بھارت کشمیری مسلمانوں سے ہروہ چیز چھیننے کی کوشش کررہاہے جوبھارتیوں کے رنگ وبوسے یکسرمختلف ہواورجس سے ان کی مسلمانیت جھلکتی ہو۔کشمیریوں کالباس بھارتی شہریوں سے کوئی میل نہیں کھاتابلکہ ان کاعام لباس قمیص وشلوارہے جسے کشمیری ’’خان ڈریس ‘‘کے نام سے پکارتے ہیں اورجوپاکستانی شہریوں کے لباس سے مکمل طورپرہم آہنگ ہے ۔قمیص وشلوارکے اوپراہل کشمیر جھاڑے اورسردیوں کے موسم میں ایک اورلباس پہنتے ہیں جسے کشمیری زبان میں ’’پھیرن ‘‘کہتے ہیں جوگلے سے لیکرقدموں سے سردی سے انہیں بچاتا ہے۔ کشمیریوں کاپھیرن عربیوں کے ’’ثوب ‘‘کے مماثل ہے اورشرعی سترکے لئے کافی موافی ہوتا ہے۔ کشمیریوں کے یہ دونوں لباس یعنی قمیص وشلوار اور پھیرن بھارتی نقطہ نظرسے پاکستانیوں اور عربیوں کے لباس کے مماثل ہے اس لئے بھارت کوکشمیریوں کایہ لباس کھٹکتاہے ۔کشمیریوں سے ان کی ثقافت چھیننے کی بڑی کوشش ہورہی ہے اور کشمیرکی نوجوان نسل سے تقریباًیہ ڈریس چھینا گیا اور اب کشمیریوں کاپھیرن بھی ان سے چھیننے کی کوشش ہورہی ہے ۔ اس حوالے سے سرینگرمیں دہلی کے گورنر ستیہ پال ملک نے کشمیریوں کی ثقافت پرتازہ وارکرتے ہوئے ہفتہ22دسمبر2018ء کو نادرشاہی حکمنامہ کے ذریعے کشمیریوںکے موسم سرماکے اہم لباس پھیرن (Pheran)جوکہ موسم سرما کی خون جمادینے والی سردیوں میںخود کوگرم رکھنے کا نہایت کارگر طریقہ ہے اورکشمیریوں کی شناخت کا حصہ بھی ہے، زیب تن کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ دہلی کے گورنرکاآرڈرموصول ہوتے ہی سری نگرمیںسول سیکریٹریٹ اور محکمہ تعلیم نے اس نادرشاہی آرڈرپرعمل درآمدشروع کردیا جس کے بعدمقبوضہ کشمیرمیں ایک شوربرپاہے اورہرطرف نہ صرف اس نادرشاہی حکم کی نہایت شدت کے ساتھ مذمت کی جارہی ہے بلکہ سوشل میڈیاپرہرکشمیری برسراحتجاج ہے ۔ان کاکہناہے کہ یہ پھیرن پرنہیں بلکہ کشمیریوں کی ثقافت پروارہے ۔سوشل میڈیاکے ذریعے کشمیری عوام احتجاجاََکہہ رہے ہیں کہ یہ صریحا ایک ایسا نادرشاہی حکمنامہ ہے جو افسوس ناک ہے اور شرمناک بھی، جس کا کلی طور پر کوئی بھی جواز نہیں۔ اہل کشمیر کا کہنا ہے کہ پھیرن کشمیریوں کی شناخت کا مرکزی حصہ ہے اس لئے گورنری آرڈرنہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ اس پابندی کو سماجی طور پر بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ ان کاکہناہے کہ پھیرن ہمارے لیے صرف ایک کپڑے کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ یہ ہماری تاریخ اور ثقافت کا حصہ ہے اوربھارتی منصوبہ یہ ہے کہ وہ کشمیریوں سے انکی ثقافت دور ہوکررہے۔ واضح رہے اس سے قبل بھارتی فوج کی طرف سے کشمیر میں پھیرن کو سیکورٹی رسک قرار دیا گیا جسکے بعد فوجی اداروں اور پولیس کیمپوں میں عام لوگوں اور صحافیوں کے پھیرن پہن کر داخل ہونے پر پابندی عائد کردی گئی جبکہ2014ء میں منعقدبھارتی فوج کی پندرھویں کورکی ایک پریس کانفرنس میں شمولیت کرنے کے دعوت نامہ میں تاکیداََ کہا تھا کہ کوئی کشمیری صحافی پھیرن پہن کراس کانفرنس میں ہرگز نہ آئے،بھارتی فوج کی طرف سے مقامی میڈیا نمائندگان کو بادامی باغ میں منعقدپریس کانفرنس میں پھیرن پہننے پرعاید پابندی کے ایشوپر مقامی صحافیوں نے اس پر زبردست اعتراض ہنگامہ کھڑا کیا۔ جسے دیکھتے ہوئے بھارتی فوج کی15ویں کور کے کمانڈر نے مجبوراً یہ آرڈر واپس لیا تھا۔ پھیرن کشمیر کی ثقافت کا ممتاز حصہ اور ایک محبوب اور قدیم روایتی لباس ہے۔ ایک تجزیہ کے مطابق کشمیر میں ہر سال تقریباً 30 لاکھ نئے پھیرن بنائے جاتے ہیںاور یہ محتاط اعدادوشماروہ ہے جس کا تخمینہ زیادہ پھیرن استعمال کرنے والے علاقوں سے لیا گیا ہے ۔پھیرن کشمیر کی ثقافت کا ایک اٹوٹ انگ ہے جس کا زیادہ تر استعمال سردیوں کے موسم میں کیا جاتا ہے۔ ایک ایسا لباس جو انسانی بدن کو گردن سے ٹخنوں تک ڈھانپتا ہے۔ مقبوضہ وادی کشمیری میں مردوزن پھیرن کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ اولاََ اس کو ایک مہذب اور شرم و حیا کا لباس سمجھا جاتا ہے۔ ثانیاً اس کے پہننے کے بعدکشمیریوں کی قدرتی خوبصورتی میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔بلاتفریق عمروجنس یعنی بزرگوںسے لیکرنونہالاں اورمردوں سے عورتوں تک کشمیری سب کے سب پھیرن زیب تن کرتے ہیں ۔ تاہم خواتین کشمیر کاپھیرن مردوں کے زیراستعمال پھیرن سے یکسرمختلف ہے ۔خواتین کے پھیرن پر کڑھائی، دبکہ اور تلہ کا خوبصورت کام ہوتااور دلکش دکھانے کے لئے اس کو مخصوص کشمیری اور ویسٹرن ٹچ دیا جاتاہے۔خواتین کے پھیرنوں پر تلہ کا کام کیا جاتا ہے اور’’تلہ پھیرن ‘‘کشمیری عورتوں خاص طور پر شادی شدہ عورتوں کے پہناوے کا ایک لازمی حصہ ہوتا ہے۔جنگ بندی لائن سے جومخصوص تجارت ہوتی ہے اوراس تجارت کے ذریعے سے پاکستان سے کشمیرمیں غیر سلے کپڑے آتے ہیںاورکشمیری دستکار پاکستانی کپڑے کو اپنے طریقے اور گاہکوں کے آرڈر کے مطابق ڈیزائن کرتے ہیں۔یہ بات کسی دلچسپی سے کم نہیں کہ کشمیری بچیاں پاکستانی کپڑوں پرکشمیری دستکاری کوبہت پسندکرکے زیب تن کرتی ہیں۔ کشمیریوں کایہ خاص لباس پھیرن وادی کشمیر میں صدیوں سے مقامی روایت کا حصہ بنا ہوا ہے اور موسم سرما و چلہ کلاں کی یخ بستہ ہوائوں کے علاوہ سردی سے مقابلہ کرنے کیلئے کشمیر میں ایک ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے کشمیر میں پھیرن کی ہیت بھی تبدیل ہوچکی ہے،اور نئی ڈیزائننگ اور جدیدیت سے اس میں کافی فرق آچکا ہے اور اب اہم تقاریب کیلئے مخصوص طرح کے پھیرن کا استعمال کیا جاتا ہے۔