عجب اک معجزہ اس دور میں دیکھا کہ پہلو سے ید بیضا نکلنا تھا مگر کاسہ نکل آیا شعر سے محسوس ہوتا ہے کہ میں کوئی سیاسی کالم لکھنے لگا ہوں۔ نہیں جناب آج میرا دل چاہا کہ کچھ لوبھ ہو جائے۔ یہ شعر کافی مشہور ہوا کہ ید بیضا اور کاسہ میں کیا تلازم ہے۔ آپ اس کو ادبی زبان میں تلمیح کا شعر کہتے ہیں اس وضاحت کا یہ مطلب نہیں کہ میں شاعری پر لیکچر دوں۔ اصل میں ہوا یوں کہ نجیب احمد کا فون آیا کہ کشمیر مشاعرہ ہے تو ظاہر میں کشمیر پر غزل پڑھنے ادبی بیٹھک پہنچا۔ مشاعرہ کے بعد انہوں نے نہایت محبت سے اپنا تازہ شعری مجموعہ گریزاں عنایت کیا۔ ظاہر اتنے اچھے شاعر کے شعری مجموعے کو نظر انداز تو نہیں کیا جا سکتا کہ میں اس پر ایک کالم بھی نہ لکھوں۔ نجیب احمد کی توصیف تو منیر نیازی بھی کر چکے ہیں حالانکہ ان کا تعلق احمد ندیم قاسمی گروپ سے رہا۔ ان کی خالد احمد کے ساتھ جوڑی مشہور ہوئی جیسے امجد اسلام امجد اور عطاء الحق قاسمی کی تھی ان کا شعری مجموعہ ملال آیا تو اس کی بہت پذیرائی ہوئی۔ میںگریزاں کو پڑھتے ہوئے کئی مقام پر ٹھہرا اور شعروں کا مزہ لیا ایک جگہ تو میں چونک گیا: تونے مشکیزہ بھر لیا تو نجیب تیرا ہل کرم چلا دیں گے اس مجموعہ کا دیباچہ طرحدار شاعر اور نقاد حسنین سحر نے لکھا ہے جو یقینا خاصے کی چیز ہے، ویسے تو بحیثیت شاعر میں سمجھتا ہوں کہ شعر کو تنقید کی حاجت نہیں ہوتی کہ شعر خود آپ سے بات کرتا اور آپ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بہرحال یہ ایک روایت ہے جسے نبھایا جا رہا ہے سحر نے نجیب احمد کے فکر و فن کے توازن پر لکھا ہے میںسمجھتا ہوں کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یعنی شعری تجربہ وسیع ہونے پر شاعر میں شعور کی سطح بلند ہونے لگتی ہے اور بالیدگی نظر آنے لگتی ہے عفوان شباب میں جذبوں کا زور ہوتا خون میں انتشار ہوتا ہے اور بندے کے پائوں زمین پر نہیں ٹکتے وہ محبوب کی ادائوں پر قربان ہوتا ہے اور لامحالہ محبت اس پر غالب ہوتی ہے۔ جب تجربہ آتا ہے تو اس جذبے کی جگہ ٹھہرائو اور قناعت آ جاتی ہے ایک بات طے ہے کہ جوانی کا منہ زور بیان کچھ اپنا ہی مزہ رکھتا ہے بڑی عمر میں اپنے اردگرد کے لوگ بھی نظر آنے لگتے ہیں اب اس کا اظہار شاعر کیونکر نہیں کرے گا: نبھانا پڑ گئی ہے رسم دنیا سو اب ہم خامشی سے جی رہے ہیں نجیب احمد ہم سے سینئر ہیں اور انہیں دور بھی ہم زیادہ اچھا ملا کہ جب بڑے ادبی رسالے نکلتے تھے ٹی وی اور ریڈیو میں ادبی پروگرام ہوتے تھے۔ چند کی میزبانی تو ہم نے بھی کی تھی۔ خاص طور پر انوکھی شاعرہ نسرین انجم بھٹی کا ادبی پروگرام۔ اس وقت پروڈیوسر غلط لفظ پر باقاعدہ ٹوک دیتے کہ تب پروڈیوسر پڑھے لکھے ہوتے تھے۔ اب تو انہوں نے بھی گروپ بنا لئے ہیں کہ اس میں ذاتی نظریہ بھی آ گیا۔ خیر میں اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتا۔ پہلے نجیب احمد کی غزل سنی تو ایک شعر پر انہیں بہت ہی زیادہ داد ملی: کھلنڈرا سا کوئی بچہ ہے دریا سمندر تک اچھلتا جا رہا ہے رفتہ رفتہ ان کے ساتھ ہم بھی مشاعرے پڑھنے لگے۔ انہیں بہت ہی خاموش طبع محبت کرنے والا اور منکسر المزاج پایا۔ ان میں حس مزاح بھی کمال کی ہے کیونا ان کا ایک فقرہ اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کروں ایک شاعر خالد احمد کے لئے شیخو پور سے تین چار کلو گوشت اکٹھا لے آئے کہ سستا تھا۔ خالد احمد کہنے لگے یار ! اس کی مہربانی ہے مگر بہت دیر سے گوشت گھر پہنچاتا ہے۔ نجیب احمد بڑے رسان سے بولے‘’’اصل میں گوشت کئی دکانوں سے اکٹھا کرنا ہوتا ہے‘‘ چلیے تفنن طبع کے تحت ایک فقرہ لکھ دیا۔ ان کی اصل پہچان تو ان کی زور دار شاعری ہے۔ میں نے خالد احمد کو اور نجیب کو دیکھا کہ ایک دوسرے سے متاثر تھے، شاعری میں عادات میں ان کے درمیان بڑا مذاق بھی رہتا۔ وہاں اعجاز کنور راجا‘ رفیق غوری اور کچھ اور دوست بیٹھتے کبھی کبھی خواجہ محمد زکریا بھی تشریف لے آتے خوب محفل جمتی۔ خالد احمد نوائے وقت میں کالم لکھ رہے تھے سب تعریف کرنے لگے۔ نجیب احمد بولے یار جانے دو اس کا کالم لے کر جب ایڈیٹوریل والے جناب مجیب نظامی کے پاس گئے کہ جناب خالد احمد کا کالم ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔ نظامی صاحب کہنے لگے یار سمجھ وچ تے میری وی نہیں آیا۔ پرچھاپ دو۔ پھر نظامی صاحب نے خالد احمد کے لئے تقریب بھی کی تھی۔ چلیے اب چند اشعار دیکھ لیں: آسماں کو زمین میں لانے تک رات اک دیا جلانے تک ہم ایسے بھی گئے گزرے نہیں ہیں ہمارے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے تماشہ ایک دن دیکھے گی دنیا ابھی تو ہم سدھائے جا رہے ہیں اس شعری مجموعے میں زیادہ تر مختصر بحر میں غزلیں کہی گئی ہیں۔ شاید یہ دانستہ ہے یا پھر خودبخود اظہار سمٹ گیا ہے کہ اختصار میں اعجاز ہوتا ہے۔ نظمیں بھی اس میں کمال کی ہیں۔ یہ مجموعہ یقینا ان کا آگے کا سفر ہے مگر سچی بات یہ کہ مجھے ملال کی شاعری پسند ہے کہ وہ ان کے اس جنونی اور بے تاب زندگی کا سرمایہ ہے جب وہ خالد احمد کے ساتھ گھومتے تھے۔ مصرعے سازی ہوتی تھی۔ فن پر جھگڑا ہوتا تھا اور سگریٹوں کے دھویں میں مصرع سوچا جاتا تھا۔ اب تو ادبی ٹھکانا صرف الحمرا کی ادبی بیٹھک رہ گئی ہے۔ اس میں تقاریب پر پابندی لگ گئی ہے کہ انتظامیہ پیسے وصول کرتی تھی جبکہ وہ مفت بک ہوتی تھی۔ میں سمجھتا ہوں نجیب احمد جیسے ہمہ وقت شاعروں نے اس کی رونقیں بحال رکھی ہوئی ہیں۔ آخر میں نجیب احمد کی ایک بہترین نظم پیش کر رہا ہوں: سنا ہے سر کے بالوں میں سفیدی اگر اتر آئے تو رب لم یزل حرف گزارش رد نہیں کرتا مرے بچے بڑے لگنے لگے ہیں وہ اب گھر سے نکلتے وقت اتنی بات کرتے ہیں دعا کیجیے کہ رب رحم ہم پر رحم فرمائے سر سحرائے مشکل ابر آسانی برس جائے کوئی اک بھی نہیں ایسا مرے بارے میں کچھ پوچھے فقط دو چار پل ہی پاس بیٹھے گفتگو کے پانیوں سے زرد ہوتے پیڑ کو سرسبز کر دے وہ اپنی ناک سے آگے کہاں کچھ دیکھتے ہیں انہیں میری ضرورت اب نہیں ہے ان سفیران عرض نے مجھے گھر میں دعائوں کے لئے رکھا ہوا ہے