر میں رکھیں۔