دس روز پہلے ساڑھے آٹھ سو سال پرانے نوٹرے ڈیم چرچ میں آگ لگی تو اس کا غم صرف فرانس میں نہیں ساری دنیا میں محسوس کیا گیا۔ ناٹرے ڈیم کا تاریخی چرچ پیرس ہی کی نہیں بلکہ سارے فرانس کی پہچان ہے۔ جب آگ کے شعلے چرچ کی بلند و بالا عمارت سے بلند ہورہے تھے تو ناٹرے ڈیم کے اردگرد کی گلیوں میں پیرس کے لوگ رو رہے تھے اور گڑ گڑا کر دعائیں مانگ رہے تھے تا کہ اس تاریخی ورثے کو نقصان نہ پہنچے۔ ناٹرے ڈیم کے قرب و جوار میں ہی نہیں، ساری دنیا میں عیسائیت اور تاریخ و ثقافت سے دلچسپی رکھنے والے چرچ کی حفاظت کے لیے دعا گوتھے۔ گھبراہٹ کے اس عالم میں کسی کو شہدکی مکھیوں کے ان تین چھتوں کا خیال نہ تھا اور جس منتظم کو یہ علم تھا وہ بھی دھڑکتے دل کے ساتھ یہی سوچ رہا تھا کہ جب لکڑی کی ساری چھت جل گئی تو بیچاری شہدکی مکھیاں کہاں محفوظ رہی ہوں گی مگر مکھیوں کے خالق کی قدرت سے دو لاکھ مکھیاں مکمل طور پر محفوظ رہیں اور اس معجزے میں کسی ایک شہر کی مکھی کو نقصان نہیں پہنچا۔ ناٹرے ڈیم میں شہد کی مکھیوں کی معجزاتی حفاظت پر اس وقت ساری دنیا ورطۂ حیرت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ فرانس کے ساتھ اوائل جوانی سے جو ایک جذباتی و ادبی رشتہ استوار ہو گیا تھا۔ اس رشتے اور رابطے کے تین حوالے تھے۔ پہلا حوالہ انقلاب فرانس اور انسانی آزادی میں اہل فرانس کی ادبی و علمی خدمات۔ دوسرا حوالہ فرانس کی تاریخی عمارات اور تیسرا یورپ کی رومانوی زبان فرانسیسی زبان کا حوالہ تھا۔ جب دو عشرے پہلے کہ ابھی قویٰ مضمحل نہ ہوئے تھے اور گھٹنوں سے کسی طرح کی کوئی صدائے احتجاج کبھی سننے میں نہ آئی تھی تو ہم نے بیگم کی رفاقت میں ٹور ڈی فرانس سائیکل ریس کی نقل میں ٹور ڈی یورپ کا گاڑی پر پروگرام بنایا۔ تب ابھی کسی سیٹلائٹ سے خلیق و ہمدرد رہبر جی پی ایس کی مدد سے آپ کو قدم قدم پر راستہ نہ بتاتی تھی۔ تب آپ کو جرمنی میں جرمن، فرانس میں فرنچ اور اسپین میں ہسپانوی زبان میں ہی راستہ پوچھنا پڑتا تھا۔ نتیجہ اس کا یہ ہوتا تھا کہ کبھی ہم منزل مقصود پر پہنچ جاتے اور کبھی بھٹک جاتے تھے۔ تا ہم بھٹک کر بھی ہم رہتے یورپ میں ہی تھے، لہٰذا اسے ہم سیاحت کا حصہ ہی سمجھتے تھے اور یوں بعض اوقات ان ’’نا مطلوب‘‘ مگر دلفریب و حسین علاقوں کو دریافت کر کے زیادہ خوشی محسوس کرتے تھے۔ اسی ٹور ڈی یورپ میں جب ہم فرانس پہنچے تو سیر و سیاحت کے لیے ہماری ترجیحات بڑی واضح تھیں۔ پیرس میں صرف تین مقامات ہماری ترجیح تھے۔ اس سے زیادہ کا وقت ہی نہ تھا۔ شانزے لیزے، نوٹرے ڈیم کیتھڈرل اور ایفل ٹاور۔ جب ہم کہیں دور گاڑی پارک کر کے اور اپنے ٹھکانے پر سامان رکھ کر شانزے لیزے پہنچے تو یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ تاریخی و ثقافتی شاہراہ شیشے کی نہیں پتھروں کی بنی ہوئی ہے۔ ان پتھر کے ٹکڑوں کو کمال فن کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ شانزے لیزے تین وجوہات کی بناء پر ساری دنیا میں جانی اور پہچانی جاتی ہے اور اپنے اندر بلاکی مقناطیسی کشش رکھتی ہے۔ ایک یہاں کے تھیٹرز، دوسرے یہاں کے کیفے اور لگژری شاپنگ سنٹرز تیسرے یہاں ٹور ڈی فرانس کی سالانہ سائیکل ریس کا خاتمہ بھی ہرسال اسی شانزے لیزے پر ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صدیوں پرانی یہ تقریباً دو کلومیٹر لمبی اور 70میٹر چوڑی شاہراہ جوں کی توں قائم ہے۔ اور کسی ایک انچ پر غاصبانہ قبضہ نہیں ہوا۔ گوتھک فن تعمیر کا شاہکار ناٹرے ڈیم چرچ ہماری دوسری ترجیح تھا۔ چرچ کو آگ لگی تو جہاں ساری دنیا نے اس کا سوگ منایا وہاں ہم بھی ناٹرے ڈیم کے حوالے سے جڑی اپنی یادوں کو تازہ کر کے بہت آزردہ اور غمزدہ ہوئے۔ ناٹرے ڈیم کو وزٹ کرنے سے پہلے اس سے وکٹرہیوگو کے 1831ء میں لکھے گئے ناول کے ’’ناٹرے ڈیم کا کبڑا‘‘ کے حوالے سے تعارف ہو چکا تھا۔ 1160ء میں اس چرچ کی تعمیر شروع ہوئی تھی جو 1260ء میں مکمل ہوئی۔ اس ناول میں کبڑے کا کردار چرچ کی گھنٹیاں بجاتا ہے اور اسی حوالے سے پہچانا جاتا ہے اور لوگ اس کی تعظیم کرتے ہیں۔ 1789ء کے انقلاب فرانس کے دوران انقلابیوں نے جہاں فرانس کو شہنشاہوں کے انسانیت سوز مظالم اور ان مظالم کو مذہب کا تحفظ کرنے والے پوپ حضرات اور راہبوں کو راستے سے ہٹایا اور فیوڈل ازم کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر کے انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کروایا وہاں انہوں نے چرچ کے اندر رکھے ہوئے بعض مجسموں کے سر بھی قلم کر دیئے کیونکہ ان کے خیال میں یہ بو رژوالوگوں کے مجسمے تھے۔ ہم نے یہی سربریدہ مجسمے دیکھے تھے۔ اب نوٹرے ڈیم کے تاریخی چرچ میں بظاہر حادثاتی آگ کے شعلے بھڑکے تو چرچ اور اس کے تاریخی ورثے سے جذباتی لگائو رکھنے والوں نے چرچ کی تعمیر و تزئین نو کے لیے کروڑوں یورو کا فنڈ فراہم کر دیا۔ فرانس کی حکومت، فرانس کے عوام اور ساری دنیا کے تہذیب و کلچر سے وابستگی رکھنے والے لوگوں نے تہیہ کر لیا ہے کہ وہ چرچ کو صرف پانچ سال کے عرصے میں اس کی پرانی اور اصلی حالت واپس لے آئیں گے۔اب ذرا اپنا حال بھی سن لیجئے۔ چند روز پہلے میں علامہ اقبال کے بارے میں اقبال اکیڈمی کی شائع کردہ چند کتابوں کی خریداری کے لیے اقبال اکیڈمی کے سیل ڈپو گیا۔ یہ سیل ڈپو میکلوڈ روڈ کی اس کوٹھی میں بنایا گیا ہے جہاں علامہ اقبال 1922ء سے لے کر 1935ء تک تیرہ برس مقیم رہے۔ اس سیل ڈپو کے منتظمین نہایت ادب و احترام سے پیش آئے مگر ’’کاشانۂ اقبال‘‘ کی بربادی کا منظر دیکھ کر دل غم میں ڈوب گیا۔ 4کنال کی اس کوٹھی کالان میکلوڈ روڈ تک پھیلا ہوا تھا۔ 1958ء سے اقبال اکیڈمی کی تحویل میں آنے والے اس گھر کے لان پر ’’زندہ دلان لاہور‘‘ نے قبضہ کر کے وہاں اپنے مکانات اور ورک شاپس بنا لی ہیں۔ گھر کے کھڑکیاں دروازے ٹوٹ چکے ہیں۔ چھتیں اتنی بوسیدہ ہیں کہ کسی وقت سروں پر گر سکتی ہیں۔ یہ کاشانہ نہیں ویرانہ ہے اور یہاں پانی ہے اور نہ کوئی اور سہولت، وسیع و عریض لان قصہ ماضی بن چکا ہے۔ ایک پتلی سی گلی اندر جاتی ہے اور آنے والوں کو کاشانۂ اقبال اپنے ملک کے بے حس حکمرانوں اور بے ذوق عوام کی عدم دلچسپی کی کہانی سناتا ہے۔