سرکارِ دو عالم خاتم النبین صل اللہ علیہ و آل وسلم کو رحمت للعالمین کا خطاب مالک کائنات نے اپنی مقدس کتاب قرآن پاک میں عطا کیا ہے۔ یہ رب کریم کی وہ عطا ہے کہ حضور صل اللہ علیہ وآل وسلم کا ہر امتی اس پر فخر کرنے میں حق بجانب ہے۔ قرآن پاک میں حضور اکرم صل اللہ علیہ و آل وسلم کی شان بار بار بیان ہوئی۔ آپکے احترام، آپکی عزّت، آپ کے آرام، آپ کے طرز زندگی، بود و باش، معاشرت غرضیکہ ہر پہلو کو قرآن نے اجاگر کیا ہے۔ اور پھر جگہ جگہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض نبوت اور اْنکی شان اقدس کو مزید واضح کرنے کے لیے کبھی سورۃ بقرہ میں یوں ذکر فرمایا کہ ’’ میرا محبوب مسلمانوں کو کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور اْنکے دلوں کو ہر گرد و غبار سے پاک کرتا ہے’’ اور کبھی سورۃ توبہ میں یوں فرماتا ہے کہ ‘‘ یعنی میرے محبوب رسول پر ہر وہ چیز جو تمہیں مشقت میں ڈالے بڑی گراں گزرتی ہے۔ وہ تمہاری بھلائی پر بڑے حریص ہیں۔ مسلمانوں پر بڑے مشفق اور رحم فرمانے والے ہیں’’ اور پھر سورۃ الجمعہ میں یوں فرمایا کہ ‘‘ وہی اللہ جس نے مبعوث فرمایا اْمیّوں میں سے ایک رسول، انہیں میں سے جو پڑھکر سناتا ہے اسکی آیتیں اور پاک کرتا ہے انکے دلوں کو اور سکھاتا ہے انہیں کتاب اور حکمت کہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے’’ اور پھر سورۃ الاحزاب میں فرمان خداوندی ہے ‘‘ بے شک تمہاری راہنمائی کے لیے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔ ’’نبی مکرم صل اللہ علیہ و آل وسلم کی رحمت و برکت کو کسی خاص زمانہ اور کسی خاص وقت کے لیے محدود نہ کیا جا سکتا ہے بلکہ یہ وہ بحرِ بیکراں ہے جو صدیوں سے پوری آب و تاب اور روانی سے رواں دواں ہے۔ اس آفتاب و ماہتاب کی دل نشین، دلآویز کرنیں اہل ایمان کے چہروں اور دلوں کو تا ابد منوّر کرتی رہیں گی۔ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآل وسلم کاظہورِ عرب کے فسق و فجار میں ڈوبے اور اْجڑے دیار میں بہارِ جانفزا کا ایک ایسا پْر کیف جھونکا ہے کہ جسکی خوشبو پورے ماحول کو معطّر کر گئی اور ایک بے کیف و سْرور اور کفر و الحاد میں ڈوبا معاشرہ ایسی کروٹ لیتا ہے کہ عداوت و رقابت کی جگہ اْنس و محبت، انتقام کی جگہ عفو و درگزر اور خود غرضی کی جگہ اخلاص و ایثار نے لے لی۔ اس انقلابِ دل نشین نے سر زمین عرب کی کایا پلٹ دی۔ پھر ہر کوئی آقا کریم صل اللہ علیہ و آل وسلم کے فضل و کمال اور صدق مقال کا معترف نظر آتا ہے۔ جب شانِ مصطفٰی صل اللہ علیہ و آل وسلم اور مقامِ مصطفٰی صل اللہ علیہ و آل وسلم کا تعیّن خود اللہ تعالٰی نے فرما دیا ہے تو کون اس شان اور مقام میں کمی بیشی کر سکتا ہے۔ جب مقامِ مصطفٰی صل اللہ علیہ و آل وسلم اور احترام مصطفٰی صل اللہ علیہ و آل وسلم کی بات ہو تو شفاعت مصطفٰی صل اللہ علیہ و آل وسلم کی بات کیے بغیر بات مکمل نہیں ہو سکتی۔ عقیدہ توحید پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے شفاعتِ مصطفٰی صل اللہ علیہ و آل وسلم ہر مسلمان کے ایمان کا جزو لازم ہے۔ اگر قرآن پاک میں کئی جگہ شفاعت اور گواہی بر میدان حشر ذکر آیا ہے تو کیا وہ شفاعت اور گواہی آقا صل اللہ علیہ و آل وسلم کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی دیگر ہستی یا ہستیوں سے منسوب ہو سکتی ہے۔ یقیناً سارے انبیا کرام علیہم السلام اپنی اپنی امتوں پر گواہی کے لیے موجود ہوں گے۔ تو پھر امام الانبیا صل اللہ علیہ و آل وسلم کی سفارش و شفاعت پر بحث کیوں۔ کیا اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب مکرم صل اللہ علیہ و آل وسلم کو رحمت للعالمین کا خطاب محض الفاظ کی خوبصورتی و چاشنی کے لیے عنایت کیا یا آقا کریم صل اللہ علیہ و آل وسلم بطور رحمت للعالمین نہ صرف اس دنیا بلکہ روز محشر بھی اپنے اس خطاب کی عملی تصویر بن کر نظر آئیں گے۔ نبی اکرم صل اللہ علیہ و آل وسلم کی شان، بلند مقام، رفعت، عظمت اور عزت و توقیر خود اللہ تعالٰی بیان فرما رہے ہیں۔ ایک زمانہ اْنکی عظمت و رفعت کا قائل اور دنیا میں کروڑوں مسلمان اْنکی عزّت و حرمت پر کٹ مرنے کو تیار۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ چشم فلک نے کسی انسان کو روئے زمین پر گذشتہ تقریباً پندرہ سو سال سے اتنی شان اور آن اور عزّت و تکریم سے نہیں دیکھا۔ اتنا احترام، اتنا عشق، اتنی محبت اور اتنی فریفتگی کہ ہر مسلمان آقا کریم صل اللہ علیہ و آل وسلم کی رحمت و برکت اور وسیلہ سے دعائیں مانگتا ہے۔ درود و سلام کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے۔ جو کروڑوں لوگ اپنے لبوں پر سجائے دیوانہ وار پیش کر رہے ہیں۔ کیا یہ سعادت اور یہ خوش بختی کبھی کسی دیگر کے حصّہ میں بھی آئی۔ کون اس سراپا رحمت کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ کوئی بہروپیا، کوئی جعل ساز، کوئی کذّاب اس نبی مکرم صل اللہ علیہ و آل وسلم کے پاؤں کی خاک کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ جس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو اللہ تعالٰی خود مقرر فرمائے اور اس میں کسی ابہام کی کوئی گنجائش بھی نہ چھوڑے وہاں دوسرا کون پہنچ سکتا ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ اللہ تعالٰی نے ہمیں اس رحمت للعالمین صل اللہ علیہ و آل وسلم کی اْمت میں پیدا کیا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا فخر ہی یہی ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں۔ کیا دْنیا کی کوئی بڑی سے بڑی نعمت، کسی قارون کے خزانے اور کسی سلطنت کی فرماں روائی ان دعائے نیم شبی اور ان گریہ ہائے سحر گاہی کا مقابلہ کر سکتی ہیں جو آقا کریم صل اللہ علیہ و آل وسلم نے اس اْمّت کی بخشش و مغفرت کے لیے کیں اور کیا ہم اپنے آقا کریم صل اللہ علیہ و آل وسلم، اْس مرقع دلبری و زیبائی کی نوک مژگاں پر لرزتے ہوئے آنسو اور آپکی دلسوزیوں اور اشکباریوں اور اپنی اْمت کے لیے درد، احساس بلکہ تڑپ کا کوئی حق ادا کر سکتے ہیں کہ ہمارے لیے تو ایسا نبی آخرلزمان، رحمت للعالمین صل اللہ علیہ و آل وسلم کا وجودِ مسعود خدائے بزرگ و برتر کا بے پایاں احسان، کرم، فیض اور رحمت ہے کہ جو کسی بھی دنیاوی منفعت سے بہت بالا، بہت قیمتی، بہت نایاب اور بہت لازوال ہے۔