نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے درمیان 14 جولائی (اتوار) کوکرکٹ ورلڈکپ کا فائنل مقابلہ کھیلا گیا۔ اس مقابلے میں متنازعہ قواعد کی بنیاد پر کرکٹ کا موجد ملک انگلینڈ 44 سال میں پہلی مرتبہ عالمی خطاب کا تاج اپنے سر سجانے میں کامیاب ہوا ہے اور کامیابی کے بعد انگلش ٹیم میں شامل دو مسلم کھلاڑیوں عادل رشید اور معین علی کے جشن منانے کے موقع پر شراب کی بارش سے خود کو بچانے کیلئے دوردوڑنے کی ویڈیو نے سوشل میڈیا پر کافی مقبولیت حاصل کی لیکن اس دوران ہندوستان میں مودی حکومت کی توجہ ایک سنگین مسئلے کی طرف بھی مبذول کروائی گئی ہے۔ورلڈ کپ فائنل کے موقع پر لارڈز کے تاریخی میدان کے باہر ایک ایسا ٹرک گشت کرتا ہوا دیکھا گیا جو ہندوستان کی مودی حکومت کے لیے شرمناک تھا۔ دراصل فائنل میچ سے قبل ایک ٹرک پر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا ’’موب لنچنگ بند کرو، ہندوستان میں اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرو۔‘‘ یہ الفاظ ’موبائل بل بورڈ‘ پر تحریر تھے اور لارڈز میدان کے باہر یہ گاڑی بار بار چکر لگا رہی تھی۔ اس واقعہ کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے۔ انگلینڈ کے تاریخی لارڈز میدان میں ایک طرف نیوزی لینڈ اور انگلینڈ ٹیم فائنل میچ کھیلنے کی تیاری کر رہی تھیں اور دوسری طرف میدان کے باہر ہندوستان میں اقلیتی طبقہ کی ہو رہی موب لنچنگ (ہجومی تشدد) کے خلاف آواز بلند کی جا رہی تھی۔ تحریک حریت کے چیئرمین اور جموں و کشمیر کے مشہور لیڈر سید علی گیلانی نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر اس ٹرک کا ویڈیو 14 جولائی کو ہی پوسٹ کیا تھا، لیکن اس وقت غالباً فائنل میچ کے ہنگاموں میں اس طرف کسی نے توجہ ہی نہیں دی۔ اب یہ ویڈیو کئی انگریزی نیوز پورٹل پر موجود ہے اور لوگوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔یہ ویڈیو بی جے پی قیادت والی این ڈی اے حکومت کے لیے باعث شرمندگی ہے، کیونکہ ایک ایسے موقع پر موب لنچنگ کے خلاف آواز اٹھائی گئی جب پوری دنیا کی نظریں لارڈز پر ہی جمی ہوئی تھیں۔ قابل ذکر یہ ہے کہ اس سے قبل ہیڈنگلے اسٹیڈیم میں جب ہندوستان اور سری لنکا کے درمیان ورلڈ کپ کا لیگ میچ کھیلا جا رہا تھا تو ایک طیارہ بھی میدان پر اڑتا ہوا نظر آیا تھا جو نسل کشی کوروک کا مطالبہ کرتا ہوا پیغام لہرا رہا تھا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل برطانیہ میں لیبر پارٹی نے ہندوستان میں مسلمانوں پر ظالمانہ حملہ کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور برطانوی حکومت سے کہا تھا کہ وہ اس سلسلے میں ہندوستان سے بات کرے۔ لیبر پارٹی کے رکن پارلیمنٹ جوناتھن ایشورتھ نے ایک مکتوب لکھ کر موب لنچنگ اور اقلیتی طبقہ پر ہندوستان میں حملوں کو فکر انگیز موضوع قرار دیا تھا۔ خارجہ سکریٹری اور وزیر اعظم دفتر کو لکھے گئے اس مکتوب میں جوناتھن نے کہا کہ ہندوستانی حکومت سے بات کی جانی چاہیے اور اس طرح کے حملوں پر تنقید ہونی چاہیے۔ اس مکتوب کا مثبت جواب بھی جوناتھن کو ملا تھا جس میں برطانیہ کے دفتر برائے خارجہ نے لکھا تھا کہ مذہب اور عقیدہ کو لے کر ہوئے واقعات قابل مذمت ہیں اور ہندوستان میں مسلم نوجوانوں کو مضبوط بنانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ہندوستان میں اس وقت عوام کو تقسیم کرتے ہوئے اقتدار پر قابض رہنے کا سب سے تازہ اور نیا ہتھیار ہجومی تشدد یا موب لنچنگ کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ اس ہتھیار کا زہر دن بہ دن بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اس ہتھیار کو گائو رکھشا اور راشٹرواد کی بھٹی میں جھونک کر مزید تیز بنایا جا رہا ہے۔ آپسی اتحاد میں عدم اعتماد کی آگ لگا کر اس ہتھیار کو ہندوتوا اور دائیں بازو نظریات میں لپیٹ کر اور زیادہ زہریلا بنایا جا رہا ہے۔ یہ سب اچانک نہیں ہوا ہے۔ ایک منصوبہ بند سازش کے تحت یہ سب کیا جا رہا ہے۔ سازش اتنی گہری ہے کہ کب لوگ ہتھیار بن گئے انھیں اس کا احساس تک نہیں ہوا اور وہ معصوم اقلیتوں کو صرف شبہات کی بنیاد پر مار رہے ہیں۔ اس میں ہلاک وہ ہو رہے ہیں جنھیں ان کا قصور تک نہیں بتایا جا رہا ہے۔ محض شبہات کی بناد پر مارنے والے، قصور بتاتے بھی کہاں ہیں۔ بساہڑا گائوں کا اخلاق ہو، ٹرین میں سفر کرتا جنید ہو، الور کا پہلو خان ہو یا پھر محمد عمر کے بعد اب تبریز انصاری یا پھر دہلی میں مدارس کے معصوم طلباء یہ سب کے سب صرف شبہات کی بنیاد پر مارے گئے اور ان کی کوئی سننے کو تیار نہیں۔تشدد کا یہ ہتھیار اب خوفناک شکل اختیار کر گیا ہے۔ پہلے صرف تشدد پر آمادہ بھیڑ مار رہی تھی لیکن اب ان کا ساتھ سرکاری مشنری بھی دے رہی ہے۔ میڈیا نے اسے ’موب لنچنگ‘ کہنا شروع کر دیا، جس کا اصل میں کوئی معنی ہوتا ہی نہیں ہے، صرف اس کے کہ دنیا کو صاف صاف نہ پتہ چل سکے کہ تشدد کے اس واقعہ کی وجہ کیا ہے۔ مشتعل ہجوم کا تشدد کئی مرتبہ فوری عمل ضرور معلوم ہوتا ہے لیکن ایسا ہے نہیں کیونکہ اس کی زمین تو مستقل جاری اس سیاسی تشہیر نے تیار کیا ہوتا ہے جس میں مسلمانوں کے خلاف اندیشوں اور نفرت کا ماحول بنایا گیا ہے۔ ہندوتوا اور دائیں بازو لیڈر گائو رکھشا کی برسرعام بات کرتے جھجک محسوس نہیں کرتے۔ ان میں ریاستوں کے چیف منسٹر سے لے کر آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت تک شامل ہیں۔ دسہرا کے موقع پر آر ایس ایس کی یومِ تاسیس پر آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے اپنے پیغام میں واضح لفظوں میں کہا تھا کہ گائو رکھشا کو تشدد سے جوڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ وجیلانتے یعنی دفاع اور احتیاط لفظ کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ تمام دانشور اورسپریم کورٹ اس لفظ کا غلط استعمال کر رہے ہیں، گائو رکھشک اس سے نہ فکر مند ہوں اور نہ ہی پریشان۔ اس لفظ کا استعمال کر کے کچھ طاقتیں سبھی کے نظریات کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جس کے چنگل سے حکومت اور انتظامیہ دونوں کو نکلنا ہوگا۔موہن بھاگوت نے گائے کے نام پر تشدد کے خلاف وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ کی گئی سخت تنبیہ کے ضمن میں کہا تھا کہ گائو رکھشا کے لیے پاکیزگی کے ساتھ منسلک سویم سیوک حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز اشخاص کے بیانات اور پٹائی سے متعلق تشدد میں شامل افراد کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے حکومتوں اور سپریم کورٹ کی ہدایات سے نہ گھبرائیں۔ سخت گیر ہندوتوا میں موہن بھاگوت کا پیغام اہم ہوتا ہے اور جب موہن بھاگوت نے خود کہہ دیا کہ گائو رکھشک نہ سپریم کورٹ کے تبصروں اور نہ ہی سرکار کی تنبیہ سے پریشان ہوں، تو پھر اس تشدد پر آمادہ ہجوم کو کون روکے گا؟ (بشکریہ سیاست، دہلی)