وزیر اعظم عمران خان نے آٹا،گھی،چینی،چاول اور دالوں کی قیمتوں میں کمی کے لیے فوری اقدامات کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام کی مشکلات میں کمی کی خاطر ہر ممکن اقدام کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف غریب طبقات کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے اقتدار میں آئی، اگر ان کی حکومت غریب افراد کے لیے کچھ نہیں کر سکی تو انہیں حکومت میں رہنے کا حق نہیں۔ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان افراد کو راشن مہیا کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے وزیر اعظم نے ان محرکات کا ذکر کیا جن کی وجہ سے معاملات ابتری کا شکار ہوئے۔ وزیر اعظم کی نچلے طبقات کے لیے فکر مندی قابل قدر ہے تا ہم ان کے علم میں خرابیوں کے جو اسباب آ چکے ہیں ان کی اصلاح کا عمل بلاتاخیر شروع ہوناچاہئے۔ پاکستانی معاشرہ اخلاقی اصولوں اور جواز سے محروم حکومتوں کے سبب بتدریج انحطاط کا شکار رہا ہے۔ حکومت کسی جماعت اور کسی خاندان کی ہو اس کی ترجیح میں وہ فیصلے رہے جو بالائی طبقات کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ ہر حکومت نے کارخانہ داروں، سرمایہ کاروں اور بنکنگ سیکٹر کے لیے پہلے سے زیادہ رعایتوں کا اعلان کیا۔ بالائی طبقات نے دولت کے زور پر ریاست کے ہر فیصلہ ساز ادارے کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ پارلیمنٹ میں مختلف کاروباری گروہوں اور کارٹلز کے نمائندے بیٹھ گئے۔ ٹیکسوں میں رعایت اور مراعات میں اضافے کا مطلب نچلے طبقات پر مالیاتی بوجھ بڑھانا تھا۔ 72برسوں سے اس بوجھ میں اضافہ ہو تا رہا اب یہ ناقابل برداشت اذیت کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ مسلم لیگ ن کی گزشتہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر کے رخصت ہوئی تو پیپلزپارٹی کی حکومت سے ملنے والے وسائل کا بڑا حصہ کم ہو چکا تھا۔ گردشی قرضہ 500ارب روپے سے بڑھ کر ایک ہزار ارب روپے ہو گیا، گیس کے شعبے میں اربوں روپے کا خسارہ ہوا، غیر پیداواری شعبے کے لیے حاصل کردہ غیر ملکی قرضوں نے جی ڈی پی کی شرح کو نگلنا شروع کر دیا۔ جو شعبہ فائدہ دے سکتا تھا اس کا فائدہ قرضوں کی اقساط کی صورت میں باہر جانے لگا۔ تحریک انصاف کی حکومت کے لیے سب سے پہلا چیلنج قرضوں کی ادائیگی تھا۔ عمران خان دوست ممالک کے پاس گئے۔ کچھ نے ادھار تیل دیا اور کچھ نے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں مدد دی۔ پی ٹی آئی حکومت نے اقتدار کے پہلے برس 10ارب ڈالر کا قرضہ واپس کیا لیکن اس سے زیادہ قرض اصلاحی پروگرام کے لیے لینا پڑا۔ عام آدمی کے لیے مالیاتی پالیسیوں اور معاشی معاملات کو سمجھنا آسان نہیں۔ اس کے لیے ملک کی معاشی حالت کو سمجھنے کا ایک ہی فارمولہ معتبر ہے کہ آٹا، گھی، چینی اور دالیں اس کی قوت خرید میں رہیں۔ ملک میں جو معاشی مسائل موجود ہیں ان کی ذمہ داری سابق دو حکومتوں خاص طور پر مسلم لیگ ن کے سرجاتی ہے لیکن وہاں ایک عجیب طرز عمل کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے اور دیگر اپوزیشن رہنمائوں نے موجودہ بحران کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کی اور سارا ملبہ حکومت کے سر ڈال دیا۔ وزیر اعظم عمران خان کے رفقاء اس صورتحال میں حکومت کا نہ جانے کیوں دفاع نہیں کر پائے اور اپوزیشن عوام میں یہ تاثر پیدا کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہی کہ آٹا اور گندم بحران حکومت کے بعض اپنے لوگوں کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ آٹا بحران پر تنقید کو ملک کی مجموعی معاشی حالت کے ساتھ ملا کر ایسے بات کی جا رہی ہے کہ حکومت کو نا اہل اور ناتجربہ کار قرار دیا جا سکے۔ ماضی کے معاشی بوجھ کو اتارنے کی کوشش میں وہ طبقات کسی حد تک نظرانداز ہونے لگے جن کی زندگی سے دکھوں کے کانٹے چننے کا وعدہ عمران خان نے کیا تھا۔ وہ تاجر اور کاروباری طبقات ایک بار پھر کاروبار بند کرنے کی دھمکیاں دے کر حکومت کو اس کی ٹیکس اصلاحات پر عملدرآمد روکنے پر آمادہ کر رہے ہیں۔ اصول بہت سیدھا اور صاف ہے کہ ریاست کو ترقیاتی، دفاعی اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے۔ مختلف شعبوں کی صلاحیت اور حجم کو سامنے رکھ کر ٹیکس لگا کر یہ ضرورت پوری کی جاتی ہے جب ٹیکس کی ادائیگی سے لوگ انکار کریں گے تو صحت، تعلیم اور رہائش کی فراہمی کے لیے ریاست کے پاس کچھ نہیں ہو گا۔ ریاست کے مالیاتی وسائل کم ہونے لگیں گے تو وہ خوراک، سفری سہولیات اور عوامی بہبود کے مختلف منصوبوں پر سبسڈی دینے کے قابل نہیں رہے گی۔ اس سے کرائے بڑھتے ہیں اور عام آدمی کی جیب پر بوجھ پڑنے لگتا ہے۔ انتظامی ڈھانچہ فعال ہو تو بہت سے مسائل پر قابو پانا آسان ہو جاتا ہے۔ ہر شعبے میں سیاسی مداخلت اور میرٹ کے قتل نے حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ کوئی گروہ جب چاہتا ہے اشیا کے نرخوں میں مرضی کا اضافہ کر لیتا ہے۔ سبزی سے لے کر ترکاری اور گوشت، ٹرانسپورٹ کرایوں سے لے کر سکول کی فیسوں تک کسی معاملے پر حکومت کی گرفت نہیں رہتی۔ قیمتیں کنٹرول کرنے کا نظام معطل دکھائی دیتا ہے۔ ذخیرہ اندوز اور گراں فروش بے خوف ہو کر عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں۔ یہ صورت حال قابل رشک نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے کہے پر عوام بھروسہ کرتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے حکومت مشکل حالات سے نبرد آزما ہے لیکن مشکلات سے جنگ میں ایک ضرب اس ناجائز منافع خور پر بھی ضرور پڑنی چاہئے جو عوام کی زندگی اجیرن بنا رہا ہے۔