ہمارے صحافتی استاد برادرِ عزیز اشرف شاد برسہا برس سے رہتے تو سڈنی میں ہیںمگر ہوتے پاکستان میں ہیں۔ئ70کی دہائی کے آخری دموں پر جب جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء آیاتو اس کی ضرب ِ کاری سیاست سے زیادہ پہلے صحافت پر لگی۔پریس ایڈوائس اخبار و جرائد کی بندش ،اور گرفتاریوں کے بعد پھر نوبت کوڑوں جیسی بہیمانہ سزاؤں پر آگئی تو پیٹ سے لگی قلم کی صحافتی برادری کب تک مارشل لائی استبداد کا مقابلہ کرتی۔اکثریت تو یوں بھی بھٹو دشمنی میں پہلے ہی مردِ مومن کے حلقہ ٔ یاراں میں تھی۔رہی اقلیت تو بیروزگاری کا خون کب تک تھوکتی ۔اکثریت اور اقلیت یعنی دائیں اور بائیں کی تفریق کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔۔ ۔ کہ یہ کب کا قصۂ پارینہ ہوا۔ شباب ختم ہوا اور حساب ختم ہوا کتاب ِ زیست کا ایک اور باب ختم ہوا کشمیر سمیت جلتے سلگتے مسائل کے بیچ، برادر اشرف شاد یوں یا د آئے کہ روزگار کے دروازے بند ہونے لگے تو باجو والی گلی سے باہر نکل گئے۔در بدری میں دہائی گزرنے کے بعد جہاں قلم اور آواز سے رشتہ قائم رکھا،وہیں ناول نگاری کا بھاری پتھر بھی اٹھا لیا۔دو دہائی پہلے ’’بے وطن ‘‘لے کر آئے۔پھر ’’وزیر اعظم‘‘اور ’’صدر ِ محترم‘‘۔ ۔ ۔ سال بھر پہلے اینکر حضرات پر ایک کتاب لکھی جس میں ہماری اینکر برادری کے خوب خوب بخئیے ادھیڑے ۔ادھر گزشتہ ماہ کراچی آئے تو ایک کتاب تھما گئے: ’’اسکندر مرزا کی یادداشتیں‘‘۔ سچ بتانے میں حرج نہیں کہ کتاب کے اوراق الٹنے کے لئے طبیعت نہیں مچلی۔مچلتی بھی کیسے کہ ادھر پاکستان کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے جتنا بھی پڑھا اس میں اسکندر مرزا ایک ایسے کردار کے طور پر سامنے آئے جنہوں نے وطن عزیز میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے میں فیلد مارشل محمد ایوب خان کو ایک ایسی راہ دکھائی کہ نصف صدی بعد بھی ہمارے اصلی تے وڈے حکمراں ’’پنڈی وال‘‘ ہی ہیں۔اسکندر مرزا کو جس طرح جنرل ایوب خان نے رخصت کیا اور پھر لندن میں جس بے بسی اور بے کسی میں ان کی مو ت واقع ہوئی ،وہ حکمرانوں کے لئے مقام ِ عبرت ہے،اگرچہ وطن عزیز میں سیاست کا کچھ ایسا چلن ہے کہ یہاں کون عبرت پکڑتا ہے۔اسکرینوں پر مرد ِ حُر آصف علی زرداری جیسے بادشاہ گر کو گھسٹتے قدموں ،چھوٹی بڑی عدالتوں میں آتا جاتا دیکھتا ہوں تو کتنا ہی پروفیشنل ہونے کا دعویٰ کروں آنکھوں میں نمی آجاتی ہے۔ اسکندر مرزا ادھر یوں یاد آئے کہ ہم نے جو کشمیر پر 92اخبار میں چند کالم باندھے تو برادر اشرف نے ہماری توجہ دلائی کہ تنازعہ کشمیر کے حوالے سے اسکندر مرزا کی یادداشتوں میں پاکستانی حکومت کا تقسیم ِہند کے ابتدائی دنوں میں جو کردار رہا،ذرااس پر بھی نظر ڈال لیں۔کتاب کے اوراق الٹنے شروع کئے ۔کشمیر تک آتے آتے اسکندر مرزا کی اس حق گوئی پر تو داد دینی ہی پڑی کہ انہوں نے کس فخر و انبساط سے قیام ِ پاکستان سے قبل جب ان کی اس وقت کے صوبے سرحد کے مختلف شہروں میں ڈپٹی کمشنری اور کمشنری تھی،کس طرح انہوں نے باچا خان کے خدائی خدمتگاروں کا صوبے میں ناطقہ بندکردیا تھا۔خدائی خدمتگاروں کو گرفتار کرنے ،لاٹھیوں اور گولیوں سے تواضع کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس تحریک کو کچلنے کے لئے ایسے ایسے نادر اور ظالمانہ ہتھ کنڈے استعمال کئے کہ جس سے انگریزوں نے انہیں ایسا نوازا کہ آزادی کے وقت وہ نوزائیدہ اسلامی جمہوریہ کے ڈپٹی سکریٹری تھے۔اور پھر اس مملکت ِ خداداد ِ پاکستان کا المیہ دیکھیں کہ یہی انگریز کا پروردہ ،ایرانی نژاد بیوروکریٹ سن1956ئمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پہلا صدر بنا۔تنازعہ کشمیر کے حوالے سے بہر حال اسکندر مرزا کی یہ یادداشتیں اس اعتبار سے اہمیت کی حامل ہیں کہ یہ فرسٹ ہینڈ اکاؤنٹ ہے۔اگر اُس وقت پاکستانی قیادت ہوشمندی اور نیک نیتی کا مظاہرہ کرتی تو کشمیر ہرگز ہرگز بھارت کا ’’اٹوٹ انگ ‘‘ نہ بنتا۔ اسکندر مرزا لکھتے ہیں: ’’کشمیر میں صورتحال اپنے نقطہ ٔ عروج پر پہنچ چکی تھی۔وزارت ِ دفاع کے ہیڈ کوارٹر کی کراچی اور پنڈی میں تقسیم کئی دشورایوں کا باعث تھی۔ہم نے ان واقعات کو ہر ممکن طریقے سے سنبھالنے کی کوشش کی۔جونا گڑھ میں ناکامی کے بعد سردار پٹیل کا جو اس وقت بھارتی حکومت میں مرد ِ آہنگ کا درجہ رکھتے تھے،اور ریاستوں کے ادغام کے انچارج تھے ،ایک پیغامبر کراچی آیا ۔سردار پٹیل نے اپنے پیغا م میں کہا تھاکہ اگر ہم حیدر آباد سے دست بردار ہوجائیں تو ہم کشمیر لے سکتے ہیں۔یہ ایک بڑی منصفانہ پیشکش تھی۔لیکن حکومت نے اسے قبول نہیں کیا۔کشمیر میں مہاراجہ کے افسروں اور ڈوگرا کی فوجوں کی پالیسی پونچھ کے صوبے میں زبردست قتل و غارت گری مچانے کی تھی۔مسلمانوں کے ،جن میں مرد اور عورتیں شامل تھے ،خون آلود کپڑے جب قبائلی علاقوں میں لاکر دکھائے گئے تو قبائلیوں کا غصہ اپنے عروج پر پہنچ گیا۔یہ سب کچھ انتہائی غلط طریقے سے کیا گیا۔قبائلیوں کو بتایا گیا کہ یہ جہاد ہے۔انہیں یہاں تک چھوٹ دی گئی کہ وہ دیہات میں لوٹ ما ر کر سکتے ہیں۔اس ساری صورت حال پر میں سخت طیش میں آیا۔‘‘ اس مقام پر پہنچ کر اسکندر مرزا اس بات کا سارا کریڈٹ لیتے ہیں کہ اُس وقت کشمیر کو آزاد کرانے اور سرینگر تک پہنچنے میں محض صرف اور صرف ان کا ہی کردار تھا۔اسکندر مرزا اس بات کابھی دعویٰ کرتے ہیں کہ قائد اعظم نے انہیں طلب کیا اورکہا:’’تم اندر کیوں نہیں گھس جاتے؟ ‘‘ یہاں تک پہنچا ہوں تو کالم آخری دموں پر ہے ۔کشمیر کے حوالے سے اسکندر مرزا نے جو متنازعہ موقف سامنے رکھا ہے ۔اور اس میں جس طرح انہوں نے اپنا مرکزی کردار بتایا ہے ،معذرت کیساتھ ،ادھر جو چند ہفتوں میں کشمیر کے حوالے سے جو درجن بھر ملکی و غیر ملکی مصنفوں کی کتابیں پڑھی ہیں ،اُن میں اسکندر مرزا کا ذکر نام کی حد تک بھی نہیں آیا۔(جاری ہے)