اسلام آباد ( خبرنگار ) سپریم کورٹ نے توہین رسالت کے مقدمے سزا یافتہ ملزم ثقلین کو سزا پوری ہونے پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ نبی پاک ﷺ کی شان میں کسی قسم کی گستاخی قابل برداشت نہیں۔ دوران سماعت جسٹس قاضی محمد امین نے ریما رکس دیئے کہ کسی عام شخص کیخلاف بھی کسی کو فیس بک پر لکھنے کا حق نہیں،نبی پاک کے بارے میں تو کوئی بات قابل برداشت ہو ہی نہیں سکتی ۔ملزم کے وکیل نے کہاجس اکاونٹ سے پوسٹ ہوئی وہ میرے موکل کا نہیں،میرے موکل کا بھی فیک اکائونٹ بنایا گیا،، ملزم کی قید کی سزا مکمل ہوچکی ہے ،جرمانہ معاف کیا جائے جس پر جسٹس قاضی محمد امین نے کہا پانچ سال ریاست نے کھلایا پلایا، جرمانہ ادا کریں ۔واضح رہے کہ ملزم ثقلین کو 2015 میں فیس بک پر نبی پاکﷺ کے بارے میں متنازعہ پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ملزم کیخلاف فیصل آباد میں مقدمہ قائم کیا گیاملزم کی سزا کو لاہور ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔سپریم کورٹ نے سزا پوری ہونے پر رہائی کے احکامات د یے تاہم جرمانہ معافی کی استدعا مسترد کردی گئی ۔علاوہ ازیں عدالت عظمٰی نے نندی پور پائور پراجیکٹ میں آئل ٹینکر چوری کے ملزم کی درخواست ضمانت پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر تے ہوئے تیل سپلائی کرنے والے ذمہ دا ر ان کے بیانات کا ریکارڈ طلب کر لیا۔ دوران سماعت ملزم کے وکیل نے موقف اپنایا کہ145 آئل ٹینکرز سپلائی کیلئے جارہے تھے لیکن میرے موکل محمد اسلم پر ایک آئل ٹینکر چوری کرنے کا الزام لگایا گیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ آپکا موکل بھی آئل سپلائی کرنے والوں میں شامل تھا۔جسٹس فیصل عرب نے کہا300 ملین روپے سے زائد کا آئل چوری ہوا جس پر وکیل نے ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کی استدعا کی اور موقف اپنایا ابھی تک نیب نے فرد جرم عائد نہیں کی ۔دریں اثنا سپریم کورٹ نے رجسڑار اسلام آ باد ہائیکورٹ کی رپورٹ پر اسلام آباد جوڈیشل سروس رولز کیس نمٹا دیا ہے ۔ سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ رپورٹ کے مطابق 24 فروری کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی صدر اسلام آباد بار اور دیگرذمہ داران سے میٹنگ ہوئی،ایک سیشن جج اور متعدد سول ججز کے خلاف کارروائی ہوئی، رجسٹرار اسلام آباد کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے ججز کی دیگر صوبوں میں تبادلوں سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں،اسلام آباد بار ایسوسی ایشن نے مہلت کی استدعا کی گئی ہے تاہم اس کیس میں مزید و ضا حت کی ضرورت نہیں۔