تین چار ہفتے پہلے ’’ذرائع‘‘ نے خبر دی کہ فیصلہ ہو گیا ہے۔ ڈالر جون ختم ہونے سے پہلے 160روپے کا کر دیا جائے گا۔ اس خبرکا انہی الفاظ میں کہ فیصلہ کر لیا گیا ہے‘ اس کالم میں بھی ذکر کیا گیا۔ پھر وہی ہوا بلکہ بڑھ کر ہوا کہ ڈالر کی چھلانگ 164پر جا کر رکی۔ مطلب یہ کہ جو بھی ہو رہا ہے‘ طے شدہ منصوبوں اور فیصلوں کے تحت ہو رہا ہے۔ ہفتہ بھر پہلے ایک محب وطن ٹی وی اینکر نے اطلاع دی ہے کہ ڈالر 185پر جائے گا۔ کچھ حضرات اس سے بھی آگے کی خبر لا رہے ہیں۔اب ان احباب کو جن میں سے اکثر اپوزیشن کے ہیں اور کچھ حکومت کے حامی بھی ہیں‘ اپنی اس رائے پر نظرثانی کر لینی چاہیے کہ حکومت نالائق ہے اور اس نے اپنی نالائقی سے ملک اور معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ فیصلے بتا رہے ہیں کہ حکومت ذرا بھی نالائق نہیں۔ وہ طے شدہ اہداف کے مطابق چل رہی ہے۔ سپیڈ البتہ زیادہ ہو گئی ہے۔50اوور میں جتنے رن بنانے کا اسے کہا گیا ہے وہ دس اوور میں بنانے پر تلی ہے۔ امپائر اس کیساتھ ہے اور ’’ہمیں کسی کا ڈر نہیں‘‘ والا معاملہ ہے۔ثبوت ان باتوں کا یہ بھی ہے کہ حکومتی حلقوں میں کوئی بے سکونی‘ کوئی پریشانی نہیں ہے بلکہ ایک غیر معمولی اطمینان ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت کو لانے والے ’’کاتبان تقدیر‘‘ بھی پریشان ہیں کہ ہم کن لوگوں کو لے آئے حالانکہ ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی۔ ایسا خیال رکھنے والوں کی بصارت اور بصیرت میں کوئی مسئلہ ضرور ہے۔ ٭٭٭٭٭ بجلی اب تک مہنگی ہو گئی اور گیس کتنی؟ کل ہی بجلی کے نرخ ڈیڑھ روپیہ کے حساب سے بڑھائے گئے اور گیس کے 190فیصد۔ باقی جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ہدف مڈل کلاس کا خاتمہ ہے اور یہ کوئی نیا ہدف نہیں ہے۔ یہ ہدف 2000ء کی دہائی میں پرویز مشرف کے دور میں طے ہوا تھا اور بڑی حد تک اس پر عمل بھی ہوا تھا۔ اقتصادی ماہرین کے تجزیے آن دی ریکارڈ ہیں کہ امیر اور غریب کا فرق بڑھایا جا رہا ہے‘ غریب سے چھین کر امیر کو دیا جا رہا ہے۔بیچ میں منتخب حکمرانی کے دس برسوں نے کچھ کھنڈت ڈالی۔اب پھر یہ سلسلہ بحال ہوا ہے تو’’ضائع ہونے والے وقت‘‘ کی کسر نکالی جا رہی ہے۔ سکندر مرزا سے شروع ہونے والا عہد زریں ایوب یحییٰ اور مشرف سے ہوتا ہوا یہاں پہنچاہے۔ سچ یہ ہے کہ یہ چاروں حضرات چار چونیاں تھے‘ خاں صاحب خوبی قسمت سے اکیلے ہی پورا روپیہ ہیں۔ ٭٭٭٭٭ پی ٹی آئی کے ایک رہنما کسی چینل پر اپنے رہنما کی تقلید میں کہہ رہے تھے صرف ایک فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ بائیس لاکھ لوگ بائیس کروڑ کو کھلاتے پلاتے رہیں ع ہم الٹے بات الٹی یار الٹا یہ بائیس کروڑ ہیں جن کی جیب کاٹ کر پیٹ پر لات مار کر بائیس لاکھ کی تجوریاں بھری جا رہی ہیں۔99فیصد آبادی پر یہ الزام کہ وہ ٹیکس نہیں دیتے۔ بھیڑ کو الزام دینے والے شیر کی یاد دلاتا ہے۔ طاقتور اشرافیہ مڈل کلاس کو خط غربت سے نیچے لڑھکانے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ ’’استحکام‘‘ کا ایک طریقہ یہ بھی ہے اوپر اشرافیہ‘ نیچے مفلس اور غلام اکثریت ۔ بیچ رہے نہ کوئے۔سنا ہے‘ ہر مہینے نئے نئے ٹیکس لگتے رہیں گے ٭٭٭٭٭ شیخ رشید نے فرمایا ہے‘ نواز شریف کو اداروں سے لڑنے کی سزا ملی۔شیخ جی منصف نہیں لیکن’’بھیدی ‘‘ ہیں۔ مریم نواز صاحبہ کو ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے ’’فیصلہ‘‘ سنا دیا ہے یہ کہ نواز شریف کرپشن کے الزام سے صاف بری ہیں۔ ٭٭٭٭٭ سردار مینگل کو حکومت نے منا لیا۔ ان کے 15ارب روپے مالیت کے مطالبات زر منظور کر لئے۔ اپوزیشن اسے ہارس ٹریڈنگ نہیں کہہ سکتی۔ اس لئے کہ یہ ہارس ٹریڈنگ ہے ہی نہیں‘ یہ تو مینگل ٹریڈنگ ہے۔ ٭٭٭٭٭ حکومت اور ایف بی آئی کی ٹیکس چھینو مہم جو جلد ہی دیوار پھلانگ‘ دروازہ توڑ آپریشن بننے والی ہے‘ کے حوالے سے کسی نے جامع پیغام فاورڈ کیا ہے۔ اداروں کو بھی ملا ہو گا‘ مجھے بھی ۔لکھا ہے‘ حکومت یورپیوںکی شرح سے ٹیکس لے رہی ہے‘ خود سعودی شہزادوں کی طرح حکمرانی کر رہی ہے‘ عوام کو سہولیات یوگنڈا کے مساوی دے رہی ہے۔آخری پوائنٹ غلط ہے‘ یوگنڈا کے لوگ ہم سے کم از کم دس درجہ بہتر سہولیات لے رہے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ نندی پور کیس میں دو میں سے ایک ملزم صاف بری‘ دوسرا پکڑا گیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ثابت ہو گیا‘ تحریک انصاف میں آئو، ورنہ جیل جائو۔بہتر تھا بلاول پرویز اشرف کو سمجھاتے۔ وہ پی ٹی آئی میں شامل ہو جاتے تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ادھر نیب کے افسروں کی مراعات اور الائونسز میں تین سو فیصد اضافے کی خبر ہے۔ آسان الفاظ میں جس کی تنخواہ چھ لاکھ ہے ‘ اٹھارہ لاکھ ہو جائے گی۔ مطلب یہ کہ جولائی سے نیب کی حسن کارکردگی دیکھنے کے لائق ہو گی۔ ایسی کہ نظر نہیں ٹھہرے گی۔ کیا پتہ اپوزیشن کی گلی اے پی سی بھی نیب کی حوالات میں ہو۔ ٭٭٭٭٭ وفاقی وزیرفہمیدہ مرزا نے خاں صاحب کو مشورہ دیا ہے کہ وہ صرف احتساب‘ احتساب اور احتساب کریں۔ آپ ایوان میں خطاب فرما رہی تھیں۔ مطلب اور کچھ نہ کریں۔لیکن اور کچھ وہ کر ہی کہاں رہے ہیں کہ محترمہ کو یہ مشورہ دینے کی ضرورت ہوئی۔ شاید یاد دہانی برائے خبرداری والا معاملہ ہے۔ ہاں سندھ کی ایک محترمہ ہیں‘ نام یاد نہیں آ رہا‘ بہت فہم رکھتی ہیں اور سرکار کے 90کروڑروپے کے قرضے ہڑپ فرمانے کی سعادت بھی حاصل کر چکی ہیں۔ کوئی انہیں تسلی دیدے انہیں کچھ نہیں ہو گا۔ بس قومی مفاد میں حکومت کی اتحادی بنی رہیں۔ ستے خیراں ہیں۔