وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کی قریباً نصف مدت پوری کرنے کے بعد بڑی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ تیاری کے بغیر حکومت میں نہیں آنا چاہیے۔ اس لحاظ سے یہ عجیب بات ہے کہ وہ شخص جو بقول خود عملی سیاست میں بیس سال کا تجربہ رکھتا ہے کہہ رہا ہے کہ مجھے حکومت چلانے کے معاملات سمجھنے میں تین ماہ لگے۔ اس ضمن میں انہوں نے پاور سیکٹر کی خاص طور پر مثال دی کہ ڈیڑھ سال تک تو پاور سیکٹر کے فگرز کا ہی پتہ نہیں چل رہا تھا، موجودہ حکومت کے لیے پہلا مسئلہ ہی پاور سیکٹر ہے۔ ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ اس حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد کافی ٹامک ٹوئیاں ماریں۔ شروع میں خان صاحب کے لیے ٹیم بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ثابت ہوا ۔ کابینہ میں حالیہ رد وبدل کو بھی شمار کیا جائے تو وزیراعظم چار مرتبہ کابینہ میں رد و بدل کر چکے ہیں لیکن معاملات ابھی تک ٹھہر نہیں رہے۔ یہ درست ہے کہ خان صاحب ایک ویژن لے کر اقتدار میں آئے لیکن انہیں جلد ہی احساس ہو گیا کہ زمینی حقائق اقتدار میں آ نے سے پہلے جیسے وہ سمجھتے تھے یکسر مختلف ہیں لیکن آج بھی وہ قریباً ہر روز ہی اپنے بیانات میں ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو محض فلسفیانہ ہوتی ہیں۔ حال ہی میں وزیراعظم اور وزراکے درمیان کارکردگی معاہدے پر دستخط ہوئے۔ پارلیمانی نظام میں امور مملکت سرانجام دینا وزیراعظم اور ان کی کابینہ کی اجتماعی ذمہ داری ہوتی ہے، حکومت چلانا کسی بہت بڑے ملٹی نیشنل ادارے یا کاروباری ادارے کو چلانے سے یکسر مختلف ہے۔ خان صاحب جب برسر اقتدار آئے توان کے نزدیک سرکاری اور سیاسی سطح پر سب سے بڑا مسئلہ کرپشن کا خاتمہ تھا۔ ان سے اس امر پر تو اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ بڑھتی ہوئی کرپشن پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہے لیکن اس کے علاوہ بھی کئی دوسرے گھمبیر مسائل موجود ہیں جنہیں کوئی تنہا وزیراعظم ٹھیک نہیں کر سکتا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان ویسے ہی اتنے مسائل میںگھرا ہوا ہے کہ انہیں حل کر نے کے لیے نہ صرف حکومتی ٹیم ضروری ہے بلکہ ملک کے اندر دیگر سٹیک ہولڈرز سے باہمی تعاون کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ کہنا کہ ہماری تیاری نہیں تھی کمزور گورننس کی غمازی کرتا ہے۔ عوام نے آپ کو حکومت کے معاملات بخوبی چلانے اور معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے ووٹ دئیے تھے، بجائے نظام کو مورد الزام ٹھہرانے کے اسے درست کیا جائے لیکن اس طرح نہیں کہ ہمارے آنے سے پہلے اقتدار میں رہنے والے غلط تھے اور جو ہم کر رہے ہیں وہی ’’صراط مستقیم‘‘ ہے۔ وزیراعظم امریکی صدارتی نظام کے بڑے گرویدہ ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ نظام بالکل موزوں نہیں کہ منتخب ہونے کے بعد چند ماہ بریفنگز میں ہی گزر جائیں جس کے بعد حکومت اپنا کام شروع کرے، ان کا اشارہ امریکہ کے موجودہ پریزیڈنٹ الیکٹ جوبائیڈن کی طرف ہے جہاں الیکشن تو ہر چار سال بعد نومبر کی پہلی منگل کو ہوتے ہیں لیکن نومنتخب صدر اپنے منصب کا حلف اگلے سال 20 جنوری کو اٹھاتا ہے۔ یہ نظام امریکہ تک ہی محدود ہے، اکثر ممالک میں پارلیمانی نظام ہی رائج ہے۔ پاکستان کے لیڈر خواہ فوجی ہوں یا سیاسی ان میں سے اکثریت صدارتی نظام کے گن گاتی ہے جس میں وفاقی حکومت ہی سب کچھ ہے۔ 1973ء کے آئین کے وفاقی پارلیمانی ہونے کے باوجود اسے مسخ کرنے میں جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے اپنے ادوار میں کردار ادا کیا۔ اس سے پہلے فیلڈ مارشل ایوب خان جنہوں نے 1962ء کا آئین دیا تھا اس میںتو وفاق کو ختم ہی کر دیا گیا تھا اور تمام تر اختیارات ایوب خان کے ہاتھوں میں ہی تھے۔ 2010ء میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں اتفاق رائے کے ساتھ آئین کو وفاقی اور جمہوری بنانے کیلئے 18 ویں اور پھر 20 ویں ترمیم لائی گئی۔ جب سے خان صاحب برسراقتدار آئے ہیں وہ خود اور بعض دیگر پاور سنٹرز بھی یہی رونا روتے رہتے ہیں کہ 18 ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو مالی اور انتظامی اختیارات تفویض کر کے وفا ق کو قلاش کر دیا گیا ہے، اس کے پیچھے یہ منطق ہے کہ وفاق صوبوں کو اپنا پیٹ کاٹ کر نواز رہا ہے حالانکہ یہ صوبے ہی ہیں جو آمدنی کے وسائل پیدا کرتے ہیں اور وفاق پالیسی بناتا ہے، چھوٹے صوبوں کو جائز طور پر گلے تھے۔ بلوچستان کو گلہ تھا کہ گیس ان کے صوبے سے نکلتی ہے لیکن انہیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ملا۔ اسی طر ح پنجاب زرعی پیداوار کا گڑھ ہے، کراچی پاکستان کا انڈسٹریل ہب اور صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے۔ 18ویں ترمیم کے پیچھے دراصل یہ فلسفہ کار فرما تھا کہ وفاق ہر سال ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح ایک فیصد بڑھائے گا لیکن بدقسمتی سے 2010ء میں 18ویں ترمیم سے قبل یہ تناسب 9 فیصد تھا اور آج ہی وہی ہے۔ پاکستان کی اکانومی اس دہائی میں اس لحاظ سے جمود کا شکار رہی، گویاکہ صوبوں کو وفاقی حکومتوں کی نااہلیوں کی سزا کیوں دی جائے، وفاق اور صوبوں کو تو ایک لڑی میں پرویا ہوا ہونا چاہیے، اسی صورت میں ملک آگے بڑھ سکتا ہے۔ جہاں تک اس دلیل کا تعلق ہے کہ ٹیم بنانے کے لیے وقت چاہیے ہوتا ہے، یہ بھی بودی ہے۔ پارلیمانی نظام میں بھی سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں رہ کر بھی ریسرچ کرتی رہتی ہیں اور اعداد وشمارکا انہیںبخوبی علم ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اپوزیشن کی جماعتیں حکومت گرانے یا اپنی مدافعت کرنے میں احتجاج اور بیان بازی میں وقت گزاردیتی ہیں اور پوری طر ح ہوم ورک نہیں کرتیں۔ ناتجربہ کاری کا رونا رونے والے موجودہ حکمران کی کابینہ میں اکثریت ان وزرا کی ہے جنہوں نے نہ صرف گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوا ہے بلکہ کئی کئی بار وزیر رہ چکے ہیں اور وہ اقتدار میں پہلی بار نہیں آئے۔ یہ الگ بات ہے کہ ماضی میں نالائقیوں کا مظاہرہ کرنے والے اب کون سے گل کھلالیں گے؟۔ جہاں تک نئے چہروں کا تعلق ہے، اسد عمر کو خان صاحب نے انتخابات سے بہت پہلے دھرنے کے دوران ہی وزیر خزانہ نامزد کردیا تھا لیکن حکومت میں آنے کے تھوڑے ہی عر صے میںانہیں فارغ کر دیا گیا کیونکہ وہ پاکستان کوآئی ایم ایف کے پروگرام میں لے جانے سے لیت ولعل کر رہے تھے اور ان کی جگہ جو وزیر خزانہ بنے وہ ڈاکٹر حفیظ شیخ پیپلز پارٹی کے دور میں بھی اسی وزارت کو چلاتے رہے ہیں، موصوف آ ج کل کی حکومت کے بھی فیورٹ ہیں۔