وفاقی وزیر پیر نور الحق قادری اور علی محمد خان کی وضاحتوں پر کون یقین کرے گا؟ کمان سے نکلا تیر کب واپس آتا ہے؟۔ پاکستانی قوم عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے حساس ہے اور مرزا غلام احمد قادیانی کی اُمہ کے شاطرانہ طرز عمل‘ ملک کے اسلامی تشخص سے الرجک لبرل سیکولر طبقے کے انداز فکر سے بخوبی واقف۔ اقلیتوں کے بارے میں قومی کمشن کی تشکیل اور اس میں قادیانی رکن کی شمولیت پر وہ شک و شبے میں مبتلا کیوں نہ ہو‘ دودھ کا جلا چھاچھ پھونک کر پیتا ہے۔ سرکاری دستاویزات کے حوالے سے خبر یہ چلی کہ اقلیتوں کے بارے میں قومی کمشن تشکیل دیا جا رہا ہے جس میں مسلمان ارکان کے علاوہ مختلف اقلیتوں ہندوئوں‘ مسیحیوں‘ سکھوں کے علاوہ احمدیوں کی نمائندگی ہو گی‘کہا یہ گیا کہ وزارت مذہبی امور کے ابتدائی مسودے میں احمدیوں کی نمائندگی کا ذکر نہ تھا‘وفاقی کابینہ نے اس پر اصرار کیا اور اب کمشن میں احمدیوں کو بھی نمائندگی حاصل ہو گی۔ سوشل میڈیا پر یہ بحث زور شور سے جاری ہے کہ کیا اقلیت کے طور پر قادیانیوں کے (جو اپنے آپ کو احمدی کہلانے پر اصرار کرتے ہیں)کوئی حقوق نہیں اور اگر عمران خان غیر مسلم رکن کے طور پر کسی قادیانی یا احمدی کو قومی کمشن پر اقلیت میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو اعتراض کیوں؟ آخر مذہبی طبقہ دیگر اقلیتوں کی طرح قادیانیوں کو آئین میں حاصل حقوق سے محروم کیوں رکھنا چاہتا ہے؟ کیا یہ تنگ نظری نہیں؟ 1974ء میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے طویل بحث مباحثے‘جرح و تعدیل اور قادیانیوں کے دو مکاتب فکر کے سربراہوں مرزا ناصر احمدآف ربوہ اور لاہور جماعت کے مولانا صدر الدین کے تفصیلی بیانات‘ دلائل اور اعتراضات کے بعد قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اسے صدی کا اہم مگر مشکل ترین فیصلہ بتایا۔ مرزا غلام احمد کے پیرو کاروں نے اس فیصلے کو تسلیم کرنے کے بجائے اصرارکیا کہ وہ حقیقی مسلمان ہیں اور اُن سے اختلاف کرنے والے مسلمان غیر مسلم۔یحییٰ بختیار مرحوم نے ایک بار بتایا تھا کہ بھٹو صاحب مرزا ناصر احمد کا پارلیمنٹ میں بیان سن کر ہکا بکا رہ گئے اور بار بار پوچھتے تھے کہ کیا قادیانیوں کے نزدیک میں بھی مسلمان نہیں؟ یہ فیصلہ آنے کے بعد قادیانیوں نے اپنے آپ کو مسلمانوں سے الگ تھلگ ‘1973ء کے آئین کو ماننے سے انکار کیا‘ وزیر اعظم کے مشیر ڈاکٹر عبدالسلام اپنے منصب سے استعفیٰ دے کر بیرون ملک چلے گئے اور زندگی بھر پاکستان کے خلاف سازشوں میں شریک رہے‘ پاکستان کے کسی مذہبی رہنما اور عام مسلمان نے قادیانیوں یا احمدیوں کے بطور اقلیت آئینی و قانونی حقوق سے کبھی انکار کیا نہ انہیں گردن زدنی قرار دیا‘ یہ قادیانی ہیں جو اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت ماننے سے انکاری اور عام انتخابات میں حصہ لے کر بطور شہری اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں‘ ضد ان کی یہ ہے کہ پہلے انہیں مسلمان تسلیم کیا جائے‘ مسلمانوں کی طرح نماز‘روزہ‘ حج کی ادائیگی کی آزادی اور مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کا پرچار کرنے کی چھٹی دی جائے پھر وہ قومی اُمور میں شریک ہوں گے ۔ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے ہر مرحلہ پر پر یہ کوشش ہوئی کہ کسی نہ کسی طرح قادیانیوں اور احمدیوں کو چپکے سے مسلمانوں کی صف میں شامل کر کے امریکہ و یورپ اور اندرون ملک ان کے گماشتوں کی خوشنودی کا اہتمام کیا جائے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں یہ کوشش ہوئی‘ جنرل پرویز مشرف کو بھی ابتدائی دور میں یہ پٹی پڑھائی گئی‘ میاں نواز شریف کے نامزد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے حلف نامے میں تبدیلی کے ذریعے یہ کارنامہ انجام دینا چاہا‘ مگر ہر بار سازشی عناصر کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی عاطف میاں کو اقتصادی مشاورتی کونسل کا رکن نامزد کردیا مگر جلد ہی حکومت کے ہوش ٹھکانے آ گئے اور یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ قومی کمیشن برائے اقلیت میں قادیانی رکن کی نامزدگی بھی ایسا ہی بے سوچا سمجھا فیصلہ ہے‘ حکومت کی نیت پر کسی کو شک ہے نہ غیر مسلم رکن کے طور پر قادیانی اور احمدی شخص کی نامزدگی پر اعتراض ؟ سوال یہ ہے کہ کمشن کی تشکیل سے قبل قوم اور اس معاملے سے جڑے افراد کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا؟ کیا قادیانیوں کے دونوں فرقوں سے حتمی طور پر یہ یقین دہانی حاصل کر لی گئی ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کو اس کمشن کا حصہ بننے کی اجازت دیں گے؟۔ اگر یہ اقلیتوں کا کمشن ہے تو اس میں مسلمان ارکان کی نامزدگی کا مقصد کیا ہے؟ اگر یہ سو فیصد اقلیتی ارکان پر مشتمل کمشن ہو تو ہندوئوں ‘ سکھوں‘ مسیحیوں‘ بدھوں‘ پارسیوں کے ساتھ کسی احمدی اور قادیانی رکن کی شرکت اور نامزدگی پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا لیکن اگر اس میں دو تین مسلم ارکان شامل ہوں اور انہی کے ساتھ کوئی قادیانی فرد بٹھا کر کسی گروہ کو یہ تاثر پھیلانے کا موقع ملے کہ بالآخر موجودہ حکومت اور ریاست نے متفقہ طو پر منظور ہونے والی آئین کی دوسری ترمیم کے تقاضوں اور مقاصد کو پس پشت ڈال کر اسے مسلمانوں کے کوٹے میں کمشن کا رکن بنایا اور اب وہ مسلم ارکان کے ساتھ بیٹھ کر اقلیتی امور طے کرے گا تو یہ مذاق قوم برداشت کرے گی نہ حکومت کی کوئی وضاحت قابل قبول ہو گی۔ حکومت کا یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب انسانی حقوق کے امریکی کمشن نے بھارت میں اقلیتوں کی حالت زار کو اجاگر کیا اور پاکستان میں اقلیتوں سے حسن سلوک کا اعتراف کیا گیا‘ اگرچہ بھارت کے ڈھول کاپول کھلنے پر انسانی حقوق کا کمشن فوراً اس کی مدد کو آیا اور اس نے پاکستان میں نہ صرف اقلیتوں بلکہ میڈیا کے ساتھ امتیازی سلوک کی ایک رپورٹ جاری کر دی تاکہ عالمی برادری صرف بھارت پر تھو تھو نہ کرے‘ مگر امریکی کمشن کی رپورٹ چشم کشا ہے اگر حکومت پاکستان کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان اقلیتوں کے حوالے سے اپنی فراخدلانہ پالیسی کا نقش مزید بہتر انداز میں عالمی نقشے پر ثبت کر سکے اور قومی کمشن برائے اقلیت میں احمدیوں کو دیگر اقلیتوں کے ساتھ بٹھا کر ان لبرل‘ سیکولر اور پاکستان دشمن عناصر کے پروپیگنڈہ کا توڑ کیا جائے جو اٹھتے بیٹھتے اسلامی جمہوریہ کے آئین‘ قوانین اور حکومتی طرز عمل پر کیچڑ اچھالتے اور پاکستان کو اقلیت دشمن ریاست کے طور پر نمایاں کرتے ہیں تو یہ عمران خان کا ایک ایسا چھکا ہے جس کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی لیکن یہ کام سلیقے اور ہوش مندی کا متقاضی ہے کمشن میں مسلم ارکان کی قطعی ضرورت نہیں اور قادیانی رکن کے تقرر سے قبل وضاحت کر دی جائے کہ یہ غیر مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والا رکن ہے اور یہ آئین و قانون میں متعین اپنی اقلیتی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے آئین میں دوسری ترمیم کے بعد جب قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں دیگر اقلیتوں کے ساتھ احمدیوں کی نشستیں مخصوص کیں اور بشیر الدین خالد نام کے ایک قادیانی سیاستدان کو اسمبلی کا رکن بنایا تو جماعت احمدیہ نے اس بھلے مانس شخص کو جماعت سے نکال دیا ۔ بشیر الدین خالد کے خاندان کے دو تین دیگر افراد بھی سندھ اور خیبر پختونخواہ اسمبلیوں کے رکن رہے مگر بعدازاں کسی قادیانی یا احمدی کو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر اسمبلی کا رکن بننے کی جرات نہ ہوئی۔اب تحریک انصاف کے اقلیت نواز ارکان نے جماعت احمدیہ سے ضمانت حاصل کی ہے کہ وہ قومی کمشن کا رکن بننے والے کسی شخص کو اپنا نمائندہ تسلیم کریں گے اور بشیر الدین خالد کی طرح جماعت سے فارغ نہیں کریں گے۔ اگر ایسی کوئی ضمانت نہیں تو گناہ بے لذت کا فائدہ؟ چودھری شجاعت حسین کا بیان حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہے‘ وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری اور علی محمد خان کی وضاحت جنگ کے بعد یاد آنے والا مُکا ہے جو اپنی ناک پر رسید ہو گا‘ سٹیک ہولڈرز اور اتحادیوں سے مشاورت اور قوم کی تائید و حمائت کے بغیر کوئی فیصلہ ماضی میں کامرانی کا منہ دیکھ سکا نہ اب قابل قبول ‘ حکمرانوں کی نیت پر کسی کو شک نہیں‘ مقصد مگر واضح ہونا چاہیے کہ دودھ کی جلی قوم چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتی ہے۔ آئین پاکستان کے تحت احمدی اور قادیانی بطور غیر مسلم اقلیت جملہ شہری حقوق کے حقدار ہیں‘ کس کافر کو انکار ہو سکتا ہے مگر وہ آئین کو مانیں بھی تو؟