چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے لاہور کے 25مقامات پر ایل ڈی اے کی اراضی پر قبضہ کیخلاف کیس میں قرار دیا کہ شرم آتی ہے کہ سرکاری زمین کی بندر بانٹ کی گئی جبکہ عدالت عظمیٰ نے پٹرول پمپ مالکان کی چند دن کی مہلت دینے کی استدعا مسترد کر دی۔ جمعرات کے روز سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کے روبرو ایک سینئر صحافی، آئل کمپنی کے نمائندے، پٹرول پمپ مالکان اور دیگر متعلقہ فریق پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لبرٹی اور گارڈن ٹائون جیسے مہنگے علاقوں میں چند ٹکوں کے عوض قبضہ کر رکھا ہے۔ 15ہزار روپے سالانہ پر لیز دی جا رہی ہے۔ اتنی تو پٹرول ڈالنے والے کی تنخواہ بھی نہ ہو گی۔ سینئر صحافی نے کہا کہ میرے چھ پٹرول پمپ ظاہر کر کے عزت کو نقصان پہنچایا گیا، عدالت انصاف دے تو چیف جسٹس نے کہا کہ باتوں کو سیاست کی نذر نہ کریں، آپ اپنا جواب داخل کریں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ریاست اپنی زمین کی حفاظت نہیں کرتی۔ جناب چیف جسٹس کے یہ ریمارکس بالکل بجا اور درست ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ سابق حکومت کے دور میں میڈیا سمیت مختلف طبقوں اور شعبوں سے تعلق رکھنے والے اپنے پسندیدہ اور با اثر افراد کو سرکاری زمین کوڑیوں کے بھائو پٹے پر دی گئی۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ سرکاری سطح پر ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی جائے جو پنجاب کی سابق ن لیگی حکومت کی طرف سے اپنے پسندیدہ افراد کو اونے پونے داموں لیز پر دی جانے والی سرکاری اراضی کے معاملات کی چھان بین کرے اور اس میں ملوث تمام فریقین کے خلاف نہ صرف قانونی کارروائی کی جائے بلکہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق ان سے گزشتہ برسوں کی تمام رقوم وصول کی جائیں۔ مزید براں ایسے تمام قطعات اراضی کی سرکاری سطح پر نیلامی کی جائے اور جو کمپنی یا ادارہ سب سے زیادہ بولی دے لیز اسے دی جائے تا کہ قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کی جاسکے۔