’’نامرد‘‘ جیسا منحوس، مایوس اور نامانوس لفظ پہلی بار ہم نے لڑکپن میں الیکشن کے کسی اشتہار پہ مشاہدہ کیا تھا، جہاں کسی سیاسی امیدوار یا بزرجمہر کی فرضی قسم کی لاتعداد صفات از قسم نڈر، بے باک، نہ بکنے والا، نہ دبنے والا، نہ جھکنے والا، ووٹ کا سب سے زیادہ حق دار، خونِ دل دے کے رُخِ برگِ گلاب نکھارنے والا، گلشن کے تحفظ کا اکلوتا ٹھیکے دار یا لوگوں کی امنگوں کا خود ساختہ ترجمان، وغیرہ بیان کی گئی تھیں، انھی کے ساتھ ساتھ اس کی ایک صفت اس کا نامرد ہونا بھی جلی حروف میں درج تھی۔ جب ہم اپنی ذاتی استعداد و استطاعت کی بنا پر مذکورہ حیران کُن اور متنوع صفت سیاسی رہنما کی اس خوبی کا ادراک کرنے سے قاصر رہے تو ہمیشہ کی طرح اپنے حکیم جی سے رجوع کیا۔ ان کی فہمائش سے اندازہ ہوا کہ یہ لفظ اصل میں ’نامزد‘ ہے، جو کسی خود سر کاتب کے معمولی سے سہو سے ’نامرد‘ ہو گیا ہے۔ اس ستم ظریفی کے حوالے سے انھوں نے کسی مزاحیہ شاعر کا یہ شعر بھی عنایت فرمایا: خدا کاتب کی سفاکی سے محفوظ فرمائے اگر نقطہ اُڑا دے نامزد ، نامرد ہو جائے ! یہ خوف ناک لفظ مزاحیہ شاعری کی حد تک تو گوارا ہو سکتا ہے لیکن ان الیکشن کے امیدواروں کو نہ جانے اس لفظ پہ ہمیشہ کیوں ٹوٹ کے پیار آتا ہے کہ ان کے ہر اشتہار کی زینت بنا ہوتا ہے حالانکہ یہ لفظ امیدوار کی بجائے ملزم کے ساتھ زیادہ جچتا اور مزہ دیتا ہے۔ ویسے بھی مرد کا لفظ ہمارے معاشرے میں صرف تذکیر و تانیث واضح کرنے یا جنسی اہلیت منوانے کے لیے نہیں بلکہ سوسائٹی کے ایک بہادر ذمہ دار اور کار آمد فرد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اُردو کے سب سے پہلے عوامی شاعر جناب نظیر اکبر آبادی نے کہا تھا کہ: ہیں مرد اب وہی کہ جنھوں کا ہے فن درست حرمت انھوں کے واسطے جن کا چلن درست یا معروف صوفی شاعر خواجہ میر درد کا معروفِ زمانہ شعر ہے: کام مردوں کے جو ہیں سو وہی کر جاتے ہیں جان سے اپنی جو کوئی کہ گزر جاتے ہیں پھر ان دنوں وطنِ عزیز کی وفاقی کابینہ سے زنا کے حوالے سے جو قانون پاس ہوا ہے کہ مجرم کو سزا کے طور پہ نامرد بنا دیا جائے گا، غیر شرعی ہی نہیں اور شرم ناک بھی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ایسے جرائم کے لیے جو سزائیں ہمارے دین نے مقرر کر رکھی ہیں ، ان سے سرِ مُو انحراف بھی بدعات میں شمار ہوگا۔ ہمیں یاد ہے کہ ہماری ایک سابق وزیرِ اعظم نے نہ جانے کس طاقت کو خوش کرنے کی خاطر یا کس لال بجھکڑ کے بہکاوے میں آ کے بر سرِ محفل ارشاد کیا تھا کہ مَیں اسلام کی ان وحشیانہ سزاؤں کو نہیں مانتی۔ کاش انھیں کوئی دین کی حدود سے بر وقت آگاہ کر دیتا۔ ویسے بھی فحاشی،بدکاری، زنا اور گینگ ریپ جیسے جرائم کے اس بڑھتے ہوئے رُجحا ن کو روکنے یا کم کرنے کے لیے سب سے اہم اقدام تو یہی ہے کہ بالغ بچوں کے نکاح جلد از جلد کیے جائیں اور جلد نکاح کرنے کے لیے ازحد ضروری ہے اس انتہائی اہم فریضے کو آسان ترین بنایا جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ بدبختی عام ہو چکی ہے کہ جب تک بچے کی تعلیم کے تمام مراحل مکمل نہیں ہو جاتے، جب تک اس کے قیامت تک کے نان نفقے کا بندوبست نہیں ہو جاتا ، جب تک جہاز بھر جہیزلانے والی لڑکی دستیاب نہیں ہوتی، اور جب تک کوئی ’با ہمت انسان‘ شہر کے سب سے بڑے اور مہنگے ہال میںپانچ سات سو بھوکے براتیوں کے ون سونّے کھانوں کے انتظام کی ہامی نہیں بھرتا، نکاح نہیں ہو سکتا۔ ہم نے کبھی اس بات پہ غور کرنے کی زحمت کی ہے کہ جب بچہ بچی بالغ ہو جاتے ہیں(جو کہ وہ چودہ پندرہ یا حد اٹھارہ سال کی عمر میں ہو جاتے ہیں) تو معدے کی بھوک کے بعد اس کی سب سے بڑی بھوک یا ضرورت جنس ہوتی ہے اور انسان کی جنسی ضروریات کا واحد باعزت حل نکاح ہے ، انسانی زندگی میںنکاح اولاد کا نہایت اہم ترین حق ہے، اس میں تاخیر والدین کو گناہ گار اور اولاد کو گمراہ کرتی ہے۔ نکاح، جس کاشرع میں نہایت آسان طریقہ موجود ہے۔ جو بلوغت سے موت تک انسانی نفس اور حیا کی حفاظت کرتا ہے۔ پیغمبروں کی تعلیمات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے معاشرتی اعمال میں نکاح کو سب سے آسان رکھا ہے، یہ جہیز اور برات جو اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، ہمارے دین کا حصہ ہی نہیں۔ قرونِ اولیٰ تو کیا آج بھی سوائے ہندی ثقافت کے سب سے بڑے علم بردار ملک پاکستان کے کسی اسلامی ریاست میں اس کی رِیت موجود نہیں۔ شاعرِ مشرق نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا کہ: تُو اے مولائے یثرب! آپ میری چارہ سازی کر مِری دانش ہے افرنگی ، مِر ا ایماں ہے زُنّاری اس وقت ضرورت تو اس امر کی ہے کہ لوگوں کو ایجوکیٹ کیا جائے کہ وہ بچوں کے بروقت نکاح کو یقینی بنائیں، آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ اگر بچہ یا بچی سولہ سال کی عمر میں بالغ ہے ، اور ہم اس کی شادی میں اٹھائیس یا تیس برس کی عمر تک تاخیر کرتے چلے جاتے ہیں تو کیا وہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے غلط سلط طریقے نہیں ڈھونڈے گا؟ اور اس بات پہ بھی تأمل کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ گناہ بچے کے سر جائے گا یا والدین کے؟ پھر حکومت اور معاشرے کی تربیت کے ذمہ داران (استاد اور علما)کے کرنے کے کام یہ بھی ہیں کہ جہیز اور برات پہ نہ صرف مکمل پابندی لگا دی جائے بلکہ اس کے مرتکب افراد کے لیے کڑی سے کڑی سزا مقرر کی جائے۔ اللہ کے رازق ہونے پہ اپنے ایمان کو پختہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی شادی شدہ ہونے کے باوجود ایسی حرکت کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے راستے میں بھی ایک سے زیادہ شادیوں کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھنے والا معاشرہ ہے۔ یہاں ہمیں حضورؐ کی سنت یاد کیوں نہیں آتی؟ پھر اس سلسلے میں تو بے شمار روایتیں اور احادیث موجود ہیں کہ بعض صحابہ ؓ نے عبادت میں خلل یا ممکنہ بدکاری کے خوف سے خود کو خصی (نامرد) کرنے کی اجازت چاہی تو آپؐ نے فرمایا کہ کیا آپ میری سنت سے منحرف ہونا چاہتے ہیں؟ بلکہ یہاں تک فرمایا کہ جس نے کسی کو یا اپنے آپ کو خصی (نامرد) کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ لہٰذا اس سلسلے میں کسی قسم کی قانون سازی سے قبل اس کی شرعی حیثیت پہ بھی نظر ڈال لینی چاہیے۔ خدار ایسے مضحکہ خیز اقدامات کو قانون یا روایت کا حصہ مت بنائیے بلکہ ایک بالغ لڑکی یا لڑکے کی جسمانی و جنسی ضروریات کا جائز حل تلاش کیجیے۔ انھیں مسلم معاشرے کے ذمہ دار اور با وقار فرد بنائیے دوسرے معنوں میں انھیں نامرد نہیں ، مرد بنائیے !!! ٭٭٭