گزشتہ دس برسوں میں پاکستان میںچار مسافر جہازگر کر تباہ ہوچکے ہیں۔ اسی عرصہ میں چین اور بھارت میں صرف ایک ایک مسافر جہاز کریش ہوا۔بنگلہ دیش اور سری لنکا میں ایک بھی نہیں۔ ہمارے نظام میں کچھ تو خرابی ہے جو دوسرے ملکوں سے زیادہ فضائی حادثے ہوتے ہیں۔ یا تو ہمارے متعلقہ لوگوں میں فضائی سروس محفوظ طریقہ سے چلانے کی اہلیت نہیں ہے ‘ وہ لاپرواہ اور غفلت کا شکار لوگ ہیں جو اُن حفاظتی تدابیر کا اچھی طرح سے خیال نہیں رکھ پا تے جو ائیر لائن چلانے کے لیے ضروری ہیں یا پھر وہ اتنے بددیانت ہیں کہ جہازوں کی دیکھ بھال میں بھی ہیرا پھیری ‘ دو نمبری سے باز نہیں آتے۔ اسی لیے خرابیاںپیدا ہوتی ہیں اور ہر چند سال بعدکوئی فضائی حادثہ پیش آجاتا ہے ۔اسی طرح ریل گاڑیوںکے حادثے ہوتے رہتے ہیں۔ اگلے روز پی آئی اے کی ائیر بس کراچی میں ائیرپورٹ کے قریب گر تباہ ہوئی ۔ کہا جارہا ہے کہ رن وے کے بالکل قریب پہنچ کر جہاز کے لینڈنگ گئیر نہیں کھل سکے بعد میں اسکے دونوں انجن فیل ہوگئے۔ اب نام نہاد ماہرین جو بھی بہانے تراشیں کامن سینس کی بات ہے کہ جہاز میںکوئی نہ کوئی ٹیکنیکل خرابی تھی جس کے باعث وہ نارمل طریقہ سے رن وے پر نہیںاتر سکا بلکہ قریبی رہائشی کالونی کے مکانات سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا۔ آج سے چار سال پہلے چترال سے اسلام آباد جانے والا پی آئی اے کا جہازحویلیاں کے مقام پر گرگیا تھا۔ اس کریش میںمعروف گلوکار جنید جمشید بھی جاں بحق ہوگئے تھے۔ شروع میںحادثہ کی ذمہ داری جہاز کے پائلٹ پر ڈالی گئی تھی لیکن بعد میں اسکی باقاعدہ تحقیقات کی کچھ تفصیلات منظر عام پر آئیں۔ پتہ چلا کہ جہاز کی دیکھ بھال‘ مرمت میں خرابی ہوئی تھی جو حادثہ کا باعث بنی ۔ تاہم حکومت نے اس حادثہ کی تحقیقات کو ایسی بہت سی انکوائری رپورٹس کی طرح پبلک نہیں کیا ۔ مان لیا کہ یہ خاصی ٹیکنیکل رپورٹس ہوتی ہیں جنہیں عام آدمی پوری طرح سمجھ نہیں سکتا لیکن ریٹائرڈ انجینئر اور پائلٹ ان سے مطالب اخذکرکے عام فہم الفاظ میں لوگوں کو سمجھا سکتے ہیں۔حالیہ جہاز کریش کی بھی تحقیقات ہونگی ۔ جن افسروں کے باعث خرابیاں پیدا ہوئیں ان کی موجودگی میں تحقیقات ہوں گی تو ایسی انکوائری کی کوئی ساکھ نہیں ہوگی نہ اسکا کوئی فائدہ ہوگا۔ ماضی میں ہم ایسی بہت سی بے اثر تحقیقات دیکھتے آئے ہیں۔ کیا آپ نے سُنا کہ حویلیاںجہاز کریش کے قصور میں کسی بڑے افسر کو نوکری سے نکالا گیا یا اسے قید میں ڈالا گیا ؟ اگر کراچی میں جہاز گرنے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کرنا ہیں تو بین الاقوامی ماہرین کی خدمات حاصل کرنی چاہئیںاور تحقیقاتی رپورٹ کو پبلک کیا جائے۔ جن شعبوں کا قصور ثابت ہو ان کے افسران کو نوکری سے فارغ کرکے ان پر مقدمات قائم کیے جانے چاہئیں۔ ان کو عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے۔ ایسا انصاف کیا جائے جو سب کو نظر آئے۔ حویلیاں میں جہاز کریش کے ایک ہفتہ کے بعد اس وقت کے پی آئی کے چیئرمین اعظم سہگل نے اخلاقی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا۔ دیکھیے موجودہ چئیرمین کیا کرتے ہیں۔غلطی کسی شعبہ کی بھی ہو‘ ادارہ کا سربراہ ہی اخلاقی طور پرذمہ دار ہوتا ہے۔ ائیر مارشل ارشد ملک ایک قابل‘ دیانت دار افسر سمجھے جاتے ہیں لیکن وہ ایک کینسر زدہ ادارہ کے سربراہ ہیں ۔ انہیں پی آئی اے کی از سر نو تنظیم کرنے کی شرط پر ہی یہ عہدہ قبول کرنا چاہیے تھا۔پی آئی اے گزشتہ دس برسوں میں چار سو ارب روپے کا نقصان کرچکا ہے۔ یہ خسارہ غریب عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے قومی خزانہ سے پورا کیا گیاتاکہ یہ سفید ہاتھی زندہ رہے ‘ملک کی اشرافیہ کی خدمت کرتا رہے‘ اسکے بددیانت‘ نااہل ملازمین موجیں اُڑاتے رہیں۔کرپشن ایک چھوٹا لفظ ہے۔ اس میںعشروں سے لوٹ مار چل رہی ہے۔پی آئی اے کے لیے تیل خریدنا ہو‘ جہازوں کے پرزے خریدنا ہوں‘ یا کوئی اور سروس‘ اسکے افسران ہر کام میں کمیشن وصول کرتے ہیں۔اوپر سے نیچے تک گند ہی گند ہے۔ اسکے نتائج تو نکلیں گے۔ کسی کو احتساب کا ڈر بھی نہیں۔یہی حال سول ایوی ایشن کا ہے۔ آخر پی آئی اے کے وہی جہاز تباہ کیوں ہوتے ہیںجو ملک کے اندر چل رہے ہیں؟ جو جہاز بیرون ملک جاتے ہیں وہ تو حادثوں کا شکار نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ باہر جانے والے جہازوں کی اچھی طرح سے دیکھ بھال کی جاتی ہے کیونکہ ان ممالک کی سول ایوی ایشن کسی رُورعایت سے کام نہیں لیتیں۔ایک زمانے میں پی آئی اے کے طیاروں کا معیار ٹھیک نہیں تھا تو کئی ممالک کے ائرپورٹس نے اسکی پروازوں کے آنے پر پابندی لگادی تھی۔ ہمارے ملک کی سول ایوی ایشن ہر سرکاری ادارہ کی طرح بددیانتی کا شکار ‘ دیمک زدہ ادارہ ہے۔یہ قومی ائیرلائن پر بین الاقوامی معیار کی پابندی پوری طرح نافذ نہیں کرسکا۔ گزشتہ تین دہائیوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتوں نے نے پی آئی اے میں سیاسی بنیادوں پر سفارشی افراد کی فوج ظفر موج بھرتی کی جومیرٹ پر ملازمت کے اہل نہیں تھے۔ ائیر لائن کا ستیا ناس تو ہونا تھا۔ یہی ریلوے کا حال ہے۔اصولی طور پر پی آئی اے اور ریلوے دونوں کو اس وقت تک بند کردینا چاہیے جب تک ان کی تنظیم نو نہیں کرلی جاتی۔ اس وقت یہ دونوں ادارے مسافروں کی زندگیاں رسک پر لگا کر کام کررہے ہیں۔ دونوں کا خسارہ قومی خزانہ پر بڑا بوجھ ہے۔ حکومتیں ان اداروں کے ملازمین سے بلیک میل ہوتی ہیں کہ ان کی اصلاح کے لیے بڑا قدم اٹھایا گیا تو ہزاروں ملازمین ہڑتالیں کریں گے‘ اپوزیشن جماعتیں ان کی حمایت کریں گی۔ اس سیاسی مصلحت کی قیمت لوگ اپنی جان دیکر ادا کررہے ہیں۔ کراچی میں جہاز کا سانحہ ایک دم نہیں ہوا‘ وقت نے اسکی برسوں پرورش کی ہے۔جب بھی مسافر جہاز کریش ہوتا ہے ہم بہت روناد ھونا مچاتے ہیں ‘بہت گریہ کرتے ہیں‘ٹسوے بہاتے ہیں لیکن اُن خرابیوں کی اصلاح نہیں کرتے جن کے باعث یہ افسوسناک واقعات رُونما ہوتے ہیں۔آخر کب تک؟