بعض اوقات کوئی بہت فضول اور عامیانہ سا لطیفہ کسی صورت حال پر یوں منطبق ہوتا ہے کہ مجبوراً اس کا حوالہ دینا ہی پڑتا ہے۔ لطیفہ کچھ یوں ہے کہ ایک نامور کبڈی کے کھلاڑی کی بیوی نے عدالت میں اس کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا کہ حضور میرے خاوند میں وہ خصوصیات مفقود ہیں جو ایک مرد میں ہونی چاہئیں اس لئے میں اس سے طلاق حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ جج نے حیران ہو کر کہا کہ بی بی آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ آپ کا خاوند تو بہت تنومند کبڈی کا کھلاڑی ہے۔ اس پر اس کی بیوی نے افسردہ ہو کر کہا کہ جج صاحب یہی تو پرابلم ہے۔ کمبخت آتا ہے اور ہاتھ لگا کر بھاگ جاتا ہے۔ آپ کو ظاہر ہے یاد آ گیا ہو گا کہ ہاتھ لگا کر کون بھاگ جاتا ہے بلکہ ہاتھ بھی کہاں لگایا‘ آیا اور بھاگ گیا۔ حضور کچھ دیر تو ٹھہرتے۔ ہم آپ کی مناسب تواضع کرتے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہم کیسے بن بلائے مہمان کی تواضع کرتے ہیں۔ ستمبر 65ء میں بھی تو آپ آئے تھے۔ یعنی بین الاقوامی سرحد عبور کر کے اور وہ بھی ہوائوں میں آپ آئے اور فوراً ہی پلٹ بھی گئے۔ جاتے ہوئے اپنے حمل کا بوجھ گراتے گئے جس سے کم از کم ایک درخت جڑ سے اکھڑ گیا۔ میرا خیال ہے آپ اس آنے جانے کو ‘جیسے ایک بندر نے بھی جنگ کی تیاری کرنے کے لئے بہت آنیاں جانیاں کی تھیں‘ آپ لوگ شاید اسے ’’سرجیکل سٹرائک‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک پاگل آپ کے گلے پڑ جاتا ہے۔ اینٹ اٹھا کر آپ کو مارنے آتا ہے تو آپ کا ردعمل کیا ہونا چاہیے۔اگر تو آپ بھی اس کے گلے پڑ جاتے ہیں تو آپ میں اور اس میں کیا فرق رہ گیا اور اگر آپ اسے کچھ نہیں کہتے تو وہ مزید دلیر ہو جائے گا چنانچہ اس کا مناسب سدباب قانونی طور پر جائز ٹھہرتا ہے اور یاد رکھیے یہ کوئی عام سا پاگل نہیں ہے۔ ایک مذہبی جنونی پاگل ہے اور ذات کا بنیا ہے جو پاگل ہونے کے باوجود گانٹھ کا پکا ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ کہیں کسی بازار میں دو دکانیں ساتھ ساتھ تھیں۔ ایک دکاندار کا بیٹا دوسری دکان سے چیزیں اٹھا اٹھا کر اپنی دکان میں پھینک دیتا تھا اور جب شکائت کی گئی تو اس کے باپ نے کہا اسے معاف کر دیجیے یہ پاگل ہے تو دوسری دکان والے نے کہا کہ اگر یہ پاگل ہے تو اپنی دکان سے چیزیں اٹھا کر میری دکان میں کیوں نہیں پھینکتا تو اس کے باپ نے جواب دیا کہ اب یہ اتنا پاگل بھی نہیں ہے۔ چنانچہ ہندوستان اتنا پاگل بھی نہیں ہے۔ ایسے پاگلوں یعنی دیوانہ بہ کار خویش ہوشیار است جیسے پاگلوں کا مناسب طریقے سے مکّو ٹھپنا از حد ضروری ہوتا ہے۔ ویسے میں یہاں پاکستانی میڈیا کی ہوش مندی اور متانت کو سلام کرتا ہوں اور ان کی برداشت کی داد دیتا ہوں۔ ہمارا میڈیا انڈین میڈیا کی مانند بائولا نہیں ہو گیا۔ ورنہ ان میں اور ہم میں کیا فرق رہ جائے گا۔ میں بار بار کہتا ہوں کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہوتی۔ باہمی بربادی کا سامان ہوتی ہے۔ لیکن اگر جنگ ایک پرامن قوم پر تھوپ دی جائے۔ اسے مجبور کر دیا جائے تو پھر وہ قوم پلٹ کر جب جھپٹتی ہے تو اس کے سامنے جارحیت کے بھیڑیے ٹھہر نہیں سکتے۔ تب وہ دُم دبا کر بھاگنے کے قابل بھی نہیں رہتے۔ کچھ برس پیشتر مجھے دلی میں سارک ادیبوں کی ایک کانفرنس میں مدعو کیا گیا۔ ہمارے وفد میں احمد فراز‘ انور سجاد‘ کشور ناہید‘ انوار احمد اور جاوید شاہین بھی شامل تھے افتتاحی اجلاس کے بعد میڈیا کے غول آ گئے۔ درجنوں میزبان صرف پاکستانی ادیبوں کے ساتھ گفتگو کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک نہائت بھولی بھالی دکھائی دیتی معنک لڑکی مائک تھامے میرے پیچھے پیچھے چلی آتی تھی۔ میں اس کی معصومیت سے بہت متاثر ہوا اور وعدہ کیا کہ لنچ کے بعد میں اسے انٹرویو کا وقت دوں گا۔ پچھلے پہر جب کیمرے آن ہوئے اور اس بھولی بھالی دکھائی دیتی لڑکی نے مجھ سے سوال کرنے شروع کئے تو اس کی شکل ہی بدل گئی۔ اس کے منہ سے سوال نہیں سنپولئے نکلنے لگے اور اس کی عینک کے پیچھے اس کی آنکھیں شعلہ بار ہونے لگیں۔ پاکستان اس خطے کی سلامتی کا دشمن ہے۔ پاکستان انڈیا کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کی فوج ‘ پاکستان پاکستان‘ میں تو حیران رہ گیا کہ اس خاتون کو ہو کیا گیا ہے۔ میں نے ایک دو مرتبہ درخواست کی کہ بی بی میں ایک پاکستانی ادیب ہوں آپ ادب کی بات کیجیے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ادیبوں کے ذریعے امن اور شانتی کی بات کیجیے پر وہ بی بی تو زہر اگلتی رہی۔ تب میں نے بھی اس کی بدزبانی کا قلع قمع کرنے کی ٹھان لی۔ کہنے لگی‘ آپ نے مقبوضہ کشمیر میں آزادی رائے کو سلب کر رکھا ہے اور وہ ماشاء اللہ آزاد کشمیر کو مقبوضہ کشمیر کہے جا رہی تھی۔ تب میں نے کہا کہ بی بی ذرا ڈکشنری میں دیکھیے کہ آکو پائڈ کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ کسی خطے پر فوج کے ذریعے قابض ہونا۔ ہمارے کشمیر میں‘ اس کے کسی شہر یا قصبے میں فوج گشت نہیں کرتی۔ گولیاں نہیں چلاتی۔ قبرستان آباد نہیں کرتی۔ صرف سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے تو آپ کے کشمیر میں دس لاکھ فوجی جو ظلم کر رہے ہیں اس کا کیا جواز ہے تو کہنے لگی وہ تو دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہے اور جب اس نے بار بار کہا کہ پاکستان‘ ہندوستان کو تباہ کرنا چاہتا ہے اس لئے کہ ہم ترقی کر رہے ہیں۔ سپر پاور بن رہے ہیں اور پاکستان کے عزائم بہت خطرناک ہیں۔ یہ ایک ملٹری سٹیٹ ہے جو ہماری جمہوریت کو اور انڈیا کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ چونکہ میں خود ایک مدت تک میڈیا میں کام کرتا چلا آیا تھا اور میں جانتا تھا کہ یہ بی بی مجھے اشتعال دلانا چاہتی ہے تو میں نے نہائت تحمل سے اور مسکراتے ہوئے کہا کہ دیکھیں ہمارا اور آپ کا کیا مقابلہ ۔ آپ ہم سے کیوں خوفزدہ ہیں۔ انڈیا بہت بڑی طاقت ہے۔ آپ ہم سے پانچ گنا بڑے ہیں۔ فوج‘ ایئر فورس اور نیوی آپ کی جدید ترین ہے اور ہماری مسلح صلاحیت سے کم از کم پانچ گنا بڑی ہے۔ یوں جانیئے کہ آپ تو ماشاء اللہ ایک ہاتھی ہیں اور آپ کے سامنے ہم ایک چھوٹی سی چڑیا ہیں۔ بھلا ہاتھی اور چڑیا کا کیا مقابلہ۔ اس بیان پر بی بی کی باچھیں کھل گئیں۔ کہنے لگی ۔ شکر ہے آپ کو اپنی حیثیت کا اندازہ ہو گیا ہے۔ میں نے سر ہلاتے ہوئے اقرار کیا اور پھر اس سے پوچھا کہ کیا آپ جانتی ہیں کہ آپ کا ہاتھی ہماری چڑیا سے کیوں خوفزدہ ہے؟ دراصل آپ کے ہاتھی کے اندر ایک چڑیا کا دل ہے اور ہماری چڑیا کے اندر ایک ہاتھی کا دل ہے۔ اس لئے آپ ہم سے ڈرتے رہتے ہیں اور اس میں آپ کی بہتری ہے کہ آپ ہم سے ڈرتے رہیے۔ بہت بہت شکریہ۔ یہ انٹرویو بقول اس بی بی کے لائیو نشر ہو رہا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے آخری فقرے نشر ہوئے یا نہیں۔ ابھی ابھی جب کہ میں یہ کالم تحریر کر رہا تھا نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے چینلز پر خبر آ رہی ہے کہ چڑیا نے ہاتھی کی گوشمالی کر دی ہے اور ہماری ایئر فورس ایک مرتبہ پھر 1965ء کی ایئر فورس کی مانند ان کے ہلواڑے کا کباڑہ کر چکی ہے۔ سکرین پر ہندوستانی ایئر فورس کا گرفتار پائلٹ اپنے نام اور رینک کا اقرار کر رہا ہے۔ ہندوستان کی جارحیت کا زندہ ثبوت پوری دنیا کے سامنے ہے۔ دیکھیں ہندوستان اس کا دفاع کیسے کرتا ہے۔ اپنی ایئر فورس کے پائلٹوں کا پاکستانیوں کی قید میں آ جانے کا جواز کیا پیش کرتا ہے اس فاتحانہ برتری کے باوجود پاکستان پھر بھی جنگ سے گریز کرنے کا پیغام دے رہا ہے۔ اگر ہندوستان اس عظیم ہزیمت کے جواب میں پھر کوئی حماقت کرتا ہے تو پھر اس کے پاگل پن میں کچھ شک نہیں۔ بیل نے ایک مرتبہ آپ کو مار گرایا ہے۔ دوبارہ اگر آپ پھر کہیں گے کہ۔ آ بیل مجھے مار۔ تو بیل پھر آپ کی خواہش پوری کر دے گا ایئر فورس کے لئے یعنی پاکستانی ایئر فورس کے لئے میں صرف یہ کہوں گا کہ: دشمن دیاں فوجاں آئیاں سَن ساڈھے غازیاں مار مکائیاں نیں