یکم جولائی 2020ء دم صبح ارض کشمیر پر قابض بھارتی فوج کی درندگی اور بربریت کاایک اور دلدوز واقعہ پیش آیاکہ جب ایک کمسن بچے کی آنکھوں کے سامنے اسکے نانا کونہایت وحشیانہ اوربہیمانہ طریقے سے شہید کردیاگیا۔ نانا کی خون آغشہ لاش پر بیٹھے روتے بلکتے معصوم عیاد کایہ خونچاںنقش اوریہ تصویرکبھی بھلائی نہیں جا سکے گی۔بلاشبہ ناناکی لاش پر بیٹھا یہ کشمیری بچہ عالمی ضمیرپرماتم کناں تھا۔اس تصویر نے تمام باضمیر کے دل دہلا دیئے ،مغموم بنا دیا، رلایااور ہلا کر رکھ دیا ۔اپنے شہید ناناکے سینے پر ہچکیاں لئے چہرے پر آنسوئوں کا سیلاب بہاتا، کانپتا لرزتا ننھا عیاد پوچھ رہاتھا کہ میرے نانا کا قصور آخرتھاکیا۔اے دنیاوالوںتف ہوتم پر! کیا اس سے بھی بڑھ کر بربریت کا عملی مظاہرہ کوئی ہو سکتا ہے۔یہ تصویر چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ دنیاکی مجرمانہ خاموشی کے باعث کشمیر میں زندگی ختم ہو چکی ہے اوربھارتی فوجی درندوں کے سامنے ہرکشمیری مسلمان بس اپنی باری کا منتظر ہے۔ 65 سالہ بزرگ بشیر احمدکی خون میں لت پت پڑی ہوئی لاش پر بیٹھا معصوم عیاد57 مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کی بزدلی پرماتم کررہاتھا۔بے بسی کی تصویر بنا ہوا یہ بچہ بزبان حال سوال کررہاتھاکہ میں اس دین کا پیروکار ہوںجس کے ماننے والے ڈیڑھ ارب سے زائد ہیں مگرمیری مصیبت کودیکھ کربھی تمہارے منہ مقفل کیوں ہیںاورتمہارے ڈیڑھ ارب دلوں میں ارتعاش کیوں نہیں پیداہوتا۔کیاتم بھی اپنے حکمرانوں ہی کی طرح بزدل ، ڈرپوک اورمنافق ہو ۔ قاتل بھارتی فوج اسلامیان کشمیر کے سینوں پر جی بھر کے گھائو لگارہی ہے۔ ارض کشمیر پر سفاک اس کی کی دہشت کے خونچاں نقوش کس طرح دلوں سے مٹ پائینگے ، سفاکیت کے ہر واقعے میں بھارتی فوج اپنی وحشت و بربریت کی تاریخ میںنہتے کشمیری مسلمانوںکے لہو سے ہرروز ایک نیاباب رقم کرتی چلی جارہی ہے۔یہ ستم گر، ستم ڈھانے ہرقریہ اورہرانسانی بستی میں ایسے پھیل جاتے ہیں جیسے خونخواردرندوں کاکوئی جھنڈہو،بے رحم فوجی درندے آتش و دہن کی بارش برساکرجسد کشمیر کوتازہ زخم دے جاتے ہیں تو قبل ازیں لگے تمام گھائو یکبارگی کے ساتھ کھل جاتے ہیں، ہرے ہو جاتے ہیں،ان سے تازہ لہوٹپکنے لگتاہے، ظلم وبربریت کا شکار رفتگان کے خوں آلودہ چہروں کے البم سامنے آجاتے ہیں، ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں ، اشکوں کے موتی رل رہے ہیں ، کشمیر کا پیرو جوان ،مردوخواتین تڑپتے ہوئے انگاروں پہ لوٹ جاتے ہیں۔یکم جولائی 2020ء بدھ کو ننھے عیاد جہانگیرنے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے نانا کو ریاستی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتے دیکھا۔ اس کے لوح ذہن پرانسانیت کولرزہ براندام کرنے والایہ سانحہ ایسے منقش ہواکہ کبھی مٹ نہیں سکتا۔ اس کالابدی نتیجہ یہ نکلے گاکہ عیادبڑاہوکراپنے ناناکے خون کاحساب توچکائے گا۔عیاد نے خون کے آنسوں سے حرماں نصیب کشمیری مسلمانوںکے دکھوں کا ترجماں نوحہ لکھ دیاجس نے اسے دیکھااو رپڑھااس کاکلیجہ منہ کوآیااوروہ اپنے آنسوں پرضبط نہ رکھ سکا۔سوال یہ ہے کہ تین سالہ عیادکے سامنے اسکے نانا کے بہیمانہ قتل نے دنیاکے ضمیر کوجوکہنی ماری کیاکشمیرکے حوالے سے وہ اسے جگانے کے باعث بن سکتی ہے؟ 30برس ہوئے کہ اسلامیان کشمیرسفاک بھارتی فوج کی بربریت کالگاتار نشانہ بنتے چلے آ رہے ہیں۔آزادی کے مطالبے کی پاداش میں ملت اسلامیہ کشمیرزنجیروتعزیر،صلیب وسلاسل اورطوق وقفس کے دشت کی سیاحی ان کی جان نہیں چھوڑ رہی۔اس سفرمیںان کاپوراوجود اضمحلال واختلال میں ہے لیکن انکی پیشانیاں ان کے ایک زندہ قوم ہونے کی تصویر پیش کررہی ہے۔گزشتہ تین عشروںکے دوران بھارتی بربریت میں پسے جانے والی اس انسانی آبادی کے لئے کوئی نویدافزاکلی نہیںکھل سکی اورنہ کسی مسرت آمیزغنچے نے ابھی تک اپنے لبوں پرتبسم بکھیرے ۔حتیٰ کہ کوئی ایک آدھ نشاط انگیزاورفرحت بخش جھونکابھی کسی دریچے سے ہویدانہیں ہورہا۔ایسے کسی ناصر و مددگار جو انہیں بھارت کے چنگل سے نجات دلادے کے انتظار میں اسلامیان کشمیر کی آنکھیں پتھرا گئیں، دہائیاں دے دے کران کے گلے رل چکے ہیں۔ مگرقسمت رت بدلنے کے لئے انگڑائی نہیں لے رہی۔افسوس پون صدی کاایک لمبااورطویل عرصہ بیت گیالیکن کوئی اقوام متحدہ اورکوئی اوآئی سی انہیں باد بہاری کااحساس تک نہ دلوا سکا اورنہ ہی ان کے غم وحزن کوکم کرواسکا ۔سچ یہ ہے کہ طوفانوں اور طغیانیوںنے کشمیری مسلمانوں کاسب کچھ چھین لیا ہے اورانہیںایک لق ودق صحرا میں ٹنڈ منڈدرختوں کی مانندچھوڑدیاہے۔ گولیاں چلنے کی تڑتڑاہٹ ،بارود پھٹنے کی سماعت شکن آوازوںاوراسکے تعفن زدہ دھوئیں میں لپٹے ہوئے لہو لہو کشمیر میں گل لالہ کے حسن اور بہار کی شادابیوں کے تذکروں کے بجائے خاک و خون میں تڑپتے کشمیری مسلمانوں کی بس آہ و فغاں اور دلدوز چیخیں سنائی دے رہی ہے۔ اسلامیان کشمیر جہاں پوری دنیاکی طرح آج کورونا کی اذیتیں سہ رہے ہیں وہیں انہیں بھارتی فوج کے آزارمسلسل کابدستور سامنا ہے اوریکے بعد دیگرے انکے نحیف ونزار وجود پر چرخے لگائے جارہے ہیں اوروہ انتہائی تلخ اور جانگسل صورتحال کامقابلہ کر رہے ہیں۔سفاک بھارتی فوج کاخونی عفریت ہرسڑک اورہرگلی پر منہ پھاڑے چنگھاڑ رہاہے اور کشمیری مسلمان کی جان لینے کی تاک میں ہے۔ تین سالہ نواسہ ناناکی لاش سے نیچے اتر کرہاتھ میں پتھراٹھاتاہے اورپاس ہی موجود ایک درندے مسلح فوجی اہلکارکی طرف لپک جاتاہے تاکہ نانان کے قتل پر اسے پتھرمارے ۔تین سالہ عیادکاہاتھ میں پتھراٹھاکر اہلکارکی طرف لپک جانااس امرپردال ہے کہ اسی اہلکارنے عیادکے نانا ابو پر گولیوں کی بوچھاڑکرکے اسے شہیدکردیا۔ماڈل ٹائون سوپور میں پیش آئے اد دلدوزواقعے پرمودی کے زرخرید میڈیانے بڑی کوشش کی کہ معاملہ مشکوک بن جائے اور یہ باورکرلیاجائے کہ واقعہ دوطرفہ فائرنگ کے دوران پیش آیااورمعلوم نہیں کہ کس کی گولی نے عیاد کے سامنے اس کے نانانے جان لی لیکن بشیراحمد خان شہیدکے بیٹے نے صاف صاف بتادیاکہ قابض بھارتی فوج سی پی آرایف کے اہلکاروںنے مجاہدین کے ہاتھوں اپنے چارساتھیوں کے ہلاک کئے جانے کابدلہ انکے نانا سے لیاجوایک عام شہری تھا ۔اس کاکہناتھاکہ اسکے والدکو اپنی گاڑی سے نیچے اتار کرگولیاں مار کر شہیدکردیاگیا۔جبکہ تین سالہ عیادکی جوتازہ ویڈیوسوشل میڈیاپروائرل ہوئی اس میں وہ عینی گواہ کے طورپرننھے لہجے میںکہہ رہاہے کہ ’’ پولیس والے نے ٹھک ٹھک ٹھاک کرکے بڑے ابوکوماردیا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیااس کے بعدبھی بھارتی فوج اپنی درندگی پرپردہ ڈال سکے گی۔