پاکستان میں تواتر کے ساتھ الیکشن کی منڈی سجنے کا عمل بدنامِ زمانہ جنرل یحییٰ خان کے 1970ء کے صاف اور شفاف الیکشنوں کے انعقاد سے شروع ہوا۔ ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر میں دیگر چھوٹے چھوٹے سرکاری دفاتر کی طرح کسی کرائے کی عمارت یا پھر عاریتاً لی گئی کسی سرکاری بلڈنگ میں ’’ضلعی الیکشن آفیسر‘‘ کا ایک مختصر سا دفتر ہوتا تھا، جس کی کل متاع وہ ووٹرز لسٹیں ہوتیں جو الماریوں، بکسوں یا پھر جگہ کی قلت کی وجہ سے بوریوں میں بند پڑی ہوتیں۔ الیکشن آفیسر سالوں خوابِ خرگوش کے مزے لیتے، لیکن الیکشن کی آمد سے کچھ عرصہ پہلے ہی اپنے دفاتر میں اچانک نمودار ہو جاتے۔ الیکشن لڑنے والوں کا ایک ہجوم ان کے دفاتر کا طواف کرنے لگتا۔ سب سے اہم کام ووٹرز لسٹوں میں ناموں کا اندراج ہوتا تھا۔ یہ اندراج مدتوں ایک الیکشن آفیسر کا صوابدیدی اختیار ہوتا تھا۔ وہ جسے چاہے جس کو چاہے اور جب چاہے ووٹرز لسٹ میں داخل خارج کرتا رہتا۔ بعض اوقات تو ایسا ہوتا کہ الیکشن کے دن پولنگ میٹریل کے ساتھ ساتھ، ہاتھ سے بنائی گئی نئے اندراج شدہ ووٹرز کی ایک لسٹ بھی شامل کی جاتی جس پر اکثر اوقات اُمیدواروں کے پولنگ ایجنٹ جھگڑ پڑتے، کیونکہ یہ لسٹ ان کے پاس موجود لسٹوں میں شامل نہیں ہوتی تھی۔ خواتین کے پولنگ اسٹیشن دھاندلی کیلئے مشہور ہوتے۔ ان کی دو تین اہم وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ شناختی کارڈوں پر عورتوں کو تصویر سے استثنیٰ حاصل تھا اور تصویر کی جگہ ان کے انگوٹھے کا نشان ثبت کیا جاتا۔ بعض معاشروں میں تو نام تک لکھنا بھی برا خیال کیا جاتا۔ اس کے نعم البدل کے طور پر دختر نمبر1، نمبر 2، نمبر 3 یا پھر زوجہ نمبر 1، زوجہ نمبر 2 وغیرہ لکھا جاتا۔ پولنگ اسٹیشن عموماً علیحدہ ہوتے، لیکن پھر بھی خواتین کے پولنگ اسٹیشنوں میں اِکا دُکا مردوں کی موجودگی اور سکیورٹی والوں کا وہاں ہونا، یہ سب ایسے بہانے تھے جس کی بنیاد پر خواتین اپنی شناخت کیلئے چہرے سے نقاب نہ اُتارتیں اور یوں جتنے شناختی کارڈ جعلی بنائے جاتے اور جتنے نام ووٹرز لسٹ میں جعلی اندراج کروائے جاتے، وہ سب کے سب دھاندلی کرنے والے اُمیدوار کے حق میں استعمال کر لئے جاتے۔ عدلیہ اور فوج کی نگرانی، یہ دو ایسے ’’لبادے‘‘ تھے جن کی آڑ میں چُھپ کر انتظامیہ اپنی مرضی سے جو گُل چاہے کھلا سکتی تھی۔ ایک سیشن جج جو عمومی طور پر ’’ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر‘‘ بنایا جاتا ہے، وہ علاقے کے اچھے بُرے سے بالکل ناواقف ہوتا ہے۔ اسے اس علاقے کی سیاسی گروہ بندی کا بھی بالکل علم نہیں ہوتا۔ الیکشن کروانا ایک ایسا مشکل عمل ہے جس کیلئے اسے ضلعی انتظامیہ پر آنکھ بند کر کے مکمل بھروسہ کرنا پڑتا۔ ضلعی انتظامیہ جس کا سربراہ ڈپٹی کمشنر ہوتا ہے اسے اپنی نوکری کی وجہ سے اپنے ضلع میں رہنے والے ہر شخص کے بارے میں بخوبی علم اگر نہ بھی ہو تو پھر بھی وہ چند لمحوں میں پولیس اور ریونیو سٹاف کے ذریعے معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ ان حاصل معلومات کے ذریعے سے اسے بخوبی علم ہو جاتا ہے کہ کونسا سرکاری ملازم، کس پارٹی کی طرف جھکائو رکھتا ہے اور کونسا ایسا ہے جس کی رشتے داریاں اور گٹھ جوڑ کس اُمیدوار کے ساتھ ہے۔ سیشن جج الیکشن کروانے کیلئے ایک وسیع پولنگ سکیم مرتب کرتا ہے۔ اس پولنگ سکیم میں پولنگ اسٹیشنوں کی عمارتوں، محل وقوع اور پولنگ بوتھ کا بتایا جاتا ہے اور ساتھ ہی ہر پولنگ اسٹیشن پر ایک پریزائیڈنگ آفیسر اور ڈپٹی پریزائیڈنگ آفیسر کے ساتھ ساتھ مکمل عملے کو بھی تعینات کیا جاتا ہے۔ سیشن جج کوئی ’’جنّاتی‘‘ قوت نہیں رکھتا کہ اسے علم ہو سکے کہ کونسا سرکاری آفیسر کس پارٹی کی جانب اپنا جھکائو رکھتا ہے اور کون مکمل طور پر غیر جانبدار ہے۔ ایسے میں اسے ڈپٹی کمشنر یا دیگر ماتحت ایجنسیوں کی رپورٹوں پر اعتماد کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح پولنگ اسٹیشنوں کی ترتیب اور عمارتوں کے چُنائو کے معاملے میں بھی اس کا کوئی تجریہ نہیں ہوتا۔ جن عمارتوں کے بارے میں ضلعی انتظامیہ نشاندہی کر دیتی ہے کہ انہیں پولنگ اسٹیشن بنا دیا جائے، وہی بن جاتی ہیں۔ یہ سارا عمل اس وقت تک شفاف اور ایماندار رہتا ہے جب تک ضلعی انتظامیہ ایماندار ہو اور اس پر کوئی دبائو نہ ہو۔ لیکن اگر ضلعی انتظامیہ دھاندلی کرنا چاہے اور اس کام کیلئے خاص طور پر منتخب کی گئی ہو تو پھر معاملہ بہت ہی آسان ہے۔ آپ چند پولنگ اسٹیشن منتخب کرتے ہیں جہاں مکمل دھاندلی کرنا مقصود ہوتی ہے۔ وہاں اپنی مرضی کے اُمیدوار کے وفادار سرکاری ملازمین کو پریزائیڈنگ آفیسر وغیرہ لگایا جاتا ہے، ان کیلئے پولنگ اسٹیشن کی عمارت بھی ایسی چُنی جاتی ہے جو آبادی سے دُور ہو یا مخالف اُمیدوار کے دُشمنوں کے علاقے میں ہو، تاکہ وہاں وہ آسانی سے مداخلت نہ کر سکے۔ یوں سارا دن وہاں پولنگ سٹاف کی مدد سے اپنی مرضی کے ہر طرح کے ووٹ ڈلوائے جاتے ہیں۔ دوسری جانب جس اُمیدوار کو ہروانا مقصود ہو،اس کے اہم پولنگ اسٹیشنوں کو ایسی عمارتوں یا گلیوں میں بنوایا جاتا ہے جہاں تھوڑی سی گرمی سردی کے بعد، اچانک لڑائی ہو جانے کا خطرہ ہو۔ بعض اوقات کچھ لوگوں کو چھوٹی موٹی لڑائی کرنے کیلئے بھیجا جاتا ہے پھر ان پولنگ اسٹیشنوں پر جہاں مخالف اُمیدوار کو زیادہ ووٹ پڑنے کا ’’خدشہ‘‘ ہو وہاں بار بار امنِ عامہ کا بہانہ بنا کر پولنگ رکوائی جاتی ہے اور بار بار کھلوائی جاتی ہے۔ یہ تمام حربے نہ تو سیشن جج کے علم میں آ سکتے ہیں اور نہ ہی وہ فوجی جو وہاں تعینات کئے جاتے ہیں انہیں ان کی خبر ہوتی ہے۔ الیکشن کے دن کی اس کارروائی کے علاوہ الیکشن کے آغاز سے چند ماہ پہلے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے ذمے چند اہم اُمور لگائے جاتے ہیں۔ یہ اُمور الیکشن میں دھاندلی کیلئے ہوتے ہیں۔ ایسی انتظامیہ عموماً جانے والا وزیر اعلیٰ الیکشن سے کچھ عرصہ پہلے تبدیل کر جاتا ہے۔ اس کے فوراً بعد جب الیکشن کا وقت آتا ہے تو الیکشن کمیشن تبادلوں پر پابندی لگا دیتا تھا۔ ان دنوں یہ پابندی نگران وزیر اعلیٰ لگاتا ہے۔ اگر گزشتہ حکومت کی سیاسی پارٹی کو ہروانا مقصود ہو تو نگران وزیر اعلیٰ ایک دَم ہزاروں کے اعتبار سے تبادلے کرنے کے بعد اور اپنی مرضی کے آفیسر لگانے کے بعد پھر سے تبادلوں پر پابندی کی آہنی دیوار کھینچ دیتا ہے۔ ان مرضی سے لگائے گئے ضلعی آفیسران، یعنی ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنرز، تحصیلدار اور سپرنٹنڈنٹ پولیس، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس اور ایس ایچ او حضرات کے ذمے ایک شاندار جال کی طرح کا پھیلا ہوا کام لگایا جاتا ہے جس اُمیدوار کو ہروانا مقصود ہوتا ہے، اس کے مقابل اُمیدواروں میں سے ایسے لوگوں کی ایک لسٹ مرتب کی جاتی ہے جو اگر الیکشن میں کھڑے رہے تو اس اُمیدوار کے ووٹ کاٹیں گے اور اسے شدید نقصان پہنچائیں گے۔ ایسے اُمیدواروں کے خلاف گزشتہ برسوںمیں درج مقدمات نکالے جاتے ہیں، کوئی زمین کا جھگڑا یا خاندانی تنازعہ وغیرہ کا معاملہ دیکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد علاقے کے ایس ایچ او یا پٹواری کے ذمے یہ کام لگایا جاتا ہے کہ اسے مجبور کریں کہ وہ کسی کے بھی دبائو میں آ کر الیکشن سے دستبردار نہ ہو، ورنہ اس کے خلاف مقدمات کھول دیئے جائیں گے۔ اگر مقدمات نہ بھی موجود ہوں تو نئے مقدمات کے اندراج کا اسے خوف دلایا جاتا ہے۔ اسی طرح جس اُمیدوار کو جتوانا مقصود ہو اس کے مقابل کھڑے ہوئے ایسے اُمیدوار کو جو اس کے ووٹ کاٹ سکتا ہے، ایسے ہی ڈرا، دھمکا کر بٹھا دیا جاتا ہے کہ خبردار اگر تم الیکشن میں کھڑے ہوئے تو اگلے کئی سال یا تو جیل میں ہو گے یا عدالتوں میں مقدمات بھگتو گے۔ (جاری)