پاکستان کے حالات اجتماعی طور پر کیسے ہی خراب کیوں نہ ہوں‘ اداروں کی جتنی بھی زبوں حالی ہو لیکن ایک بات ہے کہ انفرادی طور پر یہاں باکمال لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ بعض تو ایسی نادرِ روزگار ہستیاں ہیں جو اپنے وجود میں ادارہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس ملک نے بڑے بڑے شاعر‘ افسانہ نگار‘ مصوّر‘ سائنس دان‘گلوکار ‘ موسیقار‘ مورخ‘ علمائ‘سفارت کار‘اساتذہ‘‘ صحافی‘ ڈاکٹرز ‘ انجینئر ز‘ ماہرین معیشت ‘ کھلاڑی پیدا کیے ہیں حالانکہ ملک کا مجموعی ماحول انکی نشوونما کے لیے سازگار نہیں تھا۔ نہ اب ہے۔ معاشرہ علوم و فنون کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ ریاستی ادارے صاحبانِ علم و فن کی سرپرستی نہیں کرتے۔ سیاستدان‘ سرکاری افسران اور مالدار لوگ مملکت کے نظام پر غالب ہیں اور انکے ذاتی مالی مفادات اُنکے نزدیک زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔تاہم ہمارے ملک میں ایسے لوگوںکی کمی نہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے خصوصی صلاحیتوںسے نوازا ہے۔ جو اپنے اپنے شعبہ میں انتھک محنت‘ مستقل مزاجی اور لگن سے بامِ عروج پر پہنچ گئے۔ نامساعد حالات سے مایوس نہیں ہوئے۔ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے آگے بڑھتے گئے۔ افسوس یہ ہے کہ ایسے بے شماراعلیٰ پائے کے لوگوں کی زندگی اور کارناموں کے احوال محفوظ کرنے کا کوئی بندوبست نہیں۔ ان لوگوں کی مختصر سوانح بھی پڑھنے کو نہیں ملتی۔ کیسے کیسے قیمتی لوگ تھے جنہوں نے ہماری زندگیوں کو بہتر بنانے اور ہماری تہذیب کو مالا مال کرنے میں عمریں گزاردیںلیکن اُنکے بارے میں نئی نسل کچھ نہیں جانتی۔کیونکہ کسی نے انکی زندگی کے سفر کو قلمبند نہیں کیا۔ ترقی یافتہ معاشروں میں ایسے لوگوں پر مضامین لکھے جاتے ہیں‘ کتابیں تحریر کی جاتی ہیں ‘ دستاویزی فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں انہیں فراموش کردیا جاتا ہے۔بہت کم خوش نصیب ہیں جن پر انکے کسی مداح نے کتاب لکھ دی ہو۔البتہ کچھ لوگوں کے انٹرویو اخبارات و رسائل میں شائع ہوجاتے ہیں۔ یہ پرانے اخبارات لائبریریوں کے تاریک کمروں میں بند گردسمیٹتے رہتے ہیں۔ کوئی بھولا بھٹکا محقق انہیں کھنگالتا ہے وہ بھی زیادہ تر سیاسی تاریخ جاننے کیلیے۔ ایسے حوصلہ شکن ماحول میںاگر کوئی صحافی یا ادیب کسی صاحب ِکمال شخص کی زندگی کے بارے میں سوانحی مضمون لکھے یا انٹرویو کرے تو وہ ہوا کا ایک تازہ جھونکا ہے۔ اس ضمن میں ہمارے ساتھی صحافی محمودالحسن نے بڑا کام کیا ہے ۔ انہوں نے ایک معاصر اخبار میں ایسے لوگوں کے سوانحی انٹرویو کرکے شائع کیے ۔ اب 92 نیوز میں اس روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ایک طرح سے انہوں نے ہماری تاریخ کے ان گوشوں کو محفوظ بنایا ہے جو بصورتِ دیگر گُم ہوجانے کا خدشہ ہے۔ ایک اور معاصر روزنامہ میں سینئیر صحافی حفیظ ظفر یہ خدمت انجام دے رہے ہیں۔ حفیظ ظفر نے اچھا کام یہ کیا ہے کہ بائیس اہم لوگوں سے کیے گئے تفصیلی انٹرویو ایک کتابی شکل میں شائع کروادیے ہیں ۔ کتاب کا نام ہے ’ان کہی‘۔ کیا خوبصورت کتاب ہے کہ ایک دفعہ پڑھنا شروع کرو تو جب تک مکمل نہ ہوجائے اُسے چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا۔جو لوگ کتاب اور سوانح پڑھنے کے شوقین ہیں انکے لیے یہ کتاب کسی قیمتی تحفہ سے کم نہیں۔کیسے کیسے خوبصورت لوگوں کے انٹرویوز اس میںشامل ہیں۔ خاص طور سے فلمی دنیا کے بارے میں۔ حفیظ ظفر فلموں کے بارے میںچلتے پھرتے انسائکلوپیڈیا ہیں۔آپ کسی گانے کے بول بتائیے تو وہ صرف گلوکار کا نام نہیں بلکہ فلم کا نام ‘ اسکے ہدایتکار کا نام بتادیں گے۔بعض اوقات تو اس فلم کے ایک دو اچھے مکالمے بھی سنادیں گے۔ کوئی مکالمہ سُن کر فلم کا نام بتا سکتے ہیں۔ اب دیکھیے کہ کتنے لو گ ہونگے جو ہماری فلموں کی بڑی اداکارہ بہار بیگم کے بارے میں جانتے ہوں۔ حفیظ ظفر نے بہار سے انٹرویو میں نامور اداکارہ کی زندگی کی اہم بنیادی معلومات کا احاطہ کرلیا ہے۔ان کی زبانی ہمیں فلمی دنیا کی وہ باتیں جاننے کا موقع ملتا ہے جن سے ہم رُوشناس نہیں۔نامور اداکاروں مصطفی قریشی‘ فردوس جمال‘ عثمان پیرزادہ‘قوی خان‘ شاہد حمید(ایکٹر)‘ علی اعجاز کے سوانحی انٹرویوز اس کتاب کی زینت ہیں۔عام طور سے فلموں کے ہدایت کار پس منظر میں رہتے ہیں۔ ہم ان شخصیات کے بارے میںزیادہ نہیں جانتے گو کہ کسی فلم کے اچھے یا برے ہونے میں ہدایت کار کا اہم کردار ہوتا ہے۔ کتاب میںحسن عسکری‘محمد پرویز کلیم‘اقبال کاشمیری ایسے نامور ہدایتکاروں کے انٹرویوز سے ان کی زندگی کے حالات کا علم ہوتا ہے ۔ معاصر اور سینئیردیگر ہدایتکاروں‘ اداکاروں کے بارے میں بھی مستند معلومات ملتی ہیں۔تین دہائی پہلے اپنی مخصوص طرز کے گلوکار اے نئیربہت مقبول تھے۔ نئی نسل شائد اس نام سے بھی واقف نہ ہو۔ وہ کینیڈا منتقل ہوگئے تھے۔اے نئیرسے کی گئی بات چیت کتاب میں شامل ہے۔دو سیاسی شخصیات کے انٹرویو خاص طور سے پڑھنے کے قابل ہیں۔ ایک پیپلزپارٹی کے بانی رکن اسلم گورداسپوری کا جس سے ہمیں پارٹی کے اندرونی حالات اور اسکے زوّال کا پتہ چلتا ہے۔ دوسرے لیفٹیننٹ جنرل فیض چشتی (ریٹائرڈ) کا جنہوں نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل اور اس وقت کے سیاسی حالات کے بارے میں انکشافات کیے ہیں۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری اور محترمہ یاسمین حمید ایسی ادبی شخصیات کی بصیرت افروز گفتگو سے ادبی نظر نامہ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ حفیظ ظفر کے انٹرویو کی کتاب پڑھ کر دل چاہتا ہے کہ وہ اور کام چھوڑیں اورخود کو ایسے انٹرویوز کے لیے وقف کردیں۔ ملک میں سینکڑوں باکمال لوگ ہیں جنکی زندگی کے احوال اور انکی دلچسپ باتیں محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ ہمارا بیش قیمت ورثہ ہیں جسے اگلی نسلوں تک منتقل ہونا چاہیے۔ بہت سے لوگوں کے انٹرویوزرسائل اور اخبارات میں بکھرے ہوئے ہیں۔کوئی شخص انہیں جمع کرکے کتابی شکل میں شائع کر دے تو یہ بڑا کام ہوگا کیونکہ پرانے اخبارات اور رسائل کی نسبت کتاب تک رسائی قدرے آسان ہوتی ہے۔ایک مشکل یہ ہے کہ اس ملک میں کتاب پڑھنے والے کم ہیں اور شائع کرنے والے بھی۔دنیا کے کئی ملکوں میںکتاب لکھنے والے اپنی تصنیف کے عوض رائلٹی کی شکل میں معقول معاوضہ پاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ اکثر مصنفین کو اپنی جیب سے رقم دیکر کتاب شائع کروانا پڑتی ہے جس کے بدلہ میںناشر اُسے صرف سو دو سو کتابیں عنایت کرتا ہے۔ باقی تین چار سو کتابیں بیچ کرخود منافع کماتا ہے۔ مصنف کو اصل رقم بھی واپس نہیں کرتا۔ ایسے مشکل حالات میں ایک صحافی کا اپنی کتاب شائع کروانا بذاتِ خود ایک قومی خدمت ہے۔