وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کی صورت میں چین اور پاکستان مل کر افغانستان کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سہ فریقی ورچوئل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن و استحکام کیلئے اپنی کاوشیں جاری رکھے ہوئے ہے، ہماری پہلی ترجیح " افغانستان " کا امن ہے ۔ پاکستان نے افغانستان کو تاریخی مدد فراہم کی ہے۔ سوویت یونین نے جب افغانستان پر حملہ کیا تو یہ پاکستان تھا جس نے بین الاقوامی امداد کو افغانستان تک پہنچایا‘ افغانوں کے شانہ بشانہ جہادمیں حصہ لیا اور پھر 50لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دی۔ چالیس برس گزرنے کے بعد بھی پندرہ لاکھ سے زاید افغان مہاجرین پاکستان میں مقیم ہیں۔ پاکستان اپنے محدود وسائل کے باوجود ان پناہ گزینوں کی مدد کر رہا ہے۔ یہی نہیں رواں مالی سال کے دوران پاکستان نے افغانستان میں تعمیر نو کے لئے ایکارب ڈالر مختص کئے ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کے واضح دبائو کے باعث پاکستان کو اپنی پالیسی میں لچک پیدا کرنا پڑی تاہم پاکستان نے مسلسل یہ موقف اپنائے رکھا کہ افغان تنازع کو جنگ سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ بیس برس کی جنگ اور بھاری جانی و مالی نقصانات کے بعد آخر امریکہ کو اسی بات پر رضا مند ہونا پڑا۔یہاں مسئلہ یہ تھا کہ طالبان لڑتے لڑتے تھک چکے امریکہ سے مذاکرات کیوں کریں‘ پھر طالبان کو افغان حکام سے بات کرنے کے لئے آمادہ کرنا آسان نہ تھا۔ اس بار پاکستان نے تنہا کردار ادا کرنے کی بجائے دوست ملک اور ابھرتی ہوئی سپر پاور چین اور روس کو اپنے ساتھ شامل کیا۔ سلامتی کونسل کے دو مستقل اراکین کی شمولیت سے پاکستان کی حکمت عملی کو عالمی سطح پر زیادہ پذیرائی ملی۔ امریکی محکمہ دفاع کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں (اکتوبر 2001 ء سے ستمبر 2019 ء تک) مجموعی فوجی اخراجات 778 ارب ڈالر تھے۔اس کے علاوہ امریکی محکمہ خارجہ، امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) اور دیگر سرکاری ایجنسیوں نے تعمیر نو کے منصوبوں پر 44 ارب ڈالر خرچ کیے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2001 میں جنگ کے آعاز سے اب تک آنے والی مجموعی لاگت 822 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن اس میں پاکستان میں آنے والے اخراجات شامل نہیں جسے امریکہ افغان سے متعلقہ کارروائیوں کیلئے اپنے فوجی اڈے کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔براؤن یونیورسٹی کے 'کاسٹ آف وار ' منصوبے میں ایک تحقیق کی گئی ۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی جنگ کے بارے میں امریکہ کے سرکاری اعداد و شمار کافی حد تک کم ہیں۔ یکم مئی2021ء سے امریکا کی جانب سے اپنے بقیہ ڈھائی ہزار فوجیوں کے باضابطہ طور پر انخلا کے آغاز کے بعد کئی دیگر صوبوں میں بھی لڑائی شروع ہوگئی ہے۔پینٹاگون نے اس لڑائی کو مذمت کی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ 'ہم نے ابھی تک ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی جس نے انخلا کو متاثر کیا ہو یا جس سے افغانستان میں موجود مشن پر کوئی خاص اثر پڑا ہو۔ طالبان نے متعدد تازہ کارروائیوں کے دوران بہت سے نئے علاقوں پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے ۔ یہ صورتحال اشرف غنی حکومت کیلئے پریشان کن ہے جسے خدشہ ہے کہ امریکہ کے نکلتے ہی طالبان اپنا اقتدار قائم کر لیں گے، اسی طرح کے خدشات بھارت ظاہر کر رہا ہے۔بھارت کا خیال ہے کہ طالبان کی واپسی کا اثر کشمیر اور بھارت میں مسلم دشمنی پر مبنی پالیسیوں پر پڑ سکتا ہے ۔اس کا سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ پاکستان اور چین خطے میں اسے تنہا کر کے تمام ممالک کو جوڑ سکتے ہیں۔ گیارہ ستمبر 2001 ء کے حملوں کے بعد امریکی اور اتحادی نیٹو افواج نے افغانستان پر حملہ کرنے اور طالبان حکومت کو بے دخل کرنے کے تقریباً 20 سال بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے حتمی انخلا کا حکم دیا تھا۔امریکہ کی پچھلی اور موجودہ حکومت جان چکی ہے کہ اس تنازع میں الجھ کر اس نے بدنامی اور معاشی خسارے کے سوا کچھ نہیں کمایا ۔ اب امریکہ صرف بھارت کے مفادات کی خاطر اپنا خسارہ بڑھانے پر آمادہ نہیں۔حالیہ دنوںسرکاری افواج پر طالبان کے حملوں نے یہ خدشات پیدا کردیے ہیں کہ انخلا کے دوران امریکی افواج بھی خطرے میں ہیں۔امن عمل کی کامیابی کو یقینی بنانے میں پاکستان اہم کردار کا حامل ہے۔ آنے والے وقت میں افغانستان میں پاکستان کے اہم تعمیری کردار ادا کرنے سے چین اپنے مفادات کی حفاظت کر سکتا ہے۔ چین کی سیاسی اور معاشی معاونت نے اسے ’’موزوں ثالثی والا ملک‘‘ بنا دیا ہے۔ امریکی افواج کی واپسی کے بعد افغانستان میں بین الاقوامی ذمہ داریوں کا ازسرِنو تعین کرنے کی ضرورت محسوس ہو گی۔ پاکستان افغانستان کی معاشرت اور طاقت کے مراکز سے آگاہ ہے‘ مضبوط روابط اور افغان عوام کی عشروں پر محیط مدد کے دوران پاکستان اس امر سے آگاہ ہے کہ جنگ سے تباہ حال ہمسائے کی تعمیر نو کن بنیادوں پر کی جا سکتی ہے۔ اس موقع پر چین سے توقع کی جا رہی ہے کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے سمیت دنیا کو تجارتی راہداریوں سے ملا کر تنازعات سے بچانے کا آغاز ہمسائے سے کیا جانا چاہیے۔ افغانستان کی تعمیر نو کے لئے امریکہ‘ نیٹو اور بھارت کے منصوبے بدعنوانی اور جنگ کھا گئی۔ پاکستان اور چین تعمیر نو کے لئے ذمہ داری لیتے ہیں تو افغانستان میں ایک پرامن سماجی و سیاسی ڈھانچہ بھی معاشی ڈھانچے کے پہلو بہ پہلو استوار ہوسکتا ہے۔