ابو ریحان ، البیرونی ۔۔۔دسویں صدی عیسوی کا معروف اور معتبر مسلمان سائنسدان ، ماہرِ ارضیات و لسانیات ۔۔۔ تاریخ، ریاضی اور نجوم کا استاد، نامور عبقری اور جینئس۔۔۔ بوعلی سینا کا ہم عصر اور اپنے عہد کا عظیم دانشور۔۔۔محمود غزنوی نے خوارزم کو فتح کیا، تو البیرونی۔۔۔ محمود غزنوی کے دربار سے وابستہ ہو کر ، 1007ء میں غزنہ اور پھر ہندوستان وارد ہوا،اس عہد میں اجمیر طاقت وقوت، سیاست و تمدن اور علم و حکمت کا مرکز تھا، البیرونی نے یہاں قیام کیا، ہندی تہذیب و ثقافت کا گہرا مطالعہ اور اُن کے علوم و فنون سے آگاہی کا اہتمام ہوا، جس پر ہندؤ اس کے گرویدہ ہو گئے اور اُسے’’ودیاساگر‘‘ یعنی’’علم کا سمندر‘‘ کے لقب سے موسوم کر دیا۔ البیرونی نے ہندوؤں کی مذہبی کتاب بھگوت گیتا کا عربی میں ترجمہ کیا، اور ہندی تہذیب و معاشرت پر ایک مایہ ناز تصنیف ’’کتاب الہند‘‘تحریر کی، جس میں اُس نے ہندو معاشرے میں بسر شدہ اپنے پندرہ سالوں کے انتہائی قیمتی مشاہدات ایسی دقتِ نظر سے قلمبند کئے کہ جن کو ہندو علماء بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے۔ تین سو سال قبل مسیح، جب ہندوستان میں ’’برہمنی تہذیب‘‘اپنے عروج اور شباب پر تھی، تو اس زمانے میں ہندو زعماء نے اپنی سوسائٹی کے لیے ایک دستور مرتب کیا، جس میں انہوں نے اپنے سیاسی ، تمدنی اور اخلاقی قواعد و ضوابط کی وضاحت و صراحت کی، جس کو ہندو دانشوروں نے بڑی تحسین و توقیر کی۔ اس دستور اور قانون کے مصنف اور خالق منوجی ، جن کے نام پر اس دستاویز کو ’’منو شاستر‘‘کہا گیا ، اس متفقہ قانونی اور آئینی دستاویز کی مطابق ، اہالیانِ ہند کو حسب ذیل چار طبقات میں تقسیم کیا گیا، i۔برہمن، ii۔کھشتری، iii۔ویش، iv۔ شودر ۔ انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا کی مطابق منوجی کے مرتب کردہ اس صحیفہ قانون کو ایک الہامی تقدس حاصل تھا، اس کے قوانین ہر شک و شبہ سے بالاتر اور تنقیدسے ماورائ۔ البیرونی نے’’کتاب الہند‘‘ میں شودر کے بارے میں لکھا ہے: ’’شودر کی حیثیت، برہمن کے غلام کی ہے، اس کو برہمن کے کام میں مصروف رہنا اور اس کی خدمت بجا لانا ہے، ہر وہ کام جو برہمن ہی کے واسطے مخصوص ہے، مثلاً مالا جپنا، وید پڑھنا اور آگ کی قربانی وغیرہ۔۔۔ یہ سب کچھ شودر کے لیے منع ہے، اگر شودر یا ویش کے متعلق یہ ثابت ہو جائے کہ اس نے وید پڑھا ہے، تو برہمن اس کی اطلاع حاکم کو دے، اور حاکم کواختیارہے کہ اس کی زبان کاٹ دے‘‘۔’’برہمن‘‘ہر آسائش اور اختیار کا حقدار اور’’شورد‘‘حیات کی ہر نعمت سے محروم، اس کا وجود سوسائٹی کے لیے اس قدر حقیر تھا کہ اس کے جسم ہی کو غلیظ سمجھا جاتا ، اس کے کان اس قدر ناپاک تھے کہ’’وید‘‘کی کوئی آواز یا صدا ، اگر فضاؤں یا ہواؤں میں تیرتی ہوئی، بھی اس تک پہنچ گئی، تو اس کے کان ہمیشہ کے لیے سماعت سے محروم کر دیئے جاتے۔ تاریخِ ہند گواہ ہے کہ ایک شودر نے راہ گذرتے۔۔۔ بغیر کسی ارادے کے وید کے کلمات سُن لیے، جو اگرجُرم بھی تھا تو اس میں ، اس کا کوئی قصور نہ تھا اور نہ ہی اس میں اس کا ارادہ شامل تھا، وہ تو محض راہ گیر تھا، اس کا قصور کیونکر۔۔۔، مگر منوجی کا چلایا ہوا تیر اس قدر زہر آفریں تھا کہ وقت کے اُوتار نے اُس شودر کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالنے کا حکم دیا۔ یہ تھے وہ حالات، جن میں حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ اسلام اور قرآن کی صداقتوں کا نور لے کر برصغیر میں جلوہ گر ہوئے،یہ تھی وہ فضا جس میں خواجۂ اجمیرؒ نے عظمت ِ انسانیت کا پرچم سربلند کیا ، حُسنِ اخلاق کی دولت کو عام اور نسلِ انسانی کو مساوات کا درس دیا کہ جبر وظلم میں جکڑی ہوئی مخلوق، زندگی اور بندگی کے شرف اور جینے کے حوصلے سے آراستہ ہوئی، آپؒ نے اپنے متعلقین اور متوسلین کو تلقین فرمائی کہ اپنے اندر دریا جیسی فیاضی ، سورج جیسی گرم جوشی اور زمین جیسی مہمان نوازی پیدا کرو، کہ جس طرح یہ مظاہرِ قدرت و فطرت ۔۔۔ اپنے اور پرائے کا فرق نہیں کرتے ان کی فیاضیاں ، ضیاء باریاں اور کرم گُستریاں سب کے لیے ایک جیسی ہیں، ایسے ہی انسانی رویّے ، داعیّے اور جذبے بھی سب کے لیے ایک جیسے ہونا چاہیے ،’’سیر الاولیائ‘‘میں’’حقیقی عبادت‘‘کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:’’عاجزوں کی فریاد کو پہنچنا، ضعیفوں اور بیچاروں کی حاجت روائی کرنا اور بھوکوں کا پیٹ بھرنا ہی حقیقی عبادت ہے‘‘۔ علی گڑھ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق، برصغیر کے سب سے بڑے سماجی انقلاب کے بانی ، خواجہ معین الدین چشتیؒ ہیں، جن کا طرزِ بودوباش اور رہن سہن از حد سادہ ، لیکن نظر کی تاثیر ایسی کہ جس طرف دیکھ لیتے معصیت کے سَوت اس کی زندگی سے خشک ہو جاتے۔ آپ کی نظر جس فاسق پر پڑ جاتی ، تو وہ ایسا تائب ہوتا کہ پھر کبھی گناہ کے قریب سے نہ گذرتا۔ حضرت خواجہؒ نے چھوت چھات کے اس بھیانک ماحول میں اسلام کا نظریۂ توحید و مساوات ایسے عملی پیرائے میں پیش کیا، جس کے ثمرات سوسائٹی کو میسر آئے اور وہ جان گئے کہ یہ محض کوئی تخیلاتی اور تصوراتی چیز نہیں۔ بلکہ زندگی کا ایک ایسا سنہری اصول ہے جس کو تسلیم کر لینے کے بعد ، ذات پات کے سب داعیے اور جذبے بے معنی ہو جاتے ہیں۔ سلاسل طریقت۔۔۔ بالخصوص سلسلۂ چشتیہ محبت کی کارفرمایوں سے عبار ت ہے۔ مولانا رومؒ نے ایک مقام پر لکھا ہے کہ کائنات کشش ثقل سے نہیں بلکہ’’جذبۂ محبت‘‘کے سبب رواں دواں ہے۔ ہر ذرہ اپنے سے برتر ذرے کی طرف کھنچ رہا ہے اور اپنی نفی کرتے ہوئے اپنے سے بہتر شکل شکل میں ڈھلتا چلا جا رہا ہے۔ سلسلۂ چشتیہ کے بانی خواجہ ابو اسحاق شام کے رہنے والے تھے، اپنے وطن سے چل کر بغداد آئے اور حضرت علو دینوریؒ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ خواجہ دینوریؒ اپنے زمانے کے بلند پایہ بزرگ تھے، عقیدت مندوں کا انبوہ کثیر ان کی خدمت میں حاضر رہتا۔ خواجہ فرید الدین عطارؒ نے ’’تذکرۃ الاولیائ‘‘اور مولانا عبدالرحمن جامی نے ’’نفحات الانس‘‘میں ان کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ اپنی خانقاہ کا دروازہ عموماً بند رکھتے تھے ، جب کوئی آتا تو پوچھتے مسافر ہو یا مقیم؟ پھر فرماتے اگر مقیم ہو تو اس خانقاہ میں آجاؤ، اگر مسافر ہو تو یہ خانقاہ تمہاری جگہ نہیں،چونکہ تم چند روز یہاں رہو گے تو مجھے تم سے محبت اور اُنس ہو جائے گا اور پھر تم جانا چاہو گے تو مجھ سے بُعد اور فراق برداشت نہیں ہوگا۔حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ محبتوں کے اسی دبستان کے امین اور نگہبان تھے، جن کے لیے اقبالؒ یوں گویا ہوئے : ہمیشہ صورت بادِ سحر آوارہ رہتا ہوں محبت میں ہے منزل سے بھی خوشتر جادۂ پیمائی دل بیتاب جا پہنچا دیارِ پیرِ سنجرؒ میں میسر ہے جہاں درمان درد ناشکیبائی ابھی نا آشنائے لب تھا حرف آرزو میرا زباں ہونے کو تھی منت پذیرتاب گویائی