پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں اور ان کے ہمنوا دل کی گہرائیوں سے چاہتے ہیں کہ قومی احتساب بیورو کا بوریا بستر گول کردیا جائے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری متعدد بار ’’نیب‘‘ کو تالا لگا دینے کا مطالبہ کرچکے ہیں اور یہی مانگ نون لیگ کے سورمائوں کی ہے۔ ان جماعتوں کی آواز میں آواز ملانے والوں میں میڈیا کا ایک حصہ، مختلف سماجی و انسانی حقوق کی دعویدار تنظیموں اور اشرافیہ کے تعلیمی اداروں سے منسلک لبرل عناصر کا چھوٹا سا گروہ، صوبائی سطح کی جماعتیں اور بعض مذہبی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ لیکن نیب حقیقتاً مسئلہ صرف نون لیگ اور پیپلزپارٹی کا ہے جن کی اعلیٰ قیادت سنگین بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے احتساب کی زد میں ہے۔ لیکن اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے کہ حالیہ دنوں میں نیب مخالف آوازوں میں کچھ توانائی خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کی ضمانتوں کے متعلق سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے سے آئی ہے جس میں معزز عدالت نے کہا کہ احتساب قوانین سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال ہوتے آئے ہیں۔ یقینا اس فیصلے سے جہاں نیب چیئرمین اور ان کے ادارے پر اپنی کارکردگی میں بہتری لانے کہ لیے دباو میں اضافہ ہوا ہے وہیں حکومت کے احتساب کے ایجنڈے پر ایک اور سوالیہ نشان کا کھڑا ہوگیا ہے۔نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ خواجہ برادران کے ضمانت کے فیصلے میں معزز سپریم کورٹ نے جو قانونی رہنمائی کی ہے اس پر مکمل عمل کیا جائے گا، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ملزمان کے خلاف شواہد یا گواہوں کی احتساب بیورو کے پاس کوئی کمی ہے۔ لیکن اس بحث سے قطع نظر، دلچسپ بات یہ ہے کہ نیب کے خلاف صرف وہی عناصر نہیں جو بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے نشانے پر ہیں، بلکہ اس ادارے سے تو اب وہ افراد بھی ناراض ہیں جو چاہتے ہیں کہ احتساب کے شکنجے سے کوئی بدعنوان بچ کر جانے نا پائے۔ احتساب کے یہ پرْجوش حامی اس بات پر دکھی ہیںکہ بدعنوان سیاست دانوں کے خلاف میڈیا میں شور مچتا ہے، مقدمہ بھی چلتا ہے، لیکن ان میں سے اکثر سزا سے بچ جاتے ہیں اور بعض تو بیرون ملک بھی جابستے ہیں۔ ان کے بقول نیب کی طرف سے بنائے گئے مقدمات میں جھول اور ناقص تحقیقات و استغاثہ کے وکلا کی خراب کارکردگی بدعنوان عناصر کو شرافت کی سند دینے کا سبب بن رہی ہے۔ نیب پر ہونے والی زہریلی بیانئے کی جنگ میں نون-لیگ اور پیپلزپارٹی، غلط یا صیح، احتساب کے عمل کی شفافیت اور غیرجانبداری مشکوک بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بڑھتی تنقید اور الزام تراشیاں قومی احتساب بیورو کو بند کروانے کی طاقت رکھتی ہیں۔ تحریک انصاف حکومت کے لیے یہ چیز باعث اطمینان ہونی چاہیے کہ نیب کی تمام تر مبینہ کمزوریوں اور متنازعہ طاقت کے باوجود، بدعنوانی سے تنگ پاکستانیوں کی وسیع تعداد چاہے گی کہ یہ ادارہ بھرپور طریقے سے کام کرتا رہے۔ نیب سے مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے اسے بہترین تفتیش اور مقدمات کی تیاری کے لیے وسائل دینے کے ساتھ اس میں سیاسی مداخلت کے تاثر کو زائل کرنا ضروری ہے۔ جی ہاں، نیب میں اصلاحات ضرور ہوں، لیکن سیاسی جماعتوں کے ایما پر ایسی اصلاحات نہیں جن سے یہ ادارہ کمزور ہوجائے اور اس کی خود مختاری پر زک پڑے۔ مطلب یہ اس کے پاس تفتیش اور تحقیقات کے ساتھ ملزموں کی گرفتاری کے اختیارات کا برقرار رہناضروری ہے۔ مفاد پرست عناصر اور ان کے کاسہ لیس رائج الوقت مغربی فیشن کے مطابق تفتیش کے لیے ہونے والی گرفتاریوں کو انسانیت سوز اور انصاف کے اصولوں کے منافی قرار دے رہے ہیں، لیکن پاکستان جیسے ممالک میں بااثر افراد کی گرفتاری حصول انصاف کے لیے پہلا قدم ہے کیونکہ یہ سیاسی ملزمان کو تفتیشی عمل، شواہد، گواہان پر اثرورسوخ استعمال کرنے کی راہ میںروکاوٹ بنتی ہے۔ ورنہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ طاقتور ملزمان بدعنوانی کے مقدمات کو طوالت دے کر نظام انصاف کو باآسانی جْل دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ دوران مقدمات تفتیشی افسر کا قتل ہوجانا، کسی کا تبادلہ اور کسی کی ریٹائرمنٹ معمول ہے۔ حتی کہ اسی مملکت خداداد پاکستان میں طاقتور سیاست دانوں نے جج کو بھی قتل کروایا ہے اور اہم مقدمات کا مکمل ریکارڈ بھی غائب کروا دینے میں کامیاب ہوئے ہیں جس نظام انصاف میں ’’بڑے وکلا‘‘ قتل کے ملزمان کو بھی صاف نکال لے جاتے ہیں وہاں ’’وائٹ کالر کرائم‘‘ یا نام نہاد شرفا کے ہاتھوں ہونے والی بدعنوانی کو ثابت کرنا ناممکن نہیں تو بہت کٹھن ضرور ہے جس کے لیے خصوصی اختیارات ضروری ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ قومی احتساب بیورو کو ماضی میں آزادنہ کام نہیں کرنے دیا گیا اور اسے مختلف حکمرانوں نے اپنے حق میں استعمال کیا۔نیب کے خالق سابق صدر جنرل پرویز مشرف ہی نے اس منفی عمل کا آغاز کیا اور جاتے جاتے وہ بدعنوانی کے سنگین الزامات میں ملوث سیاست دانوں کونیشنل ری کنسیلیشن آرڈیننس یا این آراو کے ذریعے نئی سیاسی زندگی بھی بخش گئے۔ ان کے بعد آنے والی دونوںجمہوری حکومتوں نے نہ صرف نیب میں اْن اصلاحات سے گریز کیا جن کے لیے وہ آج مطالبہ کررہی ہیں بلکہ اسے غیرموثر اورغیر فعال بنانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے ملک میں بدعنوانی کے خلاف جنگ کو نقصان پہنچا اور بہت سے بڑے ملزمان، جن میں اکثریت سیاستدانوں کی تھی، احتساب سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آتے ہی نیب کے بجٹ کو 950 ملین سے گھٹا کر 50 ملین روپے کردیا۔ مقصد یہی تھا کہ نہ گاڑی میں تیل ہو اور نہ وہ چلے۔ اْس زمانے میں نیب کے لیے وکلا کو فیس دینا تو درکنار، گاڑیوں میں پیڑول ڈلوانے کے پیسے نہ ہوتے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور پیپلزپارٹی کے دیگر قائدین کی خواہش یہی تھی کہ احتساب بیورو پر تالا لگ جائے، لیکن بنا آئینی ترمیم کے یہ ممکن نہ تھا۔ اس لیے پہلے جسٹس دیدار شاہ کو ’’اپنا بندہ‘‘ سمجھ کر چیئرمین نیب تعینات کیا گیا، لیکن اعلی عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑی کیونکہ یہ تقرری قوائد و ضوابط کے مطابق نہ تھی۔ اس کے بعد صدر آصف زرداری ریٹائرڈ ایڈمرل فصیح بخاری کو بطور چیئرمین نیب لائے لیکن وہ جلد ہی بعض بدعنوانی کے مقدمات کو بند کرنے کی وجہ سے متنازعہ بن گئے اور بل آخر سپریم کورٹ کی مداخلت پر سبکدوش ہوئے۔ 2013ء میں نون لیگ کا بھی اقتدار میں آنے کے بعد یہی چلن رہا۔ قمرزمان چوہدری نے بطور نیب چیئرمین اپنے چار سالہ دور میں اہم ترین بدعنوانی کے مقدمات پر آنکھیں بند کیے رکھیں اور بعض مقدمات کو ملزمان کے حق میں نمٹانے میں بھی کردار ادا کیا، جس میں حدیبیہ پیپرز ملز کیس سرفہرست ہے۔ موجودہ حکومت کے لیے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ نیب میں سیاسی مداخلت اور یک طرفہ احتساب کے تاثر کو دور کرے اور نیب کو تفتیش، تحقیق اور مقدمات کی تیاری کے لیے زیادہ سے زیادہ وسائل دے۔ حزب اختلاف کتنا ہی شور کیوں نہ مچائے نیب کو اس وقت تک تالا نہیں لگایا جاسکتا جب تک اس ملک کو لوٹنے والے آزاد ہیں۔