سوال اٹھایا کہ ہمارے ڈاکٹرز دوائی کا فارمولا نام لکھنے کی بجائے اس کا برانڈ نام کیوں لکھتے ہیں تو قارئین کا رد عمل دلچسپ اور تکلیف دہ تھا۔ اکثریت کا کہنا تھا برانڈ نام مہنگا سہی لیکن کم از کم دوا تو اچھی ہوتی ہے ، جنیرک نام یعنی فارمولا نام والی دوا کا کیا معلوم ناقص ہو یا جعلی ہو اور مزید خرابی پیدا کر دے۔سوال اب یہ ہے کہ اگر دوا کے مشہور برانڈ ہی دوا کے خالص اور معیاری ہونے کی ضمانت ہیں اور باقی سب ادویات مشکوک ہیں تو ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کیا کر رہی ہے اور ادویات سے متعلقہ درجنوں قوانین اور درجنوں ادارے کس مرض کی دوا ہیں؟ ان کی کارکردگی کا معیار اگر یہی ہے اور حکومت میں اتنی استعداد ہی نہیں کہ ان میں بہتری لا سکے تو کیوں نہ ان اداروں کو ہی ختم کر دیا جائے۔عوام کے ٹیکس کے پیسوں کو تو آگ نہ لگے۔پاکستان میں ایک عدد ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ایکٹ ہے .۔اس کے تحت ایک ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کام کر رہی ہے۔ادویات کے لائسنس جاری کرنے ، معیار کو یقینی بنانے ، لیبارٹری ٹیسٹنگ کو دیکھنے ، فارمیسی سروس کو دیکھنے ، بائیولوجیکل اور کنٹرولد ڈرگز وغیرہ کے لیے ہر شعبے کا ڈائرکٹر موجود ہے۔ پالیسی بورڈ ہے ، انسپکٹرز ہیں۔ڈرگ ایکٹ 1976 کے تحت ماہرین پر مشتمل ایک عدد ایکسپرٹ کمیٹی موجود ہے۔پاکستان نیشنل فارمولری ہے، کوالٹی کنٹرول بورڈ کام کر رہا ہے ۔ ناقص ادویات وغیرہ کے مقدمات کو سننے کے لیے الگ سے ڈرگ کورٹس موجود ہیں۔اس سارے اہتمام کے بعد بھی اگر اس لیے مہنگی ادویات خریدنا ہیں کہ فارمولا ادویات کی کوالٹی ناقص ہو سکتی ہے تو اس اہتمام کے باقی رہنے کا کیا جواز ہے؟ ڈریپ کے اختیارات تو دیکھیے۔ ایکٹ کی دفعہ 7پڑھیے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ ادویات کی تیاری سے لے کر ان کی پیکنگ، معیار اور فروخت تک ہر معاملے میں ڈریپ کے پاس وسیع اختیارات ہیں۔کسی بھی دوا کا لائسنس ڈریپ نے دینا ہوتا ہے۔جب تک وہ لائسنس نہ دے دوا تیار ہی نہیں کی جا سکتی۔یہ لائسنس منسوخ کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ادویات کی رجسٹریشن بھی اسی نے کرنا ہوتی ہے۔یہ رجسٹریشن سے انکار کر دے دوا فروخت ہی نہیں ہو سکتی۔ادویات کے فارمولے میں دیے اجزاء کا دوا میں موجود ہونا یقینی بنانا بھی اسی کی ذمہ داری ہے، جب تک اسے یقین نہ ہو جائے دوا فارمولا کے مطابق بنی ہے اور سارے اجزاء اس میں موجود ہیں تب تک دوا مارکیٹ میں آ ہی نہیں سکتی۔ڈریپ کے فرائض میں ہے وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ جو بھی دوا بن رہی ہے کیا وہ عالمی ادارہ صحت کے وضع کردہ معیار کے مطابق ہے یا نہیں ۔ یہ ایک طویل فہرست ہے۔لکھنے بیٹھوں تو دو چار کالم ڈریپ کے اختیارات اور دائرہ کار پر لکھے جائیں۔ تو کیا ہم یہ جان سکتے ہیں کہ اس سب کے باوجود عام آدمی کو یہ خطرہ کیوں درپیش ہے کہ مہنگے برانڈ کی دوا نہ خریدی تو وہ سستی تو مل جائے گی لیکن ناقص ہو گی۔اگر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اپنا کام نہیں کر پا رہی تو اس کا تاوان غریب قوم کیوں ادا کرے؟ڈریپ ایکٹ کی دفعہ 9 کے تحت ایک پالیسی بورڈقائم کیا گیا ہے۔اس میں وفاقی سیکرٹری اور وزات قانون کے گریڈ بیس کے افسر سمیت ہر صوبے کے متعلقہ محکمے کا سیکرٹری موجود ہوتا ہے۔اختیارات بھی بے پناہ ہیں۔ اس نے پالیسی کے رہنما اصول وضع کرنے ہوتے ہیں۔یہ علاقی اور عالمی رجحانات کو دیکھ کر پالیسی وضع کرتا ہے اور اس پر عمل درآمد کی مانیٹرنگ کا اختیار بھی اسی بورڈ کے پاس ہے۔ کیا ہم یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ اس بورڈ نے آج تک کیا پالیسیاں وضع کیں اور ان پر علمدرآمد کا عالم کیا ہے؟ کیا اس کا عالمی رجحانات اور علاقائی رجحانات کا فہم اتنا ہی ناقص ہے کہ اسے معلوم نہیں جنوبی ایشیاء میں پاکستان اور نیپال کے سوا سارے ممالک فارمولا دوا یعنی جنیرک میڈیسن پر جا چکے ہیں۔معلوم ہے تو اس نے اس ضمن میں کیا پالیسی وضع کی ہے؟ ڈریپ ایکٹ کے شیڈول 2 اور شیڈول 3میں ناقص ، جعلی اور خراب ادویات کی تیاری اور فروخت کے لیے سخت سزائیں موجود ہیں۔ یہ فہرست بھی اتنی طویل ہے کہ ایک شیڈول کی شرح میں نصف درجن کالم لکھے جا سکتے ہیں۔ سوال مگر بڑا مختصر ہے۔سوال یہ ہے کہ ان شیڈولز کے ہوتے ہوئے لوگوں کو یہ خوف کیوں ہے کہ برانڈڈ دوا نہ خریدی تو وہ ناقص ہو گی۔ یہ ناقص ادویات مارکیٹ میں ہیں تو کیوں ہیں اور اگر نہیں ہیں تو صارف کو اس کا یقین کیوں نہیں کہ مارکیٹ میں موجود ہر دوا چونکہ ڈریپ کی سکروٹنی سے گزر چکی ہے اس لیے وہ ناقص اور جعلی نہیں ہے۔ شیڈول پانچ میں انسپکٹرز کے اختیارات موجود ہیں۔ غیر معمولی اختیارات۔ میڈیکل سٹور والا پڑھ لے تو غش کھا کر گر جائے۔میڈیکل سٹور والوں کے لیے تویہ شمشیر بے نیام ہیں ہی ، مینوفیکچرز بھی ان کے نام سے کانپتے ہیں۔اس کے باوجود اگر جعلی اور ناقص ادویات کا خوف لوگوں کو مہنگے داموں برانڈڈ ادویات خریدنے پر مجبور کر دیتا ہے تو پھر اس سوال کا پیدا ہونا تو فطری امر ہے کہ یہ انسپکٹرز کیا صرف اپنی اور افسران کی چائے پانی اکٹھی کرنے پر مامور ہیں یا ازرہ مروت کبھی وہ کام بھی کر لیتے ہیں جس کے لیے انہیں بھرتی کیا گیا ، تنخواہیں دی جا رہی ہیں اور پنشن بھی دی جائے گی اور دی جاتی رہے گی۔ ڈریپ ایکٹ ہی کی دفعہ 11 کے تحت ایک کوالٹی کنٹرول بورڈ بھی موجود ہے۔لیکن مارکیٹ میں کوالٹی موجود نہیں ہے۔ جو دوا باہر سے منگوائی جائے وہ تو اثر کرتی ہے۔مقامی دوا کا کوئی اعتبار نہیں۔ کیا کوالٹی کنٹرول بورڈ صرف تنخواہیں ، مراعات ، ٹی اے ڈی اے لینے اور طویل اور لا یعنی بحثوں کیلئے بنایا گیا ہے یا اس نے ڈھنگ کا کوئی کام بھی کرنا ہوتا ہے؟ کرنا ہوتا ہے تو نتائج کہاں ہیں؟ کوالٹی کہاں ہے؟ لوگوں کو نظر کیوں نہیں آ رہی؟صرف1986 کے ڈرگ لیبلنگ اینڈ پیکنگ رولز پڑھ لیے جائیں تو بندہ حیران ہوتا ہے کہ قانون کیا کہہ رہا ہے اور ادویات کس طرح بیچی جا رہی ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ قانون نے صرف ادویات کی تیاری ، اس کے اجزاء ، اس کے معیار وغیرہ ہی کو موضوع نہیں بنایا ، قانون نے جنیرنگ ناموں سے لے کر پیکنگ تک کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ Drugs ( generic names ) Act کیساتھ ساتھ ڈرگ امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ رولز اور ڈرگز لیبلنگ اینڈ پیکنگ رولز تک موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان پر عمل کتنا ہو رہا ہے اور نہیں ہو رہا تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟کتنی بے بسی ہے؟ عوام مہنگے برانڈز کی دوائیں خریدنے پر تیار ہیں کہ باقی ادویات نے تو اثر نہیں کرنا۔ کیسی شکست خوردگی ہے کہ خلق خدا سوال بھی نہیں اٹھاتی کہ ایسا کیوں ہے۔