مستقل مزاجی اور ثابت قدمی وہ اوصاف ہیں جو قوموں کو اوج ثریا تک لے جاتے ہیں۔ یہی قانون فطرت ہے۔ یہی ارشاد باری تعالیٰ ہے جو سورہ آل عمران میں نازل فرمایا گیا ہے! ’’پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو۔‘‘ جو قومیں قدم قدم پر راستہ بدل لیتی ہیں وہ کبھی منزل مقصود پر نہیں پہنچتیں۔ راستے ہی میں بار بار بھٹک جاتی ہیں۔ جو قومیں جہانبانی و حکمرانی جیسے سنجیدہ و ذمہ دارانہ کام کو بازیچہ اطفال بنا دیتی ہیں وہ آگے بڑھنے کی بجائے بار بار آپس کی بحثوں اور الزام تراشیوں میں الجھ جاتی ہیں۔ دنیا پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ہر قوم نے اپنے زمینی حقائق اور ضروریات کے مطابق اپنے لئے ایک نظام اتفاق رائے سے وضع کر لیا ہے اور پھر وہ ناک کی سیدھ میں اس راستے پر آگے سے آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ برطانیہ میں جمہوریت کا تصور تیرھویں صدی میں آ گیا تھا مگر اٹھارویں صدی کے آغاز سے جو پارلیمانی نظام قائم کیا گیا ہے وہ آج تک قائم ہے۔ اس نظام کے تحت بادشاہ یا ملکہ ریاست کی سربراہ جبکہ وزیر اعظم حکومت کا سربراہ ہو۔ یہی صورت حال امریکہ کی ہے وہاں بھی آپس کی کھینچا تانی اور مہم جوئی کے بعد جب سیاست دان سر جوڑ کر بیٹھے تو انہوں نے ایک ایسا دستور وضع کیا جس کے مطابق ملک کے تین اداروں کو اپنے اپنے دائرے میں حکمرانی کا حق حاصل ہو گیا۔ ایک صدر‘ دوسرے کانگریس اور تیسرے فیڈرل کورٹ۔ اٹھارہویں صدی کے اوائل میں جارج واشنگٹن امریکہ کے پہلے صدر منتخب ہوئے اور آج 21ویں صدی میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر ہیں۔ ایک لگا بندھا طریقہ‘ ایک متعین راستہ جس پر امریکی قوم صدیوں سے چلتی چلی جا رہی ہے۔ اگر صدر امریکہ اپنی حدود و قیود سے ماورا کچھ من مانی کرنے کا عندیہ ظاہر کرتا ہے تو کانگریس اس کا راستہ روک لیتی ہے اور اگر یہ دونوں ادارے مل کر دستور شکنی کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دیں تو پھر فیڈرل کورٹ اپنا کردار ادا کرتا ہے وہ کسی ادارے کو آئینی راستے نہیں ہٹنے دیتا۔ پڑوسی ملک میں پارلیمانی نظام گزشتہ ستر برس سے کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے اور ہر طرح کی مہم جوئی سے محفوظ ہے۔ ہمارا شاید قومی مزاج ایسا ہے کہ جو حکمران آتا ہے وہ اپنی حدود و قیود کو پس پشت ڈال کر کچھ نیاکرنا چاہتا ہے اور یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ وہ عوامی فلاح و بہبود کے لئے جو کچھ کر رہا ہے وہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہو رہا ہے۔ جس زمانے میں روس اور چین جیسے کمیونسٹ اور سوشلسٹ ممالک نے یہ سمجھنا شروع کر دیا تھا کہ صنعتوں کو چلانا حکومتوں اور سرکاری اداروں کا نہیں پرائیویٹ شعبے کا کام ہے اس زمانے یعنی جنوری 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے پہلے مرحلے پر آئرن‘ سٹیل‘ کیمیکل اور انجینئرنگ کی 32ہیوی صنعتوں کو قومیا لیا۔ ان میں وہ پرائیویٹ صنعتیں بھی شامل تھیں جو چین اور کوریا جیسے شاہراہ ترقی پر تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے ممالک کے لئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی تھیں۔ اگلے تین چار سالوں میں بھٹو نے ہیوی ہی نہیں چھوٹی چھوٹی صنعتوں اور فیکٹریوں کو بھی نیشنلائز کر لیا جن میں ویجی ٹیبل گھی‘ آئل‘ گیس‘ رائس‘ کاٹن اور فلور ملز تک شامل تھیں۔ حتی کہ بنکوں کو بھی قومی تحویل میں لے لیا گیا۔ یوں یہ صنعتیں صنعت کاروں اور تاجروں کی تحویل سے نکل کر ناتجربہ کار بیوروکریسی کے پاس آ گئیں جن کو صنعت و حرفت کی الف ب کے بارے میں کچھ علم نہ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکمرانی کے بعد کچھ صنعتیں اور ادارے نجی شعبے کو واپس مل گئے مگر اس دوران ناقابل تلافی نقصان ہو چکا تھا۔ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایسا اس لئے ہوتا ہے کیونکہ جمہوری ملکوں میں اجتماعی دانش پر بھروسہ کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے حکمرانوں کو جمہوریت کے باوجود ’’ون مین شو‘‘کا چسکا اور اپنی ذاتی شہرت کا ہو کا ہے۔ جناب عمران خان کے بلند بانگ دعوئوں کی بنیاد پر قوم بالخصوص نوجوان طبقے نے بڑی امیدیں وابستہ کر لیں تھیں مگر صرف آٹھ ماہ میں خان صاحب نے اپنی حکومت کا خود ہی ’’تختہ الٹ دیا ہے‘‘۔ خان صاحب کرکٹ کی دنیا کے شہنشاہ ہیں کیا کسی ایک میچ میں کسی کھلاڑی کی حسب توقع پرفارمنس نہ سامنے آنے پر اسے یک بینی و دوگوش ٹیم سے نکال دیا جاتا ہے۔ اسد عمر تحریک انصاف کے ماتھے کا جھومر تھے مگر : بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے اگر خان صاحب ون میں شو کے بجائے اجتماعی دانش پر اعتماد کرتے تو آج معیشت کی یہ حالت نہ ہوتی۔ خان صاحب کے حوصلے کی بہرحال داد دینا پڑے گی۔ کتنا حوصلہ ہارے ہوئے انسان میں ہے پہلی اننگز میں کپتان‘ اوپننگ بیٹسمین اور ساری ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے باوجود خان صاحب کی اپوزیشن کے خلاف گھن گرج میں کمی نہیں اضافہ ہوا ہے۔ یہ تو وہ موقع تھا کہ جب خان صاحب کو اپوزیشن کی نہیں اپنے گھر کی خبر لینا چاہیے تھی۔ اب تو انہیں بگڑتی ہوئی معیشت کے لئے حزب اختلاف سمیت ساری قوم کی سپورٹ لینا چاہیے تھی اور جب انہیں مہنگائی کے ہاتھوں دم توڑتے ہوئے غریب طبقے کی خبر گیری اور دلجوئی کرنا چاہیے تھی۔ دنیا کے بڑے بڑے ممالک میں ایک نہیں کئی سیلبرٹیز ہوتی ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ سائنس‘ ادب یا سپورٹس سے متعلقہ سیلبرٹی کو ملک کی باگ ڈور تھما دی جائے تو وہ شخصیت کامیابی کے جھنڈے گاڑے گی۔ ایسا ممکن نہیں۔ ہر شعبے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ بعض حضرات جناب خان صاحب کی محبت میں غلو کی حد کو چھو رہے ہیں اس لئے ان کا خیال ہے کہ خان صاحب کی پہلی اننگز میں ناکامی ان کی نہیں پارلیمانی نظام کی ناکامی ہے۔ اس لئے صدارتی نظام لائیں۔ سیاست کی گلیاں خاں صاحب کے اعزاز میں پہلے ہی سنجیاں ہو گئی ہیں اور اوپر سے خان صاحب صدارتی نظام کا علم تھام کر ان سونی گلیوں میں پھریں گے تو ہر طرف ہریالی ہی ہریالی اور خوشحالی ہی خوشحالی ہو جائے گی۔ ہم نہایت ادب سے عرض کریں گے۔ ع ایں خیاں است و محال است و جنوں خرابی نظام میں نہیں افراد میں ہوتی ہے۔ ان شتر بے مہار سیاست دانوں کو مختار کل بنا دیں تو یہ عوام کو زندہ درگور کر دیں گے۔ ہم نے 1956ء کا متفقہ دستور توڑکر فرد واحد کی مرضی کا صدارتی نظام نافذ کر دیا اور مشرقی پاکستان گنوا دیا مگر سبق نہیں سیکھا۔ دنیا میں دستور قوموں کو دیکھ کر بنائے جاتے ہیں ہمارے جغرافیائی ‘ ثقافتی اور سماجی حالات کے لئے پارلیمانی حکومت ہی بہترین جمہوری سیاسی نظام ہے۔ اسی لئے ساری سیاسی پارٹیوں نے متفق و متحد ہو کر قوم کو 1973ء کے پارلیمانی آئین کا تحفہ دیا۔ اس دستور کی بنیادی ہئیت میں تبدیلی کی کوئی کوشش آئین شکنی کے مترادف سمجھی جاتی ہے۔ ہم تو خیر نرالے لوگ ہیں مگر بالغ نظر قومیں غیر ضروری بحثوں سے اجتناب کرتی ہیں۔