داسو میں چینی انجینئروں کی بس میں بارودی مواد لگا کر تباہ کرنے کے واقعہ کی تحقیقات مکمل کرلی گئی ہیں۔ وزیر داخلہ شیخ رشید نے پریس کانفرنس میں داسو واقعہ کے پس منظر سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت‘ اسرائیل اور افغانستان مل کر پاکستان کے خلاف منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ داسو واقعہ کی تحقیقات میں جو اہم پیشرفت ہوئی ہے‘ وہ ذمہ دار کا تعین ہے۔ تفتیش پر مامور ادارے اس شک کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ چینی انجینئروں کی موت کی ذمہ دار ایسٹ ترکستان موومنٹ ہے جبکہ حتمی رپورٹ میں تحریک طالبان پاکستان ملوث بتائی گئی ہے۔ جس امر سے اطمینان کا پہلو برآمد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ تحریک طالبان افغانستان نے ٹی ٹی پی کو پاکستان میں بدامنی پھیلانے پر اپنے سیلاتعلق کرنے اور ایسی کارروائیاں روکنے کا انتباہ کیا ہے۔ تحریک طالبان افغانستان اور تحریک طالبان پاکستان گو نام کی حد تک ایک جیسی نظر آتی ہیں اور یہ تاثر ملتا ہے کہ ایک ہی تنظیم دو ملکوں میں اپنی الگ جغرافیائی شناخت کے ساتھ کام کر رہی ہے لیکن دونوں میں ایک فرق بہت نمایاں ہے جسے بسا اوقات ان تنظیموں کا کردار زیر بحث لاتے ہوئے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ افغان طالبان نے ہمیشہ اپنے مقاصد کو افغان سرزمین تک محدود رکھا۔ افغان طالبان کا خطے کے حوالے سے یا عالمی سطح کا ایسا کوئی ایجنڈہ نہیں جو القاعدہ‘ داعش یا دیگر تنظیموں کا ہے۔ افغان طالبان ریاست پاکستان کے مفادات کو دوستانہ مفادات کے طور پر دیکھتے ہیں۔ پاکستان اور افغان طالبان کے مابین ایک دوسرے کے احترام کا مظاہرہ امریکی جنگ کے دوران طالبان رہنمائوں کا پرامن ہو کر پاکستان میں پناہ حاصل کرنے کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف بیس سال تک امریکہ نے جنگ لڑی۔ امریکہ کی اس جنگ میں پاکستان کی شرکت اس حد تک بحالت مجبوری رہی جو عالمی قراردادوں اور اداروں کی شرائط میں بیان کی گئی تھیں‘ جہاں پاکستان اپنی رائے اور پالیسی کے متعلق آزاد تھا وہاں کوشش کی گئی کہ معاملات کو طے کرنے کے لیے جنگ کی بجائے مذاکرات کاراستہ اختیار کیا جائے۔ پاکستان نے افغان عوام کی نمائندگی کرنے والے طالبان کی سیاسی و سفارتی سطح پر مدد کی۔ وزیراعظم عمران خان نے شکست سے دوچار امریکہ کو باور کرایا کہ افغانستان سے باعزت واپسی اسی صورت میں ممکن ہو گی اگر طالبان سے بات کی جائے۔ پاکستان نے نہ صرف طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا انتظام کیا بلکہ طالبان کو بین الافغان مذاکرات کے لیے آمادہ کیا۔ طالبان کو چین‘ روس اور دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر بعداز انخلا افغانستان میں حکمت عملی ترتیب دینے پر آمادہ کیا تاکہ انہیں عالمی حمایت حاصل رہے۔تحریک طالبان پاکستان ایک چھتری نما تنظیم ہے جو پاکستان میں سرگرم مختلف تشدد پسند اور دہشت گرد تنظیموں کو اپنے اندرسموئے ہوئے ہے۔ ٹی ٹی پی تشدد پسند نظریات کے حامل پشتون افراد کی تنظیم ہے۔ اس میں شامل گروپ پاک افغان سرحد پر سرگرم رہتے ہیں۔ ٹی ٹی پی پاکستان کے سکیورٹی اداروں اور اہلکاروں پر حملوں میں ملوث رہی ہے۔ جس وقت پاکستان افغان عوام کو جنگ سے محفوظ رکھنے کے لیے کردر ادا کر رہا تھا اس وقت ٹی ٹی پی پاکستان کے مختلف علاقوں میں خودکش حملہ آوروں کے ذریعے کارروائیاں کر رہی تھی۔ ٹی ٹی پی اپنے نام کی وجہ سے یہ دھوکہ دیتی ہے کہ وہ افغان طالبان کی اتحادی ہے حالانکہ ٹی ٹی پی اور اس کی اتحادی تنظیموں کا ایجنڈہ ہمیشہ افغان طالبان کی ساکھ کو مسخ کرنے کا باعث بنا ہے۔ ٹی ٹی پی بھارت اور ان دیگر عالمی قوتوں کی آلہ کار رہی ہے جو پاکستان میں بدامنی چاہتی ہیں اور ترقی کے عمل کو روکنے کی خواہاں ہے۔ گزشتہ ماہ سی این این کو انٹرویو کے دوران ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی خان محسود نے کہا تھا کہ ان کی جنگ کا مرکز صرف پاکستان ہے اور ہم پاکستانی سکیورٹی فورسز سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ نور ولی محسود نے پاکستان کے قبائلی سرحدی علاقے کا کنٹرول حاصل کر کے الگ ملک بنانے کی بات بھی کی۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران ٹی ٹی پی نے صرف افغان سرحد سے ملحق پاکستانی علاقوں میں کارروائیاں نہیں کیں بلکہ رواں برس کوئٹہ کے سرینا ہوٹل کو نشانہ بنایا جہاں پانچ افراد جاں بحق ہوئے اور چینی سفیر بمشکل بچ سکے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جماعت الاحرار‘ حزب الاحرار‘ شہریار محسود گروپ‘ امجد فاروقی گروپ‘ عثمان سیف اللہ گروپ (لشکر جھنگوی کا دھڑہ) وغیرہ ٹی ٹی پی کا حصہ ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ افغانستان میں جب تک طالبان دوبارہ طاقتور نہ ہوئے تھے اس وقت افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان کے کارکنوں کے درمیان جھڑیں ہوتی رہی ہیں۔داسو ڈیم پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے اور بجلی کی سستی پیداوار کے حوالے سے اہم منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کی تعمیر کے لیے دوست ملک چین نے مالی اور تکنیکی معاونت فراہم کی ہے۔ چینی انجنیئر ڈیم کی تعمیر کے کام کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ڈیڑھ ماہ پہلے چینی انجنیئر اور پاکستانی سٹاف ڈیم پر کام ختم کر کے واپس آ رہے تھے کہ ان کی بس حادثے کا شکار ہوگئی۔ معلوم ہوا کہ گاڑی کو بارود سے تباہ کرنے کی کارروائی کی گئی ۔ یہ واقعہ داسو ڈیم کی تعمیر‘ پاک چین تعلقات اور سکیورٹی کی عمومی صورت حال کے حوالے سے سنگین تھا۔ چینی حکومت نے بھی سخت رویہ اپنایا جس کے باعث پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے تخریبی کارروائی کے ذمہ داروں کی تلاش شروع کردی۔ بعدازاں تحریک طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ اب جبکہ افغانستان میں طالبان اکثریتی علاقے پر قابض ہو چکے ہیں تو انہیں پاکستان کے داخلی امن و استحکام کے خلاف کام کرنیوالے گروپوں سے لاتعلقی کا اعلان کرنا چاہیے۔ خصوصاً ٹی ٹی پی کو سخت پیغام جانا چاہیے کہ اگر اس نے دہشت گردانہ کارروائیاں جاری رکھیں تو افغانستان میں انہیں پناہ نہیں دی جائے گی۔