1965ء کی جنگ ستمبر شروع ہوئی تو لاہور اور دوسرے بڑے شہروں میں گندم‘ چینی‘ چاول کی ذخیرہ اندوزی کے سبب اشیائے ضروریہ کی مہنگائی ہونے لگی۔ مغربی پاکستان کے گورنر امیر محمد خان کو پتہ چلا تو انہوں نے صوبے کے بڑے صنعتکاروں اور تاجروں کو دفتر لاٹ صاحب طلب کیا‘ سامنے پڑا اخبار اٹھایا‘ مہنگائی کی خبر پڑھی اور مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے کہا ’’آج شام تک مارکیٹوں میں اشیائے ضروریہ کی بہتات نہ ہوئی‘ قیمتیں 5ستمبر کی سطح پر واپس نہ آئیں‘ تو سوچ لو کہ میں آپ سے کیا سلوک کروں گا‘‘؟ یہ کہہ کر نواب صاحب اپنی کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے صنعت کاروں اور تاجروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا‘ سب منہ لٹکا کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ دوران جنگ ہی نہیں‘ نواب صاحب جب تک گورنر رہے‘ مغربی پاکستان میں کسی نے ذخیرہ اندوزی‘ گراں فروشی اور اشیائے ضروریہ کی قلت کی شکائت نہ کی۔ گزشتہ روز‘ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی شرح مبادلہ بڑھی‘ انٹربنک اور مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا تو اطلاع ملی کہ وزیر اعظم عمران خان نے منی ایکسچینج کا کاروبار کرنے والے چند بڑوں ‘ ای کیپ کے نمائندوں کو طلب کیا اور حکم دیا کہ ڈالر کی طے شدہ قدر کو ہر قیمت پر برقرار رکھا جائے۔ اعلیٰ سطحی اجلاس میں یہ فیصلہ بھی ہوا کہ ڈالر مہنگا بیچنے والی کمپنیوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ جمعرات کے روزڈالر چھ روپے اضافے کے ساتھ ایک سو اڑتالیس روپے تک بکا اور صرف فاریکس کمپنیوں نے نہیں‘ نجی بینکوں نے بھی وزیر عظم کے احکامات کو ہوا میں اڑا دیا۔ جب اپنے کالموں میں‘ میں ایوب خان اور نواب آف کالا باغ کے دور حکمرانی کا ذکر کرتا ہوں تو جعلی جمہوریت کے ہیضے میں مبتلا بعض لوگوں کے ماتھے پر بل پڑ جاتے ہیں ۔ عمران خان اور اس کے مخلص ساتھیوں سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کہ بھٹو‘ زرداری اورشریف خاندان نے پاکستان میں سلطانی جمہور کے نام پر مافیاز کی پرورش کی‘ اپنی سیاسی مقبولیت‘ووٹ بنک بڑھانے اور اقتدار پر گرفت برقرار رکھنے کے لئے استحصالی طبقات کو لوٹ مار کی کھلی چھٹی دی اور ذاتی و خاندانی مفادات کے تحفظ کے لئے قومی مفادات کو پس پشت ڈالا‘ عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل جب مختلف مافیاز کی کارستانیوں کا ذکر کرتا اور عوام کو ان کے شکنجے سے نجات دلانے کی یقین دہانی کراتا تو عوام کی اکثریت کے چہرے کھل اٹھتے‘ عمران خان 2018ء کے انتخاب میں عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہا کہ ریاست ایک بار پھر مافیاز کے شکنجے سے نکل کر عوامی اُمنگوں آرزوئوں کا مرکز بنے گی۔ عمران خان کو بلا شبہ حکمرانی کا تجربہ نہ تھا‘ اس کے ساتھی بھی اقتدار میں پہلی بار آئے مگر عمران خان کی شخصیت کا سحر اور دبدبہ اگر بیورو کریسی کو مرعوب کر سکا نہ مافیاز کو اور نہ ماضی کے حکمرانوں کے آلہ کار عناصر کو‘ تو اس کا سبب محض ناتجربہ کاری نہیں‘ ناقص و ناکارہ ٹیم کا انتخاب اور بروقت تلخ فیصلوں سے اجتناب ہے۔ عمران خان کینسر کے مریض کی کیمو تھراپی کی بات کرتا تھا مگر اس نے بھی ناقص اور موقع پرست مشیروں کے زیر اثر درد کش ادویات کا استعمال شروع کردیا‘ اقربا پروری تو نہیں ہوئی مگر دوست نوازی نے یہ کسر پوری کر دی۔ پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ مالیاتی ڈسپلن تھا مگر اس ضمن میں نمائشی اقدامات کے سوا کچھ نہ ہوا‘ جو فیصلے ابتدائی ساٹھ یا زیادہ سے زیادہ نوے دنوں میں کرنے کے تھے وہ بمشکل نو ماہ میں ہو پائے جب درد لادواہونے لگا اورسالانہ بجٹ بنانا مشکل ہو گیا۔ ایک پارٹی جو بائیس سال سے جدوجہد کر رہی ہے وہ مرکزاور صوبوں کے لئے بہتر معاشی ٹیم تیار نہ کر سکی۔ نتیجتاً اب نیکٹو کریٹس کو آگے لایا جا رہا ہے‘ گزشتہ روز پنجاب میں سید سلمان شاہ کووزیر اعلیٰ کا مشیر برائے اقتصادی و معاشی امور اور منصوبہ بندی مقرر کیا گیا۔ یہ ضرورت اس لئے پیش آئی کہ وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت ناتجربہ کاری کے سبب صوبے کا بجٹ بنانے سے قاصر نظر آتے ہیں اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار دو سیکرٹریز خزانہ حامد یعقوب شیخ اور راحیل صدیقی کو تبدیل کرنے کے باوجود بجٹ سازی کے حوالے سے مطمئن نہیں حالانکہ اپنے قابل اعتماد بیورو کریٹ ڈاکٹر راحیل صدیقی کی جگہ میاں شہباز شریف کے قابل اعتماد بیورو کریٹ عبداللہ سنیل کو سیکرٹری خزانہ مقررکر چکے۔ سوال یہ ہے کہ جب تحریک انصاف کی صوبائی پارلیمانی پارٹی میں پرویز الٰہی دور کا ایک تجربہ کار وزیر خزانہ سردار حسنین بہادر دریشک موجود تھا۔ جس نے پنجاب میں پانچ بجٹ پیش کئے تین سرپلس بجٹ تھے اور ایک این ایف سی ایوارڈ میں پنجاب کا مقدمہ کامیابی سے لڑا تو اس کی صلاحیتوں اور خدمات سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ایک ایسے نوجوان کو یہ قلمدان کیوں سونپا گیا جو پہلی بار ایم پی اے منتخب ہوا اور جس کا بھائی مخدوم خسرو بختیار وفاقی وزیر ہے۔ آج نہیں تو کل نیب کو مطلوب۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کی فضیلتیں اور برکتیں یہ بیان کی جا رہی تھیں کہ معیشت کو استحکام ملے گا‘ سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھے گا اور کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا مگر معاہدے پر دستخطوں سے پہلے ہی سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی اور ڈالر کی قدر میں دو دن کے اندر آٹھ روپے اضافہ ہوا آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ ڈالر اب حکومت یا سٹیٹ بنک کے بجائے مارکیٹ فورسزکے رحم و کرم پرہو گامگر یہ کسی نے نہیں سوچا ہو گا کہ وزیر اعظم عمران خان ڈالر کی قیمت مستحکم رکھنے کا حکم دیں گے‘ مہنگا بیچنے والی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ ہو گا اور ذخیرہ اندوز و گراں فروش اس فیصلے اور حکم کی مٹی پلید کرتے ہوئے من مانی پر اتر آئیں گے‘ حکومت کی یہ وہ ناکامی ہے جس کا نااہلی کے سوا کوئی جواز ڈھونڈنا مشکل ہے۔ ریاست اور حکمرانی کی وجہ جواز ٹیکسوں کی وصولی‘ عوام کے جان و مال عزت و آبرو اور روزگار کا تحفظ اور انصاف کی فراہمی ہے اگر ریاست ٹیکس وصول نہیں کر پاتی عوام کو تحفظ اور انصاف فراہم کرنے سے عاجز ہے تو یہ بنانا ری پبلک کہلاتی ہے جس کا انجام معلوم‘ پاکستان میں مافیازمتحد ہیں صرف متحد ہی نہیں مضبوط بھی‘ بیوروکریسی اور تحریک انصاف کی صفوں میں ان کے کارندے بدستور سرگرم عمل اور دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ان کی ہمدرد و ہمنوا۔ جبکہ ریاست اور حکومت بے سمت‘ مجبور و بے بس نظر آتی ہے۔ یہ مذاق نہیں تو کیا ہے کہ وزارت خزانہ اور سٹیٹ بنک کا سربراہ تبدیل ہونے کے باوجود نجی بنکوں نے ڈالر کی مصنوعی قلت پیدا کر کے وزیر اعظم کو قوم کے سامنے شرمندہ کرایا‘ کسی کے کان پر جوں نہ رینگی۔ اگر چند مفاد پرست بنکرز اور منی ایکسچینجرز وزیر اعظم کے احکامات کی مٹی پلید کرنے کا حوصلہ کر لیتے ہیں تو لاکھوں کی تعداد میں سمگلروں ‘ ذخیرہ اندوزوں ‘ گراں فروشوں‘ بھتہ خوروں‘ ٹیکس چوروں‘ قرضہ خوروں اور کرپشن کے قطب میناروں کو من مانی سے کون روک سکتا ہے۔؟ اگر ڈالر کو کھلا چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے تو پھرعوام اور ای کیپ کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ حکومت کی بے حسی اور وزیر اعظم بے بسی کا تاثر پختہ نہ ہو۔ بصورت دیگر ان سطور کی اشاعت تک خلاف ورزی کے مرتکب افراد قانون کے کٹہرے میں کھڑے ہونے چاہئیں تاکہ دوبارہ کوئی حکومت کو ایزی نہ لے اوروزیر اعظم یا کسی وزیر اعلیٰ ‘وزیر کے احکامات کا وہی مطلب سمجھے جو حکمران سمجھانا چاہتے ہیں عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اکثر و بیشتر 1960ء کے عشرے کاذکرکرتے ہیں جب پاکستان ترقی کی منزلیں طے کر رہا تھا اور معاشی شرح نمو آٹھ سے گیارہ فیصد تھی اس دور میں جنگی حالات میں بھی (جب حکومت کی ساری توجہ دفاع پر مبذول تھی) کسی صنعت کار ‘ تاجر اور بااثر و طاقتور کو من مانی کی اجازت نہ تھی‘ قانون شکنی کا مرتکب ہر چھوٹا بڑا سزا کا مستحق تھا جس ریاست میں قانون کی حکمرانی اور حکومت کی مضبوط رٹ کا تاثر پختہ ہو اسے ترقی و خوشحالی کی منزلیں طے کرنے سے کوئی سپر پاور روک سکتی ہے نہ اس کا آلہ کار ادارہ۔ہمارے حکمرانوں کو مگر کون سمجھائے۔؟