پاکستانی عدلیہ کی تاریخ کے اوراق الٹ رہا تھا ۔ ۔ ۔ اور کہیں جا کر جسٹس حمود الرحمان کمیشن رپورٹ پر آیا تھا ،جو پچاس سال بعد بھی شائع نہ ہوسکی۔اور اس وقت مختلف ہاتھوں سے ہوتے ہوئے نجانے کن الماریوں میںمقید ہے۔ جہاں اسے آہستہ آہستہ دیمک چاٹ رہی ہوگی۔مگر سقوط ِ ڈھاکہ کی خونی تاریخ سے وطن ِ عزیز کی سیاسی تاریخ ہمیشہ سیاہ رہے گی۔ فیض ؔ صاحب نے سقوطِ ڈھاکہ کے پس منظر میں ایک غزل لکھی تھی۔جس کے ایک شعر نے بڑی شہرت پائی۔ کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد جب ڈھاکہ یونیورسٹی میں فیضؔ صاحب نے یہ غزل پڑھی تو سامنے بیٹھے ایک سینئر پروفیسر نے یہ کہا: ’’ فیض ؔصاحب، خون کے دھبے برساتوں سے نہیں دھلتے۔‘‘11دسمبر کو پاکستان کی عدالتی تاریخ میں جو واقعہ اور سانحہ ہوا، 72گھنٹے بعد بھی اس کی بازگشت بڑے زور شور سے سنائی دے رہی ہے۔مگر یقین ہے کہ ماضی کے اور سانحات کی طرح یہ واقعہ بھی تاریخ کی بھول بھلیوں میں گم ہوجائے گا۔ نواز شریف کی حکومت میں سپریم کورٹ کا حملہ تو ابھی حال ہی کی تاریخ ہے۔اُس کے سارے کردار بھی زند ہ ہیں۔ مگر ان میں سے کسی بھی ایک کردار کو سزا کیا ملتی۔الٹا بعد کے برسوں میں وطنِ عزیز میں اپنے اپنے اداروں میں عہدۂ جلیلہ پر فائز ہوئے۔ ممتاز ماہر ِ قانون ایس ایم ظفر نے اپنی کتاب ’’میرے مشہور مقدمات ‘‘ میں اس پورے واقعے کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کردی ہے۔کہ کس طرح وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی نگرانی میں رانا ثنا ء اللہ کو یہ ٹاسک سونپا گیا کہ وہ لاہور سے ن لیگیوں کے ایک سرکش گروہ کوبسوں میں بھر کر رات کے آخری پہر میں پنجاب ہاؤس پہنچائیں۔اور پھر پائے ،نہاری سے ڈٹ کر انہیں ناشتہ کراکے شاہراہ ِ دستور پر چھوڑ آئیں۔ وہ ویڈیو ایک نہیں کئی بار چل چکی ہے۔ کہ ن لیگی رہنما کس طرح اس وقت چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ پر حملہ آور ہورہے تھے اور بڑی مشکل سے وہ اپنی جان بچا کر اپنے چیمبر تک پہنچے۔بعد میں چند رہنما پکڑے بھی گئے۔چند دنوں کی انہیں علامتی سزائیں بھی دی گئیں۔مگر اس پر حیرت ہوتی ہے کہ جسٹس ناصر اسلم زاہد جیسے پائے کے جج اس ویڈیو میں نظر آنے والے ن لیگیوں کے چہرے دیکھنے کے باوجود یہ فیصلہ صادر فرماتے ہیں کہ ویڈیو کی بنیاد پر کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی۔سپریم کورٹ پر حملہ کرنے والے سارے کے سارے باعزت بری ہوگئے۔ 11دسمبر کو اسکرینوں پر چیختے چلّاتے،ہاتھوں میں ڈنڈے اور پتھر لیے کالے کوٹ انتہائی نگہداشت کے اسپتال پر حملہ آور ہوئے ۔اور جس طرح انہوں نے ڈاکٹروں اور نرسوں اور مریضو ں کو تشدد کا نشانہ بنایا ،جن میں سے تین افراد کی ہلاکت کی تصدیق بھی ہوچکی ہے۔اور جس کی بنیاد پر 50کے قریب وکلاء کی گرفتاری بھی ہوئی ہے۔ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اعلیٰ عدالتوں سے ہفتوںنہیں دنوں میں یہ باعزت بری ہوجائیںگے ۔اس واقعے اور سانحے کے بعد سب سے بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ سے اس اسپتال کا فاصلہ کوئی پانچ کلومیٹر کا ہے۔جہاں سے یہ وکلاء کا گروہ گاڑیوں اور بسوں میں بھر کے دن دہاڑے اسپتال پہنچتا ہے۔اورپھر کم و بیش تین گھنٹے تک بغیر کسی مداخلت کے یہ اپنی من مانی کارروائیاں کرتا ہے۔اور تو اور ،ٹی وی اسکرینوں نے دکھایا کہ وہاں پر کھڑی ایک پولیس وین کو آگ لگ رہی تھی اور ایک کالے کوٹ والا اس پر دھمال ڈال رہا تھا۔اور اُس کے ارد گرد کالے کوٹوں کا ایک گروہ تال دیتے ہوئے وہ الفاظ اگل رہا تھا کہ جو ضبط ِتحریر میں بھی نہیںلئے جاسکتے۔ تحریک انصاف کے صوبائی وزیر اطلاعات فیاض چوہان کو بڑی داد دی جارہی ہے کہ وہ بڑی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔مگر سوال یہ ہے کہ خود ہی چوہان صاحب کے الفاظ میں ’’پنجاب کے شیر شاہ سور ی کی پولیس کیا کررہی تھی؟ کیا اس علاقے کے ایس ایچ او ،ایس پی،ڈی آئی جی اور ہاں لاہور کے آئی جی کسی کے حکم سے اپنے دفتروں میں خواب ِ خرگوش میں تھے؟ کیا انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ ہتھیاروں سے لیس سینکڑوں کالے کوٹ پنجا ب انسٹیٹوٹ آف کارڈیالوجی کی اینٹ سے اینٹ بجانے جا رہے ہیں؟ ڈھٹائی کی حد دیکھیں کہ صوبائی وزیر قانون اور صوبائی وزیرِداخلہ بڑی ڈھٹائی سے اپنا دفاع کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ کس بات پر مستعفی ہوں۔ ۔ ۔ لاہور تحریک انصاف کے حامیوں اور کارکنوں کا گڑ سمجھا جاتا ہے۔کئی گھنٹے تک یہ واقعہ ٹی وی پر لائیو چلتا رہا۔مگر لگتا ہے کہ سواسال کی حکومت میں تحریک انصاف کی حکومت کے وزیر ،مشیر،حامی اور کارکن بھی وہ تمام زرداریوں اور شریفوں کی جماعتوں کے مزے چکھ چکے ہیں جس میں پیٹ بھرنے کے بعد ضمیر سوجاتے ہیں۔ ایک اور بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو چھوڑ کر پنجاب ہائی کورٹ اور ہمارے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے برادر ججوں نے ایک ایسی خاموشی اختیار کی ہوئی ہے کہ جسے بہت ہی محتاط الفاظ میں ’’ناقابل ِ یقین ‘‘ہی کہا جاسکتا ہے۔ 11دسمبر کو لاہور میں جس وکلا ء کے گروہ نے بڑی دیدہ دلیری سے یہ مظاہرہ کیا۔ ۔ ۔ در اصل یہ وہ فصل ہے جو عدلیہ بحالی کے دوران پک کر جوان ہوئی تھی۔مشرف دشمنی میں اس وقت چوہدری افتخار کی بحالی کے سرخیلوں نے جس طرح اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجائی تھی ، اور ریاستی قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر جو بہیمانہ سلوک اپنے مخالفین سے کیا تھا، اگر اس وقت ان کے ہاتھ روک دئیے جاتے تو شاید یہ سانحہ اس طرح نہ ہوتا۔ریکارڈ کو محفوظ کرنے اور ان کالے کوٹوں کی سیاہ تاریخ کا باب دکھانے کے لئے صرف ایک دو واقعات ہی کا ذکر کروں گا کہ کسطرح بزرگ سیاسی رہنما ڈاکٹر شیر افگن نیازی کی کئی گھنٹوں تک لاہور میں ٹھڈوں اور ڈنڈوں سے تواضع کی جاتی رہی۔اسکرینوں پر لائیو یہ مناظر دکھائے جاتے رہے ۔شیر افگن نیازی کو چھڑانے کے لئے ہمارے چوہدری اعتزاز احسن جب پہنچے تو اس وقت تک وہ ایک زندہ لاش بن چکے تھے۔ سپریم کورٹ میں احمد رضا قصوری کا چہرہ سیاہ کیا گیا۔تو کسی ایک جج اور کسی بار کے عہدیدار نے ایک لفظ تک منہ سے نہیں نکالا۔نعیم بخاری کا سکھر بار میں محض کالا کوٹ ہی نہیں اتارا گیا بلکہ تقریباً کپڑے تک اتار دئیے گئے۔ اس کی مذمت تو کیا،خوب خوب تالیاں پیٹی گئیں۔ کہ poorنعیم بخاری کا یہ جرم تھا کہ اس نے چوہدری افتخار کے بیٹے ارسلان افتخار کی کرپشن کے بارے میں ایک خط کے ذریعے پردہ چاک کیا تھا۔ عدلیہ بحالی کے بعد ایک نہیں سینکڑوں واقعات ہیں،جب ججوں کو اُن کے چیمبروں میں جوتوں سے پیٹا گیا۔سو،11دسمبر کا واقعہ اور سانحہ ناقابل یقین ہوتے ہوئے بھی ایسا نہیں کہ بہت غیر متوقع تھا۔چوہدری کورٹوں کی بحالی کی تحریک سے تو ایسی ہی فصل کٹنی تھی۔