وِچ روھی دے رَہندیاں نازک نازو جَٹّیاں راتیں کرن شکار دِلیں دے،ڈیہاں ولوڑنڑ مَٹّیاں سرائیکی زبان کے صوفی شاعر حضرت خواجہ فرید کی یہ کافی روھی چولستان میں بسنے والی عورت کی نزاکت اور محنت کش طبیعت کی تصویر کشی کرتی ہے اور ساتھ ہی اس صنفِ نازک نازو سے محبت اور احترام کی دعوت دیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ شاید سیّد خانوادے سے تعلق ہونے کے باعث،ہمارے گھر میں ہمیشہ سے صْوفیا و اولیائے کرام سے عقیدت کا خاص ماحول رہا ہے۔میرے سرائیکی وسیب میں تو یوں بھی خواجہ صاحب کی شاعری منّتوں مْرادوں کی شاعری مانی جاتی ہے۔ میرے ابوجی پر اس طلسماتی صحرائی ثقافت کا گہرا اثر تھا جو وراثت میں ہمیں منتقل ہوا،ان کی ابتدائی تعلیم صادق پبلک سکول سے شروع ہوئی اور شعبہ طب سے وابستگی کی آخری سند بھی انہوں نے بہاول پور شہر سے ہی حاصل کی۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن سے ہی میرے ابو جی خاندان کی چھوٹی چھوٹی محفلوں اور کبھی تنہائی میں بھی اس کافی کو گاتے اور گنگناتے ہوئے پائے جاتے سو غیر محسوس طور پر اس نے میرے لاشعور و تحت الشعور میں بسیرا کر لیا سو آج بھی عورت کا تخیّلاتی و حقیقی مجسمہ نازک نازو جٹّی جیسا ہی بنا رہتا ہے لیکن اب جو عہدِ نامہرباں آن لگا ہے اس میں جہاں اور بہت سی قدریں پامال ہوئیں وہاں عورت کا احترام بھی دائو پر لگ گیا۔ اس ساری کتھا کا ربط اْس خبر سے جْڑا ہوا ہے جو ایک سے زائد اخبارات میں پڑھی۔ خبر یہ تھی کہ بہاول پور میں ایک دسویں جماعت کی طالبہ کو دن دھاڑے مصروف شاہراہ سے اغوا کر لیا گیا اور پھر چار درندوں نے رات بھر جانے کس بربریت کا مظاہرہ کیا کہ صبح اس لڑکی کی لاش ایک چوبارے سے ملی وہ بھی گھر والوں کی شب بھر کی کھوج کے بعدمقامی پولیس کی مدد سے۔ مگر حسبِ معمول مجرمان موقع واردات سے فرار ہو گئے اور اب تو تمام لین دین کے بعد نہ صرف پوسٹ مارٹم رپورٹ تبدیل ہو چکی ہے بلکہ کیس بھی داخل دفتر ہونے کوہی وجہ وہی کہ مقتولہ غریب کی بیٹی ہے۔ یہ خبر پڑھتے ہی جانے کیوں یہ خیال آیا کہ یہ سرزمینِ تو خواجہ صاحب کے افکار کی روشنی سے سجی سجائی تھی تو کیا اب یہ بھی درندوں کی جنّت بنتی جا رہی ہے۔ اگر آج پیر و مْرشد اپنی رنگ رنگیلڑی روہی کو مقتل میں بدلتا دیکھ کر کیسے کیسے نہ ملول ہوتے۔ ایسے ہی مظالم باباجی بلّھے شاہ کے شہر قصور کی ننھی بیٹیوں اور کم عمر بیٹوں پر ایک مدّت سے ٹوٹ رہے ہیں۔ زینب سمیت چند بچیوں کو تو ان کے مجرم کی پھانسی کی شکل میں آدھا ادھورا انصاف مل گیا ہے۔ لیکن اْن بچوں کا کیا مستقبل ہے جن کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں کی وڈیوز بطور ثبوت عدالت میں پیش کئے جانے کے باوجود اتنے برس سے نظامِ عدل تقریباً خاموش ہے اور درندے دندناتے پھرتے ہیں۔۔اب کون صاحبِ عدل چیف جسٹس صاحب سے سوال کرنے کی جسارت کرے کہ صاحبِ اعلیٰ کب آپ کی نظر اس کیس پر پڑے گی ؟ لگتا ہے کہ اب دریائوں کے کناروں پر آباد ان شہروں کی پہچان صوفیا و اولیا کی نسبت سے نہیں بلکہ ان پر برپا ہونے والے ہولناک سانحوں سے ہوگی۔۔ سچّے انسانیت پرست مْنّو بھائی نے اک بار اپنی نظم میں دھائی دی تھی کہ، چِٹّے وَرقے دَین شہادت کالی شاہ جہالت دی سچّل وعدہ معاف گواہی، نئیں رہی لوڑ وکالت دی غصّے دے نال تھر تھر کنبے کْرسی عرش عدالت دی پر اَجے قیامت نئیں آئی کبھی کبھی لگتا ہے جیسے بدقسمتی سے غیر مْسلم معاشرے انسانوں کے لیے زیادہ محفوظ ہیں کہ دن ہو یا رات خوف کا عفریت اپنی گرفت میں نہیں لیے رکھتا بلکہ پْورے اعتماد کے ساتھ وقت کی قید سے آزاد ہو کر لوگ اپنے فرائض کی بجا آوری کرتے ہیں شاید تبھی معاشرے کیلئے نسبتاً بہتر اور مْفید انسان بن کر سامنے آتے ہیں۔ یہ ہم تارکینِ وطن کی جانب سے کی گئی تنقید نہیں بلکہ حسرت ہے کہ کاش پاکستان کی پیشانی بھی اسی طرح خیر کی روشنی سے چمکتی ہوئی دکھائی دے۔ اگرچہ یہ خاصی اْمید افزا بات ہے کہ حکومتی سطح پر بھی صاف و سرسبز پاکستان کی مہم کا آغاز ہوا ہے۔ بظاہر یہ خاصی رومانوی سی تحریک لگتی ہے مگر اس کے اثرات بے حد موثر ہو سکتے ہیں۔ جس طرح ستھرے ذہن اپنے گرد و نوح کو ستھرا دیکھنا چاہتے ہیں اسی طرح صاف و شفاف گردو نواح کے اثرات بھی انسانی ذہن پر بہت مثبت ہوتے ہیں۔ حیرت تو تب ہوئی کہ اس صفائی مہم پر مولانا فضل الرحمن تڑپ اْٹھے جبکہ اسلامی نقطہ نگاہ سے انہیں کم از کم ایسے اقدامات پر تو انہیں سیاسی عناد کو نظرانداز کردینا چاہیے کہ یہ اقدارِ اسلامی کی عین تقلید ہے۔ لیکن کیا کِیا جائے کہ موصوف کی روح اتنی سیاسی ہو چکی ہے کہ سِوائے سیاست کچھ سْوجھتا ہی نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ’’مولانا‘‘ کہلانے کے حقدار صرف وہی ہوتے ہیں جو علمِ دین کو عام کریں، ان کی گفتار، کردار اور معیار سب اس کے عکّاس ہوتے ہیں۔ لیکن بہت معذرت کے ساتھ ہمارے فضل الرحمن صاحب کی انفرادیت ہے کہ شاید ہی کبھی علمِ دین کی بات کریں لیکن کہلائیں گے ’’مولانا‘‘۔۔ خیر یہ ان کی صوابدید پر ہے آخر وہ خود کو ’’عمران خان‘‘ کہلانے سے تو رہے۔ صوابدیدی اختیارات کا استعمال تو قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے بھی کیا جس کے نتیجہ میں تہہ در تہہ کرپشن کے الزامات میں نیب کے زیرِ حراست جسمانی ریمانڈ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف پارلیمنٹ تشریف لائے بس پھر کیا تھا وہ پوری دِلسوزی سوا گھنٹے تک ’’سیاسی انتقام‘‘ کا راگ بھیروی الاپتے رہے۔ سمع خراشی تو جانے کس کس کی ہوئی لیکن ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کا اعتراف صرف خورشید شاہ نے کیا۔ بعد ازاں پارلیمنٹ کے باہر سر جوڑ کر بیٹھے شہباز شریف اور خورشید شاہ کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر خاصی وائرل ہوئی جسے دیکھ کر ایک شعر یاد آجاتا ہے: آ عندلیب مِل کے کریں آہ و زاریاں تْو ہائے گْل پْکار، مَیں چلّائوں ہائے دل