ابو جہل جس کا اصل نام عمرو تھا‘ قریش کا نامور جرنیل‘ بااثر قبیلے کاسردار اور بہادر جنگ جو خیال کیا جاتا تھا‘ جنگ بدر میں دو نو عمر بچوں معاذ اور معوذ کے ہاتھوں مارا گیا‘ زخمی ابوجہل کی جب گردن کاٹی جانے لگی تو جان ابھی باقی تھی، وہ ہوش میں بھی تھا‘ گردن کاٹنے کے لیے جب اس کی چھاتی پر پائوں رکھا، تو اس نے چلا کر کہا‘ میری گردن کو نیچے سے کاٹنا میری لمبی گردن سب کو نظر آئے کہ یہ سردار کی گردن ہے‘ وہ تھا تو کافر جہنم واصل ہوا‘ عمرو نام تھا قریش اسے ابو جہل کے نام سے پکارتے، یعنی جاہلوں کا باپ‘ رسالت مآبؐ نے ابو جہل کے نام سے پکارا اور ابو جہل ہوگیا‘ قیامت کے دن بھی ابوجہل کے نام سے جہنم میں پھینک دیا جائے گا‘ کافر تھا‘ بچوں کے ہاتھوں مارا گیا‘ اپنی بہادری ثابت کر سکا نہ ہی ماہر جنگ جو دکھائی دیا۔ لیکن متکبر سردار نے اپنا بانکپن مرتے دم برقرار رکھا‘ زندگی کی بھیک نہیں مانی‘ بس لمبی گردن کا نام تھا کہ پتہ تو چلے سردار کی گردن ہے۔ مرنے کے لیے بھی کوئی باعزت موت چاہیے ہوتی ہے۔ آج پھر کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے‘ دیکھئے کون پورا اترے اور کون بھیک مانگتا حسرت کی موت مرے۔ (ا) نوازشریف پاکستان واپس آنے والے نہیں‘ وہ عدالت کی طرف سے تاحیات نااہل قرار پائے ہیں‘ اگر وہ پانی کی طرح اپنی دولت بہائیں تو زیادہ سے زیادہ اپنی سزائیں ختم کروا سکتے ہیں‘ نااہلی نہیں‘ حکومت کا اعلیٰ ترین منصب ان کے لیے خالی نہیں۔ الف۔ عمران خاں اس قدر مقبول اور طاقت ور ہو چکے ہیں، انہیں سیاست کے میدان میں شکست نہیں دی جا سکتی۔ نوازشریف کو گھر کے اندر بھی مسابقت کا سامنا ہے۔ شہبازشریف بھائی کا احترام کرتے ہیں لیکن وہ خود کو اس منصب کے لیے زیادہ موزوں خیال کرتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ بھائی جان اپنی بیٹی کو جانشین بنانا چاہتے ہیں۔ شہبازشریف بھائی کی خواہش پر خود اپنی اور اپنے بیٹوں کی سیاست قربان نہیں کرسکتے۔ خاندان کے اندر کی سیاست بجائے خود بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان سے باہر بیٹھ کر یہ رکاوٹ نہیں ہٹائی جا سکتی۔ بالفرض نجی مسائل حل کرلیں تو بھی عمران خاں کے مقابلے میں میدان میں اترنا، ان کے بس میں نہیں‘ فرق اتنا زیادہ ہے کہ ساری دنیا کی اسٹبلشمنٹ مل کر کوشش کرے تو بھی اس خلیج کو باپ نہیں سکتی۔ رہ گئی یہ بات کہ عمران خاں کی ٹرم گزرنے تک انتظار کیا جائے‘ اقتدار میں آ کر شاید وہ اتنا مقبول نہ رہے جتنا کہ ہے پھر قسمت آزمائی کی جا سکتی ہے مگر اپنی گزرتی عمر اور صحت کو کس طرح سنبھالا جائے گا۔ عمران خاں ایک مدت اقتدار گزرنے تک نہ موجودہ عدلیہ ہوگی‘ اسٹیبلشمنٹ نہ ووٹر تو نوازشریف کس کے پاس جائیں گے۔ ووٹ کس سے مانگیں گے؟ الیکشن کے امیدوار کہاں پائیں گے‘ موجودہ صحت اور نااہلی کے ساتھ آئندہ پانچ برس میں سب کچھ نیا ہوگا۔ سیاستدان بھی نئے حریف بھی نئے‘ سیاسی پروگرام بھی نئے‘ عالمی منظر بھی! کیا ہماری اسٹیبلشمنٹ اتنی نادان ہے کہ گلی‘ سڑی‘ بدبودار لاش کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ کرلے گی جس کے جی اٹھنے کے لیے قیامت کا انتظار ہے۔ (ب) اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ مسلم لیگ نواز نامی کوئی سیاسی جماعت پانچ برس بعد بھی موجود ہوگی تو بھی اس مسلم لیگ میں قیادت کے لیے مقابلہ مریم نواز اور شہبازشریف کے درمیان رہے گا۔ نوازشریف اکھاڑے کے باہر کھڑے ہو کر تماشہ ہی دیکھ سکتے ہیں، بیٹی کو دائو پیچ بھی نہیں سکھا سکتے کہ آخر کو دکھاوے کی ہی مگر وضعداری بھی کوئی چیز ہے۔ اگر مستقبل قریب میں برپا سیاسی معرکے میں مسلم لیگ حصہ لینے کا فیصلہ کرتی ہے تو امیدوار کہاں سے آئیں گے؟ جو الیکشن کے لیے امیدوار دستیاب ہوں گے، ان کے لیے ٹکٹ شہبازشریف جاری کریں گے نہ کہ مریم یا نواز‘ چنانچہ آئندہ کے لیے بچ رہنے والی ٹانگہ پارٹی کا کوچوان شہبازشریف ہوگا نہ کہ کوئی اور۔ (ج) پیپلزپارٹی‘ پاکستان کی مختصر تاریخ میں‘ پیپلزپارٹی کے حصے میں دو صفحات ہیں‘ ایک ذوالفقار علی بھٹو اور دوسرا صفحہ بے نظیر کے لیے مخصوص ہے۔ تیسرا ورق زوال اور خاتمے کا ہے۔ جس کا عنوان ہوگا ’’آصف علی زرداری‘‘ کہنے کو آصف زرداری سب پر بھاری لیکن پیپلزپارٹی کا مستقبل ولی خان کی اے این پی سے زیادہ نہیں۔ سندھ کے دو ایک اضلاع میں چند قومی اور صوبائی حلقوں تک دوچار وڈیرے انہیں بھی برسراقتدار اگر اشارہ کرے تو اڑ کر اس کی منڈھیر پر جا بیٹھیں گے۔ پیپلزپارٹی گڑھی خدا بخش کی کسی بوسیدہ قبر میں روز قیامت کا انتظار کرے گی‘ پھر سے جی اٹھنا روز حساب پر ہوگا‘ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی اگلی ملاقات وہیں پر متوقع ہے‘ دنیا میں تو عمران خاں یا اس کی پارٹی انہیں جینے نہیں دے گی۔ (د) اسٹیبلشمنٹ! سیاست کی دنیا کے تین فریق ہیں۔ ایک حکمران سیاسی پارٹی‘ دوسرا حزب مخالف‘ تیسرا اسٹیبلشمنٹ۔ اسٹیبلشمنٹ ریاست کی ترجمان ہے نہ عوام کی نمائندہ بلکہ یہ حکومت اور ریاست کے ملازمین پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان کی ذمہ داریوں کے قواعد‘ اصول اور قوانین باقاعدہ لکھ دیئے گئے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ تین بڑے اداروں پر مشتمل ہے۔ افواج پاکستان اور معاون ادارے‘ شہری انتظامیہ اور عدلیہ‘ تینوں اداروں کے مجموعے کو ہم اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ابتداء میں اسٹیبلشمنٹ کی قیادت سول سروس کے ہاتھ میں رہی۔ دس برس کے بعد افواج پاکستان کے ایک جزو یعنی بری فوج نے سول سروس کو پیچھے دھکیل کر قیادت پر قبضہ کرلیا۔ تب ایوب خان بری فوج کے سربراہ تھے۔ آہستہ آہستہ سول سروس کو پس منظر میں دھکیل دیا گیا‘ اب اس کا کردار محض احکامات بجا لانے والے معاون کا ہے۔ عدلیہ اب بھی بری فوج کے بعد دوسرا طاقت ور گروہ ہے اور مقتدر اسٹیبلشمنٹ کو کبھی کبھی ان کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے لیکن یہ صرف ان دنوں میں ہوتا ہے جب اسٹیبلشمنٹ کے سربراہ کو کسی ٹکر کے سیاسی رہنما کا سامنا کرنا پڑ جائے۔ پاکستان میں قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سے بری فوج کی اعلیٰ قیادت نے قومی سلامتی اور شہریوں کی حفاظت کی آئینی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ حق حکمرانی بھی اپنے نام کرلیا ہے۔ 1958ء سے آج 2023ء تک بلاواسطہ حکمران رہی ہیں۔ کبھی بالواسطہ اپنی کٹھ پتلیوں کے ذریعے یہ فریضہ انجام دیتی رہی ہیں۔ کچھ عرصہ سے عمران خاں نامی نیا عنصر سیاست میں داخل ہوگیا ہے‘ اس نے تحریک انصاف کے نام سے اپنی سیاسی تحریک کا آغاز کیا۔ ایوب خان پہلا فوجی حکمران اس کی کوکھ سے ذوالفقار علی بھٹو پیدا ہوئے اور تیسرے فوجی حکمران ضیاء الحق کے حجرے میں میاں نوازشریف نے جنم لیا۔ اس دن سے آج تک ایوب خان‘ ضیاء الحق کی فوجی جانشین اور ان کے لے پالک سیاسی بالکے پاکستان پر حکمرانی کرتے آ رہے ہیں‘ کبھی کبھی ان میں ذاتی مفادات کی تقسیم پر تو تکار ہو جاتی ہے لیکن مجموعی طور پر 65 برس سے حکمران بنے بیٹھے ہیں۔ چھ طویل دہائیوں کے بعد عمران خاں کی تحریک انصاف نے انہیں چیلنج کیا ہے۔ 65 برس کی نورا کشتی سے انہوں نیعوام کو دھوکہ دے رکھا تھا‘ بظاہر حریف بن کر ایک دوسرے مقابل کھڑے رہتے‘ جب ایک جونک عوام کا خون چوس کر پھول جاتی تو اسے قوم کے زخم سے الگ کر کے دوسری بھوکی جونک کو زخم پر چمٹا کر خون چوسنے کا موقع دیا جاتا۔ تینوں نے اندر سے ایکا کر رکھا تھا اور کھیل کے میدان میں رونق برقرار رکھنے کے لیے بظاہر حریف بنے یٹھے تھے‘ نئے کھلاڑی نے چیلنج کیا تو ان کے ہاتھ پائوں پھولنے لگے ہیں‘ تینوں نے ایکا کر کے بیک وقت نئے کھلاڑی پر حملہ کردیا ہے لیکن خستہ حال پرانے کھلاڑی مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر پا رہے‘ وہ اکیلا میدان میں 80 فیصد سے زیادہ تماشائیوں کی داد سمیٹ رہا ہے۔ شروع میں عدلیہ میں آئے ریفری (ایمپائر) کو اپنے ساتھ ملا کر پہلا رائونڈ جیت لیا لیکن تماشائی بھانپ گئے تھے‘ انہوں نے شور ڈال دیا‘ آوازے کسے‘ ہوٹنگ شروع کی‘ ریفری کو بددیانتی پر برا بھلا کہا‘ ریفری ہوشیار ہوگیا‘ اپنی عزت بچانے کے لیے اس نے جانبداری اختیار کرنے سے انکار کردیا‘ اس انکار کے بعد تباہ حال تگڑم نے اپنا رخ کھلاڑی حریف کی بجائے امپائر کی طرف موڑ دیا ہے اسے برا بھلا کہا جارہا ہے‘ گالیاں دی جاتی ہیں‘ دھمکایا جاتا ہے اور کبھی لالچ سے بہلانے کی کوشش ہورہی ہے مگر امپائر ہموار نہیں ہورہا۔ اب امپائر (ریفری) کو مجبور کیا جارہا ہے کہ مقابلہ جاری رکھنے کی بجائے وہ کھیل کے قواعد کی خلاف ورزی کے الزام میں مقابلہ کرنے سے بجائے مقابلے میں ہارنے کی ذلت سے قواعد اور کھیل کے اصول سے انحراف کی پاداش میں سزا انہیں کم ذلت آمیز لگتی ہے‘ ان کا سارا زور ریفری کے ہاتھوں کھیل سے باہر جانے پر ہے۔ سب سے قابل رحم حالت بزعم خود بڑے کھلاڑی اسٹیبلشممنٹ کی ہے‘ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کرے تو کرے کیا‘ سیاستدان سستانے لگیں گے یا بھاگ جائیں گے مگر ’’ان کا کیا بنے گا۔‘‘