وفاقی حکومت نے نیب آرڈیننس میں ترامیم کا مسودہ تیار کر لیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق نئی ترامیم میں چیئرمین نیب کے اختیارات محدود کرنے، وزرائ، اراکین پارلیمنٹ اور بیوروکریسی کو نیب کی کارروائیوں سے محفوظ رکھنا شامل ہے۔ مجوزہ ترامیم کے تحت نیب 90 دن کے بجائے ملزموں کو 14 روز تک تحویل میں رکھ سکے گا۔ نیب انکوائری کو چھ ماہ کے عرصہ میں مکمل کرنا لازم ہو گا۔ سرکاری افسروں کے خلاف انکوائری سکروٹنی کمیٹی کی منظوری سے مشروط ہو گی۔ اس کمیٹی میں بیوروکریٹ شامل ہوں گے۔ یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ نیب عوامی عہدہ رکھنے والے شخص، اثاثے ظاہر یا بے نامی رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کا مجاز نہ ہو گا۔ ریفرنس دائر کرنے سے قبل کسی طرح کے بیان پر پابندی ہو گی جبکہ صدر کے اختیارات حکومت کو منتقل کرنے کی تجویز بھی ترامیم کا حصہ ہے۔ نیب کا ادارہ ابتدا میں ایسے احتساب کے لئے تشکیل دیا گیا جس کا مقصد اپوزیشن کو دبائو میں رکھنا تھا۔ میاں نواز شریف کے پہلے اور دوسرے ادوار حکومت میں سیاسی مخالفین پر جو مقدمات بنائے گئے وہ ابھی تک نیب تحقیقات کی فائل میں موجود ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کا ایک جواز ملک میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی بتایا تھا۔ اس بدعنوانی کو روکنے کے لئے انہوں نے پولیس، ایف آئی اے اور سی آئی اے سٹاف کی بجائے قومی احتساب بیورو کی تشکیل نو کرکے نظام ترتیب دیا۔ آغاز میں اس ادارے نے قابل قدر کردار ادا کیا۔ بہت سے مقدمات اس دور میں بنائے گئے مگر جنرل پرویز مشرف جوں جوں سیاسی مصلحتوں کا شکار ہوتے گئے نیب کے چیئرمین کی حیثیت سے کام کرنے والی شخصیات نے اپنے کام کی ترجیحات اسی طرح تبدیل کرنا شروع کر دیں۔ چیئرمین نیب کی تقرری کا معاملہ سب سے پہلے پیپلز پارٹی کے دور میں دونوں بڑی جماعتوں نے باہمی مشاورت سے طے کیا۔ فیصلہ ہوا کہ وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن باہمی مشاورت سے چیئرمین کا تقرر کریں گے۔ اس مشاورت کے نتیجے میں جسٹس (ر) دیدار حسین، ایڈمرل فصیح بخاری، قمر الزماں چودھری اور پھر 2017ء میں موجودہ چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کا تقرر ہوا۔ نیب پر اعلیٰ عدلیہ، پارلیمنٹ اور بیوروکریسی شدید تنقید کرتی رہی ہے۔ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس(ر) جواد ایس خواجہ نیب کی پلی بارگین پالیسی کو ہدف تنقید بناتے رہے۔ وہ پلی بارگین کو ادارہ جاتی بدعنوانی کا نام دیتے۔ نیب اس ضابطے کے تحت ملزمان کو گرفتار کرتا اور پھر عدالت کے باہر لین دین کے معاملات طے کر لیئے جاتے۔ ملزم اپنے جرم کا اعتراف کرتا اور نیب کی طرف سے متعین کردہ رقم کی شرح ادا کرکے باقی ہضم کر لیتا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے عدالتی سماعت کے دوران یہاں تک کہہ دیا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ نیب کے بعض افسران ملزمان کو حراست سے قبل آگاہ کر دیتے ہیں تاکہ وہ مناسب وقت پر فرار ہو سکیں۔ دوسری طرف نیب حکام کا کہنا ہے کہ وہ اب تک 240 ارب روپے سیاستدانوں، بیوروکریٹس، سابق فوجی افسران اور وائٹ کالر جرائم میں ملوث دیگر افراد سے برآمد کر چکے ہیں۔ سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف نے نیب کو سیاسی انتقام کے لئے استعمال کیا۔ موخرالذکر کے عہد میں پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کا قیام نیب کے دبائو کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ نیب نے احد چیمہ اور فواد حسن فواد جیسے بیوروکریٹس کے خلاف کارروائی شروع کر رکھی ہے۔ موجودہ حکومت نئے مقدمات بنانے سے زیادہ پہلے سے موجود مقدمات کا جلد فیصلہ ہونے میں دلچسپی رکھتی ہے تاکہ ان مقدمات کو الگ کیا جا سکے جن میں ثبوت ناکافی ہیں۔ تحریک انصاف نے عوام سے بے رحم احتساب کا وعدہ کر رکھا ہے لیکن جن بااثر حلقوں سے لوگ وائٹ کالر کرائمز میں ملوث ہیں وہ نیب کے قانون، طریقہ کار اور اختیارات کے معاملات کو متنازع بنا کر حسب منشا ترامیم کے خواہاں ہیں۔ نیب کو داخلی طور پر کئی طرح کے چیلنجز درپیش ہیں۔ عدالتی عمل میں سست روی، قانونی چارہ جوئی کے قابل قبول ثبوت کی تلاش اور عملے کی تفتیشی صلاحیت میں اضافہ ان مسائل میں شامل ہیں۔ چیئرمین نیب تفتیش کا سربراہ ہے۔ چیئرمین کی تقرری چار برس کے لئے کی جاتی ہے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بطور چیئرمین حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی روایات کو بڑھاوا دیا ہے۔ اپنی ترجیحات کا ذکر وہ مختلف مواقع پر کی جانے والی تقاریر میں کرتے رہتے ہیں۔ نیب سے متعلق ترامیم میں تجویز ہے کہ ملزم کو 90 روز حراست میں رکھ کر چالان پیش کرنے کی بجائے پہلے اس کے خلاف ثبوت اکٹھے کئے جائیں اور پھر 14 روز کا ریمانڈ دیا جائے۔ تاہم اس ضمن میں یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہئے کہ یہ معمول کے ملزم نہیں ہوتے اور نہ ان کے خلاف ثبوت جمع کرنا آسان ہوتے ہیں۔ حمزہ شہباز کی طرح اگر کوئی ملزم نیب تفتیش کے لئے پیش ہونے سے انکار کر دے تو پھر اسے کس طرح قابو کیا جائے، ترامیم میں اس بات کو اہمیت ملنی چاہئے۔ حکومت پہلے ہی تاجر برادری کے دبائو پر ان کے خلاف شکایت کا جائزہ لینے کے لئے خصوصی کمیٹی بنا چکی ہے اب بیوروکریٹس کے لئے الگ خصوصی کمیٹی بنا کر گویا احتساب کے عمل پر سمجھوتے کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ پراسیکیوشن کے شعبے کو زیادہ موثر اور ذمہ دار بنانے کی ضرورت ہے۔ 90 روز کی حراستی مدت تبدیل کرنے کی بجائے بہتر ہو کہ کمزور تفتیش کرنے پر متعلقہ تفتیشی عملے کے خلاف کارروائی کی جائے۔ پاکستان کا سماج جس بڑے پیمانے پر بدعنوانی میں مبتلا ہے اسے احتساب کی ضرورت ہے، اس احتساب کو بہرحال متوازن اور شفاف رکھنابھی ضروری ہے تاکہ ملک کا سیاسی و معاشی استحکام برقرار رہے۔