ایک سوال اور بھی ہے‘ نیک کون ہے اور بد کون؟ اس پہ پھر کبھی‘ فی الحال بس اتنی سی گزارش کہ پارسا وہ نہیں‘ جو اپنی پارسائی کا علم لئے پھرتا ہو۔نجابت چیختی کبھی نہیں۔ اس بات پر طالب علم کی حیرت شاید دائم برقرار رہے کہ ہماری غائبانہ حکومت نے جو اب کچھ ایسی غائبانہ بھی نہیں‘ غور نہ کیا کہ سوشل میڈیا کا عفریت قومی عمارت کا سب سے اہم ستون ڈھا دے گا۔انہوں نے اسے لگام دینے اور شائستہ کرنے کی منصوبہ بندی کیوں نہ کی۔کیا ان کا خیال یہ تھا کہ وہ کبھی اس کا شکار نہ ہوں گے۔ آزادی اچھی مگر بے لگام آزادی؟ درجنوں نجی چینلز کی اجازت مرحمت فرمانے والے‘ جنرل پرویز مشرف خود اس کا ہدف ہوئے۔اس بری طرح کہ فضا آلودگی سے بھر گئی۔وکلاء تحریک کے آخری مرحلے میں ایسے اور اس قدر مظاہرے کہ تعفن پھیلنے لگا۔اشتعال کو ہوا دی گئی اور اس قدر کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بے معنی ہو گئے۔ہر وہ شخص اور ادارہ پامال کیا جانے لگا‘ کالے کوٹ کی حاکمیت اور غلبے کو تسلیم کرنے سے جس نے انکار کیا۔پولیس والوں اور اخبار نویسوں پر حملے کئے گئے۔یہ تشویش کی بات تھی پھر وہ ہسپتالوں پر چڑھ دوڑے۔ڈاکٹر حضرات کو زدوکوب کیا ہی‘ انتہا یہ ہے کہ مریضوں کو معاف نہ کیا۔پھیپھڑوںکو زندہ رکھنے کے لئے لگائی گئی ٹونٹیاںتک نوچ کر پھینک دیں۔اس رقصِ ابلیس پہ چونک اٹھنا چاہیے تھا مگر جب ادراک کند ہو جائے۔ سوچنے سمجھنے والے دماغ جب فرار میں آسودگی پائیں۔ ایک عشرہ ہوتا ہے ان دنوں کے دو واقعات یاد آتے ہیں۔ کھوجیوںکی ایک جماعت کے ساتھ ملتان کے علمی سفر کی سعادت نصیب ہوئی۔ راستے کے کئی شہروں میں قیام کیا۔تکان کے باعث فیصل آباد میں ایک شب کا وقفہ کیا۔ سویرے کچھ صنعت کار ‘طلبہ اور اساتذہ ملنے آئے۔ان میں سے ایک نے ایک ممتاز اور محترم شخصیت کے بارے میں کہا کہ آٹھ ارب ڈالر کی متاع اپنے اقتدار کے بل پر انہوں نے سمیٹی ہے۔ پوچھا: پارچہ بافی کے کارخانے کیا اب افواہیں بْناکرتے ہیں؟ پھر خیال آیا کہ کاروبار حکومت سے شاید وہ ایک بے بہرہ آدمی ہے اور مردِ کار سے۔تفصیل کے ساتھ عرض کیا کہ جن صاحب کے بارے میں ایسی المناک بدگمانی کا وہ شکار ہیں‘ ان کا کم و بیش کیا ہے۔ایک ایسا آدمی جو مزدور کی طرح مشقت کرتا ہے۔ اختیار و اقتدار کے باوجود جس نے انتقام کی راہ کبھی اختیار نہ کی۔ وہ قدرے معقول آدمی دکھائی دیئے۔ کج بحثی کی بجائے، ایسے میں جو اکثر شعار ہوتی ہے ‘وہ خاموش ہو گئے۔چہرے پر تفکّر کے آثار دکھائی دیے۔ آئندہ دنوں میں یہ احساس پریشاں کرتا رہا کہ سماج کس سمت میں چل نکلا ہے۔نجابت اور شائستگی جرم ہو گئی۔سب صبر کرنے والے عتاب کا شکار۔قانون کی بالادستی سے محروم معاشرے میں دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے خلق نے بدزبانی کی راہ اگر ڈھونڈ نکالی ہے تو انجام کیا ہو گا؟ انجام اب سامنے ہے۔جنرل سرفراز اور ان کے رفقا کو کیا معلوم نہ تھا کہ موسم خراب ہے؟ مسافر بردار جہاز ‘ ہیلی کاپٹر‘بمبار طیارہ‘کوئی مشین فضا میں بلند نہیں ہوتی‘ جہاز کا عملہ جب تک معلوم نہ کر لے کہ ہوا کی سمت اور رفتار کیا ہے۔جدید طرز زندگی کے تقاضوں نے جن کمالات کو جنم دیا ‘ ان میں سے ایک یہ ہے کہ آنے والی چندگھڑیوں ہی نہیں آئندہ موسموں کے بارے میں بھی تخمینہ لگایا جا سکتا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ امریکی بحریہ نے آئندہ ایک صدی کے نشیب و فراز کا جدول بنا رکھا ہے۔ماہتاب کے طلوع و غروب کے ساتھ پانیوں میں مدّوجز رہوتا ہے۔سفینے کبھی سمندروں میں ڈوب جایا کرتے تھے‘ اب نہیں ڈوبتے‘ لنگر انداز ہو جاتے ہیں۔ جنرل سرفراز نے خطرہ مول لینے کا فیصلہ کیا اور کیوںکیا؟ اس لئے کہ وہ بے رحم پانیوں کے رحم و کرم پر پڑے اللہ کے بندوں کی چارہ گری پہ تلے تھے۔سپاہ کے دلاوروںنے اپنی جانیں جان آفریں کے سپرد کر دیں تو کیا وہ شہید نہ ٹھہریںگے۔ ان سات ہزار جانبازوں کی طرح‘ دہشت گردی کے خلاف جہاد کرتے ہوئے جو جان سے گزر گئے۔جن کے قاتلوں کے باب میں ہمارا لیڈر کہتا ہے کہ وہ ہمارے ناراض بھائی ہیں اور ان سے بات ہو سکتی ہے۔حریف سیاسی رہنماوں سے مگر کسی صورت نہیں ہو سکتی ہے۔مزاروں‘ منڈیوں اور مینا بازاروں میں معصوم شہریوں کے چیتھڑے اڑا دینے والے قابلِ معافی ہیں‘میری شان میں گستاخی کرنیوالے نہیں۔ کوئی اسے ٹوکتا نہیں کہ جواب میں ایک لشکر بروئے کار آئے گا؛دشنام جس کا ہتھیار ہے۔ سفید کو سیاہ کرنے کا جوہنر رکھتا ہے۔اسی ایک پہ کیا موقوف ‘تقریباً اب سبھی لشکر اسی قماش کے ہیں۔ اپنی مرضی سے ایک قوم جنگلوں‘ بیابانوںاور ریگزاروں سے گزرتی دلدلوںکی طرف روانہ ہے۔ ہیجان ایک مرض ہے‘ جو اپنی شدت میں جنون کو جا لیتی ہے۔جنونی اپنی ہی ایک قیمتی زندگی غارت نہیں کرتا گردوپیش کو بھی آلودہ کر دیتا ہے۔اپنی بعض صورتوں میں پاگل پن ایک متعدی مرض ہوتا ہے۔ اب ہم رکتے ہیں بیسویں صدی کے علمی مجدد کی بارگاہ میں داخل ہوتے اور سوال کرتے ہیں:ایک پورے معاشرے کو پاگل پن کیسے آ لیتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے’’ناانصافی‘ جب اسے گوارا کر لیا جائے‘‘ پھر اس کی نگاہ اٹھتی ہے اور وہ پکارتا ہے : کرتی ہے ملوکیت آثار جنوں پیدا ایک ایسا معاشرہ جس میں قانون کی بجائے افراد کی حکمرانی ہو‘ جہاں شخصیات کے بت پوجے جائیں۔ لنگڑاہٹ کا شکار اسپ‘ بدو نے عمرؓ ابن خطاب کو بیچ ڈالا۔آدمی کیسا ہی شاہ دماغ ہو‘ فاروق اعظمؓ ہی کیوں نہ ہو‘ کبھی نہ کبھی غیر حاضر دماغی کا شکار ہو سکتا ہے۔ سواری کاقاعدہ ازل سے یہ ہے کہ برت کر دیکھی جاتی ہے۔وہ چوک گئے اور سوداکر ڈالا۔ معاملہ ثالث کے سپرد ہوا تو فیصلہ اس نے امیر المومنین کے خلاف صادر کیا۔اسی سماج میں ایسی قوت ہو سکتی تھی کہ قحط کے پورے پانچ برس اس نے صبرو قرار کے ساتھ بتا دیے‘ اگرچہ اس میں ان کے ایثار کا دخل بھی بہت تھا، عرف عام میں جنہیں اشرافیہ کہا جاتا ہے۔ ہاں!اشرافیہ کبھی ایسی بھی ہو سکتی ہے‘ کلّی یا جزوی طور پر۔ ہمیشہ جس کے ہر اقدام اور ہر شخصیت سے نفرت کا جواز نہیں ہوتا۔کمزور اور بالادست ہمیشہ رہیں گے۔فقط قانون اور اس کے بل پر بروئے کار آنے والی مساوات ہی خلیج کو کم کرنے میں مدد گار ہو سکتی ہے۔دشنام اور نفرت نہیں۔نفرت پر استوار فلسفے کا حاصل سوشلزم تھا۔مساوات تو وہ عطا نہ کر سکا‘ البتہ قوت کار چھین لی۔مواقع کی فراوانی کو نگل ڈالا۔ لشکروں کا بے محابہ تصادم نہیں‘ کسی کی فتح اور کسی کی شکست نہیں‘ قانون کی حکمرانی ہی سے امن کا آفتاب جگمگاتا ہے۔ خود پسندی نہیں انکساراور ایثار ان کا شیوہ ہوتا ہے۔جذبات کی فراوانی نہیں‘ دانش کی تمازت اور ہوش مندی کی چاندنی درکار ہوتی ہے۔ فاتحین نے نہیں‘ اس دنیا کو جب سنوارا اہل علم نے سنوارا۔ان میں سے ایک نے کہا تھا:زمین کی طرح ہو جاو‘ نیک و بد جس پہ سب چلتے ہیں۔ ایک سوال اور بھی ہے‘ نیک کون ہے اور کون؟ اس پہ پھر کبھی‘ فی الحال بس اتنی سی گزارش کہ پارسا وہ نہیں‘ جو اپنی پارسائی کا علم لئے پھرتا ہو۔نجابت چیختی کبھی نہیں۔