روزانہ یہی ہوتا ہے۔ صبح سویرے اخبار کا مطالعہ پھر نہا دھو کر ناشتہ کرنا اور پھر دفتر کی طرف بھاگنا۔ دوستوں سے ملاقاتیں، صبح اخبار میں پڑھی ہوئی خبروں پر تبادلہ خیال، نیرنگیٔ سیاست دوراںپر تبصرہ، ملکی صورت حال پہ مایوسی کا اظہار، چائے کا کاروبار، باتیں،باتیں اور باتیں……روزانہ یہی ہوتا ہے۔ کبھی کوئی صبح ایسی طلوع نہیں ہوتی جو اپنے دامن میں امید اور خوشیاں لے کر آئے، وہی موت، ہلاکتیں، ٹارگٹ کلنگ، ڈرون حملے، حادثات، سیاست دانوں کے اختلافی بیانات، آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی، غرض کوئی نئی بات نہیں ہوتی۔ ہم یکساں شب و روز میں زندہ ہیں۔ بوریت، اکتاہٹ، بے زاری، جھنجھلاہٹ ہماری شخصیت اور مزاج کا حصہ بن گئی ہیں۔ نہ ہمارے دن نئے ہیں اور نہ راتیں نئی۔ سب کچھ پرانا، بوسیدہ، ازکار رفتہ۔ ایسے میں زندگی کرنے کی امنگ کہاں سے آئے؟ اقبال نے کہا تھا’’یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے، جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے‘‘ مگر ہمارے قلب گرمی سے اور روح تڑپ سے محروم ہیں۔ ہم کمان سے نکلا ہوا وہ تیر ہیں جو اپنی سمت کھو چکا ہے اور فضا میں معلق ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ مجھے نہیں معلوم۔ میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ زندگی حرارت سے عاری ہو گئی ہے، کوئی تمنا کوئی آرزو دل میں باقی نہیں رہی۔ یہ پاکستانیوں کی عمومی کیفیت ہے۔ حالانکہ ہم نے پاکستان اس لیے بنایا تھا کہ ہمیں ذہنی اور قلبی سکون حاصل ہو۔ ہم ہندوئوں کے غلبے کے خوف سے آزاد ہو کے یکسوئی کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ پاکستان بننے کے بعد ہندوئوں کے غلبے کا خوف جاتا رہا لیکن اپنی ہی خواہشات اور ہوس و آز نے ہمیں گرفتار کر لیا۔ ساٹھ پینسٹھ سال سے ہماری کوششوں کا محورو مرکز معیار زندگی کو بلند کرنا رہا ہے۔ معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے چوں کہ جائز ذرائع سے آمدنی محدود ہوتی ہے، لہٰذا ناجائز ذرائع کو اختیار کرنے میں بھی ہمیں تکلف نہ رہا۔ چنانچہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہی کرپشن اور بدعنوانی ہے جس میں پوری قوم چند مستثنیات سے قطع نظر گلے گلے تک ڈوبی ہوئی ہے۔ بانو قدسیہ نے اپنے ناول ’’راجہ گدھ‘‘ میں بتایا ہے کہ رزق حرام افراد معاشرہ کو کیسے کیسے فساد میں مبتلا کرتا ہے۔ جب میں نے یہ ناول پڑھا تھا تو کئی دن تک شدید ڈپریشن کا شکار رہا۔ بانو قدسیہ نے اپنے انٹرویو میں مجھے بتایا تھا کہ معاشرے کا ہر دوسرا لڑکا اور ہر بارہویں لڑکی راجہ گدھ ہے۔ راجہ گدھ رزق حرام کی علامت ہے کیوں کہ وہ مردار کھاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ معاشرے میں راجہ گدھوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ رزق حرام خون میں فساد پیدا کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مایوسی، ڈپریشن، پژمردگی اور کلفت کے احساسات جنم لیتے ہیں۔ پھر ہماری عبادات اور ہماری دعائیں سب رائیگاں جاتی ہیں۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ ہم رزق حرام بھی کھائیں اور خدا کی بارگاہ میں ہماری دعا مقبول بھی ہو۔ خدا سے دوری اور شیطان کی رفاقت اختیار کرنے کی بڑی وجہ رزق حرام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پرکرپٹ اور بدعنوان حکم ران مسلط کر دیئے گئے جو خود بھی رزق حرام کھاتے ہیں اور اپنے عمل سے قوم کو بھی رزق حرام کھانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر ایسے کئی افراد سے واقف ہوں جنہوں نے رزق حرام سے بچنے اور قناعت کی زندگی اختیار کرنے کی کوشش کی اور آج الحمدللہ وہ ایک پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ ہر طرح کی پریشانیوں، الجھنوں اور کلفتوں سے محفوظ و مامون زندگی۔ تو اگر آپ ذہنی آسودگی چاہتے ہیں، قلبی اطمینان اور اولاد کی تعلیم و تربیت کی طرف سے جمع خاطری کے آرزو مند ہیں تو اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ قناعت اختیار کریں۔ حضرت فاطمہؓ نے ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رزق کی تنگی کی شکایت کی اور گھریلو ضرورت کے لیے ایک ملازم کی طلب گار ہوئیں تو نبیﷺ نے اس ضرورت کو پورا کرنے کے بجائے انہیں وہ تسبیحات بتائیں جو ہم ہر نماز عصر کے بعد پڑھتے ہیں۔ یہ تسبیحات آج بھی تسبیحات فاطمہؓ کے نام سے مشہور ہیں۔ اس واقعہ میں سیکھنے اور سمجھنے کا نکتہ یہ ہے کہ رزق اور برکت اللہ کے ذکر سے جڑ جانے سے ہوتی ہے۔ اس لیے کہ رزاق وہی ہے، جس کا رزق چاہے تو کشادہ کر دیتا ہے اور چاہے تو تنگ کر دیتا ہے۔ آج ہم عقل اور خواہشوں کے امیر ہو گئے ہیں۔ ذکر الٰہی کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور اسے روزمرہ کی ضروریات سے مربوط کرنے کے یقین سے عاری ہیں۔ ہماری یہ پراگندہ فکری کی عادت دیمک کی طرح ہماری شخصیت اور ہمارے خیالات کو چاٹ رہی ہے اور ہم محض اس کے ظاہری وجود کو دیکھتے ہیں۔ اصل سبب کی طرف ہماری توجہ نہیں ہے۔ پس ہماری اولین ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ہمیں جو رزق مل رہا ہے وہ پاکیزہ اور طیب رزق ہو۔ جو رزق ہمارے دل میں کھٹک پیدا کرتا ہے۔ جس کی طرف سے ہمارے دل میں شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں، اس رزق سے گریز ہی بہتر ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ برسہابرس تک حرام رزق کھانے سے نیک و بد کی تمیز اٹھ جاتی ہے۔ دل بے حس ہو جاتا ہے اور ایک طرح کی لاپرواہی کا رویہ در آتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مرض اور مریض دونوں بیماری کے آخری مرحلے میں ہیں۔ ایسے لوگوں پر بھی توبہ کا دروازہ بند نہیں ہوتا۔ آدمی کے اندر روشنی کی کوئی نہ کوئی لہر بہر حال موجود ہوتی ہے اور جسے خدا ہدایت دینا چاہے، اسے ہدایت مل کر رہتی ہے اور ہدایت اسے ہی ملتی ہے جس کے اندر اس کی طلب موجود ہو۔ تو اس طلب کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمیں بدعنوان حکم رانوں سے جان چھڑانا ہے تو اس کا ایک راستہ ہے کہ قوم خود رزق حرام سے منہ موڑے۔ جو قوم رزق حرام کھاتی ہے اس پہ رزق حرام کھانے والے حکمران ہی مسلط کر دیئے جاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ اجتماعی بے چینی، بے چینی، انتشار، اموات کی زیادتی اور حادثات کی کثرت کی صورت میں نکلتا ہے۔ آج ہم اس صورت حال کا شکار ہیں۔ ہم اپنی محفلوں اور اپنی گفتگوئوں میں اس صورت حال سے اپنے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہیں لیکن اس صورت حال کے پیدا ہونے کے اصل اسباب کی طرف ہماری توجہ نہیں جاتی۔ ہماری نجات اسی میں ہے کہ ہم رزق حرام سے نفرت اور قناعت و شکرگزاری سے انسیت و محبت کارویہ اپنائیں۔ اس ناصحانہ گفتگو کے لیے میں آپ سے معذرت خواہ ہوں لیکن ہمارے دین میں خیر خواہی کی نصیحت کا حکم دیا گیا ہے۔منکرات و ممنوعات سے بچنے اور بچانے کی نصیحت کا حکم۔ اگر کوئی ایک شخص بھی اس تحریر کو پڑھ کر رزق حرام سے توبہ کر لیتا ہے تو اس تحریر کا مقصد پورا ہوا اور ایک شخص اور گھرانے کی اخروی اور دنیاوی دونوں زندگی سنور گئیں۔