سیاسی موضوعات پر مسلسل لکھتے ہوئے یہ خیال آیا کہ کچھ ہٹ کر بھی لکھا جائے۔ ایک اخبارنویس دوست اور لکھاری اقبال خورشید نے فیس بک پر اپنے پسندیدہ ناولوں کی ایک فہرست مرتب کی اور پڑھنے والوں کو مدعو کیا کہ وہ بھی اپنے پسندیدہ ناول بتائیں۔ کچھ وقت میسر تھا، اسی وقت اپنے پسندیدہ ناولوں کی ایک فہرست بنائی اور پھر فیس بک وال پر پوسٹ لگا دی۔ بعد میں کئی نام یاد آئے ، کمنٹس میں بعض دوستوں نے سوالات اٹھائے، بعض ادیبوں کے بارے میں پوچھا کہ انہیں شامل کیوں نہیں کیا گیا؟ان کے جواب دیتے ہوئے خیال آیا کہ اس بحث کو صرف سوشل میڈیا تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ سیاست کی دلدل میں گردن گردن ڈوبے قارئین کو کھینچ کر کچھ وقت کے لئے ناولوں کی دنیا میں لے جایا جائے۔ اپنے پسندیدہ لکھاریوں اور ناولوں کی فہرست شیئرکر رہا ہوں، پڑھنے سے پہلے دو باتیں سمجھ لی جائیں کہ یہ ذاتی پسند ناپسند کے حوالے سے بنائی گئی ہے۔خاکسار کی زندگی پر انہوں نے گہرے اثرات ڈالے ہیں، اس لئے ہماری فیورٹ لسٹ میںجگہ پائی۔ دوسرا یہ کہ ناولوں کی فہرست ہے، افسانوں یا افسانوی مجموعوں کی نہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ناول زیادہ بڑے تناظر ، زیادہ گہرائی سے لکھی جانے والی صنف ہے۔ بقول شخصے پورا جنگل کاٹنے والا معاملہ ہے۔ افسانہ کے معاملے میں جنگل کے ایک گوشے میں چند درخت کاٹ ، جگہ صاف کرنے سے بھی کام چل جائے گا۔ افسانے کی بے توقیر ی مقصود نہیں، صرف ناول کی فضیلت بیان کی ۔تیسرا یہ کہ عالمی ادب کا میرا مطالعہ بہت محدود ہے، جب فرصت تھی تب ہمارے چھوٹے شہر میں کوئی رہنمائی کرنے والا نہیں تھا، بیشتر وقت رسالوں، ڈائجسٹوں میں ضائع ہوگیا۔ اب کچھ اندازہ ہوا کہ کن کو پڑھنا چاہیے تووافر وقت دستیاب نہیں۔ انگریزی ناول پڑھنے کی زیادہ سپیڈ نہیں بن سکی، صحافتی مجبوریوں کے باعث انگریزی اخبار، جرائد، ریسرچ رپورٹس، نان فکشن بکس وغیرہ تو پڑھنی پڑتی ہیں ۔ فکشن کے لئے یا اردو تراجم پر انحصار ہے یا اب کوشش ہوتی ہے کہ مشہور ناولوں پر بنی فلمیں دیکھ لی جائیں۔ ترجمہ میں ظاہر ہے اصل کتاب سے بہت کم منتقل ہوپائے گا،خیال یہی آتا ہے کہ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ہمارے تارڑ صاحب کئی ناول نگاروں کی تازہ تخلیقات کا تذکرہ اپنے کالموں میں کرتے رہتے ہیں، میرے جیسے دل مسوس کر رہ جاتے ہیں۔ کاش کچھ وقت ملے تو انہیں پڑھا جا سکے۔ میری فہرست میں سب سے پہلے آل ٹائم گریٹ ناول آتے ہیں، وہ جنہیں تاریخ انسانی کے سب سے بڑے ناول نگاروں نے تحریر کیا۔ لیو ٹالسٹائی کا ’’وار اینڈ پیس ‘‘اور دوستئوفسکی کا برادرز کرامازوف ۔ ٹالسٹائی کا ناول جنگ اور امن ایک سمندر ہے، اسے سمجھنا اور پڑھنا آسان نہیں، جس نے کچھ وقت لگا کر پڑھ ڈالا، پھر آسانی سے کوئی دوسری کتاب اسے جچ نہیں پائے گی۔ اردو زبان کی خوش قسمتی ہے کہ شاہد حمید مرحوم نے بڑا وقت لگا کر نہایت عرق ریزی سے ان دونوں ناولو ں کو اردو میں منتقل کیا۔ ٹالسٹائی کاجنگ اور امن پہلے تخلیقات پبلشرز نے شائع کیا تھا، آج کل یہ آئوٹ آف پرنٹ ہے۔ شاہد حمیدصاحب اس کے حقوق ریڈنگز ، لاہور کو دے گئے، وہ دنیا سے رخصت ہوگئے، مگر ابھی تک یہ ناول شائع نہیں ہوا۔شاہد حمید کے تراجم میں اتنے مفصل اور دلچسپ، معلومات حواشی ہیں کہ ان کے علاوہ پڑھنے کا مزا نہیں آ سکے گا۔’’ کرامازوف برادران‘‘ کمال کا ناول ہے۔ دوستئوفسکی کا اپنا ایک خاص انداز ہے، انسانی نفسیات ان سے بہتر کم ہی کسی نے بیان کی، ان کی کردار نگاری حیران کن ہے ۔ ٹالسٹائی کا ایک اور بہت مشہور ناول ’’اینا کارینینا‘‘ ہے۔یہ بھی اردو میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ دوسئوفسکی کا دوسرا بڑا ناول کرائم اینڈ پنشمنٹ ظ انصاری نے’’ جرم اور سزا‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا اور حق ادا کر دیا۔ اشفاق احمد مرحوم دوستئوفسکی کے بڑے قدردان تھے،کہتے تھے دوستئوفسکی کاایک اور ناول’’ ایڈیٹ ‘‘انہوں نے زندگی میں تین چار بار پڑھا اور ہر بار الگ سا لطف آیا۔ اس فہرست یا اس سے قریب کی فہرست میں کئی اورمشہور ناول آتے ہیں۔ میکسم گورکی کا ’’ماں‘‘، ایک زمانے میںترقی پسندوں کی بائبل تھا۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے اس کا ترجمہ کر رکھا ہے۔اور لوگوں نے بھی کئے۔فلابئیر کا مادام بواری بھی بہت سے ناقدین کے نزدیک اس فہرست میں آتا ہے۔یہ دونوں اردو میں ترجمہ ہوچکے ہیں۔ میلول کا ’’موبی ڈک‘‘ ناول مجھے بہت پسند رہا ہے۔ محمد حسن عسکری نے اس کا ترجمہ کیا۔ سفید وھیل موبی ڈک جس کے شکار پر پورے ناول کی بنت رکھی گئی۔فرانسیسی ناول نگار البیرکامیو کا’’ زوال‘‘ کم ضخامت کا ناول ہے، اسے ہمت کر کے پڑھ لینا چاہیے، وجودیت پسند مصنفین کا اپنا ہی ذائقہ ہے۔ محمد عمر میمن نے اس کا ترجمہ کیا تھا، شائد ڈاکٹر انیس ناگی نے بھی اس کا ترجمہ کیا ہو۔ ناگی صاحب نے سارتر اور کامیو پر خاصا کام کیا ۔ جیسا کہ شروع میں بتایا کہ عالمی ادب سے بہت بعد میں متعارف ہوا۔لاطینی امریکہ کے نوبیل انعام یافتہ مشہور ترین ناول نگار گارشیا مارکیز سے کراچی کے کتابی سلسلہ آج نے بھرپور تعارف کرایا۔ اجمل کمال اس کے مدیر ہیں، انہوں نے ایک شاندار گارشیا مارکیز نمبر نکال رکھا ہے، اسے کتابی صورت میں بھی شائع کیا جا چکا ۔ اس میں مارکیز کے افسانوں کے علاوہ ان کا ایک نہایت دلچسپ ناول ’’ایک پیش گفتہ موت کی روداد ‘‘کا ترجمہ شامل کیا گیا۔ یہ مارکیز کے ناول Chronicle of a Death Foretoldکا ترجمہ ہے، اس کے مترجم معروف شاعر افضال احمد سید ہیں۔ گارشیا مارکیز کا سب سے مشہور اور ممتاز ناول ’’تنہائی کے سو سال‘‘ One Hundread Years of Solitude ہے۔اس کے اردو تراجم ایک سے زائد ہوئے، جو میں نے پڑھا، وہ ڈاکٹر نعیم کلاسرا(مرحوم) کا ہے، ڈاکٹر نعیم ہمارے دوست رئوف کلاسرا کے بڑے بھائی ہیں۔ غالباً فکشن ہائوس لاہور نے اسے شائع کیا۔مارکیز ہی کا ایک اور اہم ناول’’ وبا کے دنوں میں محبت‘‘ Love in the Time of Choleraہے۔اس کا اردو ترجمہ ارشد وحیدنے کیا، اکادمی ادبیات نے اسے شائع کیا ہے۔ لاطینی امریکہ کے ایک اور جادوگر حوزے (یاجوزے)ساراماگوکا ایک ہی ناول پڑھا، ارود کے نامور شاعر احمد مشتاق نے اس کا ترجمہ اندھے لوگ کے نام سے کیا۔ اس ناول کو پڑھنا ایک حیران کن تجربہ ہے، قاری زندگی بھر اسے بھلا نہیں سکتا۔ حوزے ساراماگو کے دوسرے ناولوں کو پڑھنے کی حسرت ہے۔ پائلو کوہلیو کا تعلق بھی لاطینی امریکہ سے ہے، ان کا ناول الکیمسٹ بہت مشہور ہوا، اس کے بے شمار تراجم ہوئے، کروڑوں کاپیاں فروخت ہوئیں، اردو میں بھی تین چار ترجمے ہوئے۔ پائولو کوہلیو کا ایک خاص انداز ہے ، جسے سنجیدہ نقاد کمرشل کہہ کر زیادہ پسند نہیں کرتے، ان کے کئی اور ناول بھی بیسٹ سیلر رہے ہیں۔ ماریو پوزو کا ناول گاڈ فادر میرے کالج کے زمانے کی محبت ہے۔ پہلا ناول تھا جسے پیپربیک میں خرید کر انگریزی میں پڑھا۔ دو تین بار پڑھ چکا، اس پر بنی فلم کئی بار دیکھی۔ آج کل تو ویسے پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد گاڈ فادر پاکستان میں بھی بہت مقبول ہے۔اس کا ایک ترجمہ رئوف کلاسرا نے بھی کر رکھا ہے، دوست پبلی کیشنز ، اسلام آباد نے اسے چھاپا۔میلان کنڈیرا جدید ناول نگاروں میں بہت اہم اور ممتاز ہے۔ اس کے دو تین ناول اردو میں ترجمے ہوچکے ہیں، انہیں پڑھنے کیلئے البتہ خاص ٹیسٹ ڈویلپ کرنا پڑتا ہے، کنڈیرا نے ناول کی ہیئت میں بڑے اہم تجربات کئے ہیں، انہیں پڑھنا ضرور چاہیے۔ پچھلے چند برسوں سے ترک ادیبوں نے مجھے اپنے سحر میں گرفتار کر رکھا ہے۔ ان میں سرفہرست نوبیل انعام یافتہ اورحان پاموک ہے۔ ان کاناول مائی نیم از ریڈخاصے کی چیز ہے۔ فرخ سہیل گوئندی نے پاکستان میں ترک ادیبوںکو متعارف کرانے کا عز م کر رکھا ہے، انکے ادارے جمہوری پبلی کیشنز نے اسکا ترجمہ(سرخ میرا نام) شائع کیا۔مترجم ہیں ہماانور۔اورحان پاموک ہی کا ناول سنو بھی مشہور ہے، ان کے دیگر ناول بھی اپنی مثال آپ ہیں۔یشار کمال کے نام سے ہم مستنصر حسین تارڑ کے کالموں کے ذریعے متعارف ہوئے۔ جمہوری پبلی کیشنز نے یشار کے دو ناولوں کے تراجم شائع کئے ہیں۔ اس کرد ناول نگار کو پڑھنا بھی ایک اچھوتا تجربہ ہے۔ ایلف شفق جدید ترکی کی اہم اور مقبول مصنفہ ہیں۔ ان کا ناول فورٹی رولز آف لو (عشق کے چالیس اصول )بڑا مشہور ہوا ۔ مجھے ذاتی طور پر یہ ناول کچھ اوور ریٹیڈ لگا، البتہ ایلف شفق کے فن میں کوئی شبہ نہیں۔ ان کا ناول ناموس اہم اور قابل مطالعہ ہے۔ ہمارے خطے میں بعض بھارتی ادیبوں نے بڑانام کمایا ہے۔ اروندھتی رائے ان میں سب سے ممتاز ہیں۔ ان کے پہلے ناول گاڈ آف سمال تھنگز کو’’ مین بکرز پرائز‘‘ ملا۔ اس کا ترجمہ پروین ملک نے’’ سسکتے لوگ ‘‘کے نام سے کیا۔ یہ شاندار ناول ہے۔ اروندھتی رائے نے اس ناول کے بعد اپنے جرات اظہار، انقلابی تحریروں اور حق گوئی سے بہت نام کمایا، ابھی کچھ عرصہ پہلے ان کے دوسرے ناول نے بھی ادبی دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ(شادمان کی مملکت کے نام سے) آج نے اپنے خاص نمبر میں کیا،یہ کتابی صورت میں بھی شائع ہوچکا ہے۔ ارجمندآرا نے اسے اردو میں منتقل کیااور اہم بات یہ ہے کہ اروندھتی رائے نے یہ ترجمہ خود سن کر اس کی منظوری دی۔ کالم کی گنجائش ختم ہوگئی،اردو ناولوں کا تذکرہ رہ گیا، اس پر اگلی نشست میں ان شااللہ بات کریں گے۔