کوفے کے بازار میں، لوگوں نے سیّدنا علی المرتضیٰؓ کو دیکھا کہ عبا زیب تن کیے، ہاتھ میں دُرّہ لیے۔۔۔ صدا بلند فرما رہے تھے ،کہ : اے تاجرو! حق لو اور حق دو۔۔۔ تم سلامتی میں رہو گے،معمولی نفع کو بھی حقیر نہ جانو، مبادا زیادہ نفع کے انتظار میں، اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو، آپؓ فرماتے : اے بازار کے لوگو! اللہ سے ڈرو ،بطورِ خاص’’قسم‘‘کھانے سے بچو، کیونکہ قسم سے سامان تو ضرور فروخت ہوجاتا ہے، لیکن اس سے مال اور رزق سے برکت ختم ہو جاتی ہے۔آپؓ فرماتے: تاجر تو ’’فاجر‘‘یعنی گنہگار ہوتا ہے، سوائے اس تاجر کے ، جو لینے اور دینے میں حق کو ترجیح دے۔آپؓ کھجور کی منڈی کی از خود انسپکشن فرما رہے تھے، آپؓ کا رعب و دبدبہ دیکھ کر ایک کھجور فروش کہنے لگا: اے امیر المؤمنین ! میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھ پر ناراض نہ ہوں، آپؓ نے فرمایا: میں تم سے خوش رہوں گا۔۔۔ بشرطیکہ تم لوگوں کے حقوق ادا کرتے رہو، پھر دیگر کھجور فروشوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اے کھجور کے تاجرو! مسکینوں کو کھلاؤ ، تمہاری کمائی میں اضافہ ہوگا، اسی طرح’’دارِ فرات‘‘یعنی کپڑے کی مارکیٹ اور مچھلی منڈی بھی تشریف لے جاتے، از خود اوزان اور پیمانوں کی مانیٹرنگ کرتے، ناپ تول کا سختی سے اہتمام ہوتا۔ مارکیٹ میں ایک عورت کو روتا دیکھا۔۔۔ سبب معلوم ہوا کہ کسی سردار کی خادمہ ہے، اس نے گھر کا سامان خرید کیا، جو گھروالوں کو پسند نہ آیا، واپس کرنے آئی، تو دوکاندار نے سامان واپس لینے سے انکار کر دیا، جس پر عورت پریشانی کے عالم میں رو رہی ہے، آپؓ نے دوکاندار کو حکم دیا کہ اپنا بیچا ہوا سامان واپس لے لو ، اس کے پیسے واپس کر دو۔ لوگ کہتے ہیں کہ: آپؓ محض منبر پروعظ ہی نہ کرتے، بلکہ عملی طور پر ہاتھ میں دُرّہ لیے، کوفے کے بازاروں میں نکل کر ، اپنی ایڈمنسٹریشن اور مینجمنٹ کی کارکردگی کا عملی جائزہ بھی لیتے، اور ساتھ تقویٰ اور خوفِ خدا کی تاکید بھی کرتے۔ راہ چلتے مسافروں اور بھٹکے ہوؤں کو راستہ دیکھاتے ، کمزوروں اور بے نواؤں کی مدد کرتے اور خرید و فروخت کرنے والوں کے پاس سے گذرتے تو قرآن کی یہ آیت ، بلند آواز میں پڑھ کر سناتے : " تِلْکَ الدارُ الاٰخـرۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا ُیرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِیْ الارْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْن "(القصص ۸۳) یہ آخرت کا گھر، ہم ان کے لیے کرتے ہیںجو زمین میں تکبر نہیں چاہتے اور نہ فساد،اور عاقبت پرہیزگاروں ہی کی ہے۔ فرماتے، یہ آیت کریمہ عدل پرور اور تواضع پسند حکمرانوں اور تمام اصحابِ مقدرت لوگوں کے لیے نازل ہوئی۔ آپؓ فرماتے :تجارت سے متعلق دینی بصیرت اور فہم حاصل کیے بغیر، جس نے تجارت کی، وہ سود میں ڈوب گیا، ڈوب گیا ، ڈوب گیا۔ ایک روایت کے مطابق ، ایسا شخص ، جو کاروبار کے دینی مسائل سے نابلد ہوتا، اس کو دُرّے لگائے جاتے، آپؓ کے عہد میں، جب بازار میں دوکانداروں کے لیے اپنی اپنی جگہ مختص کرنے کا مسئلہ اُٹھ کھڑا ہوا، تو آپ نے مارکیٹ کے بارے میں فیصلہ سنایا کہ جس جگہ جو دوکاندار پہلے پہنچے، وہ اسی جگہ پر اپنی دوکان لگانے کا حقدار ہے، آپؓ نے دیکھا کہ دوکانداروں نے مارکیٹ میں پیشگی علامتیں چھوڑ رکھی ہیں، آپؓ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ بتایا گیا یہ دوکانداروں کے پیشگی قبضے کے نشان ہیں، آپؓ نے فرمایا: یہ کام جائز نہیں، بلکہ مسلمانوں کا بازار،مسلمانوں کی مسجد جیسا ہے، جو ،جہاں پہلے پہنچے،وہ جگہ اُس دن اس کی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس جگہ کو چھوڑ کر چلا جائے۔ ذخیرہ اندوزوں کے لیے آپؓ کا روّیہ انتہائی سخت تھا، آپؓ فرماتے بازار میں غلّہ لانے والا، رزق سے نوازا جاتا ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا گناہ گار قرار پاتا ہے۔ آپؓ کو ایک ایسے شخص کے بارے میں اطلاع دی گئی جس نے بیش قیمت غلہ ذخیرہ کر رکھا تھا، آپؓ نے حکم دیا اس کے گودام میں آگ لگا دی جائے۔ کسی مال کے ’’ذخیرہ اندوزی‘‘کے زمرے میں آنے کے لیے ، لازم ہے کہ اس مال کو روک لینے سے، انسانوں کی زندگی دگرگوں ہونے لگے۔ اسی طرح آپ ؓ نے ایک ایسی بستی کو آگ لگا دینے کا حکم دے دیا، جس میں شراب فروخت کی جاتی تھی۔ اسی طرح ایک مرتبہ آپؓ کا گذر’’زرارہ‘‘نامی ایک بستی سے ہوا، آپؓ نے بستی کے احوال دریافت کیے، بتایا گیا کہ یہاں گوشت کثرت سے کھایا جاتا اور شراب خوب فروخت ہوتی ہے، جس کے بارے میں آپ نے ایسے ہی احکام جاری فرمائے، ’’بخیل‘‘کے بارے میں فرمایا کہ اس کے مال کو کسی حادثے یا وارث سے خبردار رہنا چاہیے، بخیل بعجلتِ تمام، عسرت سے ہمکنار ہو جاتا ہے، وہ دنیا میں فقیروں کی زندگی گذارتا اور آخرت میں مالداروں جیسا حساب دیتا ہے۔ ایک مرتبہ جامع مسجد کوفہ کے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے ، آپ ؓ نے لوگوں کو فرمایا کہ :مجھے تمہارے بارے میں لمبی امید اور نفس پرستی کا خوف ہے، آپؓ نے فرمایا کہ لمبی امیدیں ، انسان کو آخرت سے بے بہرہ کر دیتی ، اور نفس پرستی ، آدمی کو حق سے روک دیتی ہے۔ آپؓ نے فرمایا، جان لو! دنیا پیٹھ پھیر کر بھاگ گئی، اور آخرت کی گھڑی سامنے آگئی، لہٰذا آخرت والے بنو، دنیا والے نہ بنو۔ یہ ایامِ عمل ہیں، ایام حساب نہیں ، کل آخرت میں’’یوم حساب‘‘ہوگا،’’یومِ عمل‘‘نہیں۔ آپؓ نے لوگوں کو ’’گناہ‘‘ سے بچنے کی تلقین فرماتے ہوئے کہا کہ ’’گناہ‘‘عبادت میں کاہلی ، رزق میں تنگی اور لذت میں کمی لاتا ہے۔ آپ ؓ نے مزید فرمایا کہ:’’جو شخص خاندانی عزت اور اولاد کی کثرت کے بغیر۔۔۔ نسل کی بقا اور مالداری چاہتا ہو، اسے چاہیے کہ گناہ کی ذلّت سے اللہ کی اطاعت اور بندگی کی طرف پلٹ آئے، ایک مرتبہ امام حسن ؓ بیمار تھے، حضرت علی المرتضیٰ ؓ ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے، دیکھا کہ ابوموسی اشعری ؓ بھی موجود ہیں، حضرت علی ؓ نے پوچھا ، آپؓ کیسے آئے ۔۔۔؟، عیادت کرنے یا زیارت ۔۔۔ عرض کی عیادت کرنے، اس موقع پر حضرت علی ؓ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سُنا : اگر کوئی مسلمان صبح کے وقت اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے، تو ستّر ہزار فرشتے شام تک ، اور اگر شام کو عیادت کرتا ہے، تو ستّر ہزار فرشتے صبح تک ، اس کے لیے دُعائے مغفرت کرتے ہیں، فرمایا اپنے اوپر دنیا وی خواہشات اور نفسانی شہوات کی حکومت نہ ہونے دو، اس کا فوری انجام بُرا اور اخروی نتیجہ خطرناک ہے، آپؓ نے فرمایا اپنے کسی مسلمان بھائی کو خوش کر دینا ، اللہ کی مغفرت کا ذریعہ ہے۔ فرمایا، تین کام انتہائی مشکل اور گراں مگر بے پناہ برکات کا ذریعہ ہیں: i۔حق کے لیے خود کو جھکا دینا ii۔ہر حال میں اللہ کا ذکر کرنا iii۔اپنے بھائی کی غمخواری کرنا باب مدینۃ العلم ، حضرت علی ؓ اسلامی تاریخ کی روشن ترین شخصیت اور علم و حکمت کا درخشندہ تر باب ہیں ،آج تیرہ رجب المرجب ،آپ ؓ کا یوم ولادت ہے، یعنی آج سے تقریباً 1465 قمری سال قبل، بنوہاشم کے عظیم المرتبت گھرانے میں ، آپؓ کی ولادت ہوئی۔ اسی مناسبت سے ، آپؓ کی چند ایسی حکمت مآب باتیں ، جن کا تعلق بطورِ خاص ہماری معاشرتی زندگی سے ہے ، نذرِ قارئین کرنے کی سعادت حاصل کی۔