حرفِ آخر یہ کہ خدا کی بستی دوکاں نہیں ہے۔ اس گلستان میں نہیں حد سے گزرنا اچھا ناز بھی کر تو با اندازۂ رعنائی کر اخبار کی شہ سرخی یہ ہے ’’دو خاندانوں میں پھر چارٹر آف کرپشن‘‘ شاہ محمود قریشی۔ پھر اسی صفحے پر جناب فیاض الحسن چوہان کا بیان ’’اپوزیشن کبھی ایک اور نیک نہیں ہو سکتی‘‘ ہماری سیاست میں الزام تراشی کب نہ تھی۔ کیوں نہ ہوتی کہ خود معاشرے کا چلن یہی تھا۔ 1989ء میں ضیاء الاسلام انصاری مرحوم جناب الطاف حسن قریشی، حضرت مجیب الرحمٰن شامی، برادر رؤف طاہر اور میاں محمد نواز شریف کے سیکرٹری اطلاعات حسین حقانی کے ہمراہ کوئٹہ جانے کا موقع ملا۔ جہاز میں ایک طویل قامت بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ تمہید اور تکلف کے بغیر بات کرنے والے ان صاحب نے بتایا: آزادی سے پہلے دو ہفتہ وار جرائد ان کی مِلک تھے۔ ایک میں کانگریس کی حمایت کرتے۔ دوسرے میں مسلم لیگ کی تائید۔ پھر کانگریس نواز جریدے کی ایک سرخی کا متن سنایا جو نقل نہیں کیاجا سکتا۔ واقعہ سنانے کے بعد انہوں نے قہقہہ برسایا۔ گویا کوئی کارنامہ انجام دیا ہو اور اس پر داد کے مستحق ہوں۔ اب وہ ایک عدد یا ایک سے زائد فلور ملوں کے مالک تھے۔ چیف سیکرٹری بلوچستان کے ہاں انہیں قیام کرنا تھا۔ خود سے اور اپنی زندگی سے شاد تھے کہ وہ کام کیا ہم نے جو رستم سے نہ ہوگا یوں کودا ترے گھر میں کوئی دھم سے نہ ہوگا فارسی کے شاعر نے کہا تھا۔ حاصلِ عمر نثارِرہِ یارِ کردم شادم از زندگیٔ خویش کہ کارے کردم عمر بھر کی کمائی دوست کی نذر کر دی۔ شادماں ہوں کہ ایک بڑا کام کر دکھایا۔ مبالغے کی معراج کو فارسی اور اردو غزل پہنچتی ہے تو کسی شعر پہ نعت یا حمد کا گمان ہونے لگتاہے۔ خیر، یہ ایک دوسرا موضوع ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی ایسے کسی جوہری ہی کو جس پہ اظہار زیباہے۔ لکھنے والا بھٹک گیا۔ مجید نظامی مرحوم یاد آتے ہیں۔ وہ کہا کرتے: کالم کا کوئی موضوع نہیں ہوتا۔ اس اعتبار سے تو یہ ایک موزوں تحریر ہے؛اگرچہ باقی ہر پہلو سے تشنہ او رسطحی ہو۔ عید الاضحی کے بعد اپوزیشن کیا احتجاجی تحریک کا ڈول ڈال سکے گی، جس کا اعلان ہوا؟ ناچیز کا تاثر یہ ہے کہ: ایں خیال است و محال است و جنوں۔ یہ وہ خواب ہیں جو دن کی روشنی میں دیکھے جاتے ہیں۔ وجوہات بے شمار ہیں۔ متحدہ اپوزیشن کے نظریہ سازحضرت مولانا فضل الرحمٰن ہیں۔زرداری صاحب کی خواہش پر بلاول بھٹو اس تحریک کی قیادت کے لیے چنے گئے۔ جناب شہباز شریف نے بھی دستار انہی کے سر پر رکھ دی ہے۔بلاول بھٹو کی شخصیت میں وہ عوامل ہی موجود نہیں، عوامی مقبولیت کے لیے جو لازم ہیں۔پھر یہ کہ کورونا کی آزمائش میں مبتلا شہر اجتماعات کے لیے سازگار نہیں۔ خون گرمانے والے جلسوں کا رواج ہی جاتا رہا۔ اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے۔ وہی کاررواں وہی راستے وہی زندگی، وہی مرحلے لیکن اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں کبھی ہم نہیں بلاول صاحب رزم گاہ میں اتریں گے تو پوچھا جائے گا کہ سندھ میں کون سا کارنامہ آپ نے انجام دیا ہے کہ پنجاب فتح کرنے تشریف لائے ہیں۔ تاجدار کا نام یاد نہیں، یہ اس جلیل القدر شاعر ثنائی کا عہد تھا۔ بادشاہ نے ہندوستان پر حملے کا ارادہ کیا تو تقریب شب کے لیے ثنائی نے قصیدہ لکھا۔ بگھّی میں سوار پیش کرنے جاتے تھے کہ کسی کو اپنا ذکر کرتے سنا۔ بگھّی روک دی گئی۔ یہ ایک لائی خوار تھا، کشکول بڑھا کر بادہ نوشی کرنے والا۔ وہ کہہ رہاتھا: اندھا ہے،ثنائی اندھا ہے۔ بادہ فروش نے کہا: بادشاہ کے بارے میں جو کچھ تم نے کہا، اس کی داد میں ایک جام دے چکا لیکن ثنائی کو تم کیسے ناشناس قرار دے سکتے ہو؟ بھک منگا بھی عجیب تھا۔ اس نے کہاتھا: غزنی کے آسمان پر سلطان نے کون سے چاند ستارے ٹانک دیے ہیں کہ ہند کاقصد فرماتاہے۔ رہا ثنائی تو وہ اس سے بھی بڑا احمق ہے۔ علم اللہ نے بخشا ہے، موزونی ء طبع عطا کی ہے، خلق اس پہ فدا ہے۔ اس پر بھی درباری ہو گیا۔ ثنائی پہ وہی بیتی جو کبھی غزالیؒ پہ بیت گئی تھی؛حالانکہ شاعر نہیں، وہ اپنے عہد کے سب سے بڑے عالم تھے۔ ان کے سامنے سوال بھی دوسرا تھا: عمر بھر آدمی اپنے آبائی عقائد ہی سے کیوں جڑا رہتاہے۔ خیر ثنائی وہیں سے لوٹ گئے۔ پھر کبھی دربار کا رخ نہ کیا اور صدیوں کے بعد اقبالؔ ایسے عظیم شاعر اور مفکّر نے یہ کہا: ثنائی کے بحر میں، میں نے غوّاصی نہ کی ورنہ ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوئے لالہ بلاول سے پوچھا جائے گا کہ پیپلزپارٹی کے بارہ سالہ اقتدار میں سندھ پر کیا بیتی؟ تھر میں آدم کی اولاد اور پرندوں پر کیا بیتی اور کراچی کے دو کروڑ سے زیادہ شہری جنگی قیدی کیوں بنا لیے گئے۔ شریف خاندان پہ اعتراض یہ ہے کہ سب کچھ انہوں نے لاہور پہ لٹا دیا کہ ان کا سیاسی قلعہ ہے۔ سندھ کے لیے کراچی 95فیصد محصولات جمع کرتاہے۔ آبادی کے تناسب سے نہ سہی، ایک قابلِ ذکر حصہ کیوں اس پہ خرچ نہیں کیا جاتا۔ سندھی پیپلزپارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔ حکومت ان کا حق سہی مگر اس کا بڑا حصہ ہڑپ کیوں کر لیا جاتاہے؛حتیٰ کہ شہر میں صفائی کے لیے ملک ریاض کو پیشکش کرنا پڑتی ہے۔ نکاسی ء آب کے لیے وزیرِ اعظم کو فوج طلب کرنا پڑتی ہے۔ آخر کیوں؟ فرض کیجیے، مالی طور پر سندھ حکومت اپاہج ہے تو وہ خود بھی فوج طلب کر سکتی تھی، لا تعلق کیوں رہی۔درد کیوں نہیں، کراچی کے شہریوں کا درد اسے کیوں محسوس نہیں ہوتا۔ سوتیلی اولاد کا سا سلوک کیوں؟ وہ کہ جسے فیضؔ نے روشنیوں کا شہر کہا تھا۔ ظاہر ہے کہ روشنیوں سے مراد بجلی کے کھمبے نہیں تھے۔ اس کے خلّاق مکینوں کی روشنی ء طبع تھی۔ اے روشنی ء ِ طبع بر من بلا شدی! رواروی میں لکھی گئی، یہ ایک تشنہ سی تحریر ہے ورنہ اپوزیشن کے دوسرے تضادات کا ذکر بھی کرتا۔ ان عوامل کا بھی، میرے خیال میں جو حزبِ اختلاف کی راہ میں پہاڑ بن کر کھڑے ہیں۔ خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ کے باب میں اس کا مخمصہ۔ عمران خان نے پہا ڑایسی غلطیاں کی ہیں۔ لیکن جیسا کہ شورش کاشمیری نے کہا تھا:زندگی اپنے محاسن پہ بسر کی جاتی ہے، دوسروں کی خامیوں پر نہیں۔ حرفِ آخر یہ کہ خدا کی بستی دوکاں نہیں ہے۔ اس گلستان میں نہیں حد سے گزرنا اچھا ناز بھی کر تو با اندازۂ رعنائی کر