گزشتہ سال 15اگست کو کابل پر طالبان کے قبضہ ہونے اور بالآخر 31 اگست کو اَمریکہ اور نیٹو کی افواج کے افغانستان سے اِنخلا کے بعد طالبان اور اِمریکہ کے مابین بیس سال سے افغانستان میں جاری لڑائی ختم ہوگئی۔ اگرچہ جنگ اور قبضہ ختم ہو چکا ہے مگر افغانستان میں معاملات مکمل طور پر حل نہیں ہو ئے جنکی ذمہ داری اَمریکہ اور طالبان سمیت دونوں فریقین پر ہے۔ اس سال 2 اگست کو صدر جو بائیڈن نے القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو کابل میں انکے ٹھکانے پر ڈرون حملے میں ہلاک کرنے کا اعلان کیا، الظواہری 11 ستمبر 2001 کو امریکا میں ہونے والے حملوں کے مشتبہ ماسٹر مائنڈ تصور کیے جاتے ہیں۔ اِسی طرح 10 اگست کو طالبان کے ایک سرکردہ مذہبی رہنما شیخ رحیم اللہ حقانی کابل میں ایک مدرسے میں ہونے والے بم حملے میں مارے گئے ہیں۔ مانیٹرنگ گروپ SITE نے داعش کے ایک بیان کا ترجمہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حقانی "طالبان کے ان نامور حامیوں میں سے ایک تھے جنہوں نے طالبان کو داعش سے لڑنے کے لیے اکسایا تھا"۔ خودکش حملے کے اگلے دن داعش نے اپنے ٹیلیگرام چینلز پر حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ حالیہ مہینوں میں مسلح گروہوں کی طرف سے باقاعدہ حملے ہوئے ہیں اور پورے افغانستان میں مساجد اور اقلیتوں پر حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جن میں سے اکثر کی ذمہ داری داعش سے وابستہ ایک گروہ جسے، ISKP یا ISIS-K کہا جاتا ہے نے قبول کی ہے۔ جون میں، آئی ایس کے پی نے کابل میں سکھوں کے ایک مندر پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، جس میں دو افراد ہلاک ہوئے تھے- آئی ایس کے پی، داعش سے وابستہ تنظیم ہے جو 2014 سے افغانستان میں کام کر رہی ہے، اور اِس تنظیم کو اَفغانستان کی طالبان حکومت کے سامنے سب سے بڑا سیکورٹی چیلنج سمجھا جاتا ہے۔ اِس وقت خارجی محاذ پر طالبان حکومت کا سب سے بڑا چیلنج مالی اِمداد کے ساتھ ساتھ عالمی برادری باالخصوص امریکہ سے اپنی حکومت کی de facto recognition حاصل کرنا کیونکہ موجودہ حالات میں بین الاقوامی اِمداد کے بغیر افغانستان میں معاشی طور مستحکم نہیں لایا جا سکتا اور اس کے لیے ملکی اور بین الاقوامی محاذ پر قانونی جواز ضروری ہے۔ اِس سال اکتیس اگست کو افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاکو ایک سال مکمل ہوجائے گا تاہم نہ ہی افغانستان میں معاملات مکمل طور پر حل ہوئے ہیں اور نہ ہی افغان عوام کو بہتر سہولتیں میسر ہوسکی ہیں۔ افغانستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ گذشتہ ایک صدی سے وہ عالمی طاقتوں کے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے میدانِ جنگ بنا رہا ہے۔ کبھی برطانیہ اور روس کی باہمی کشمکش اور کبھی امریکہ اور سوویت یونین کے مابین اثرورسوخ اور مفادات کے ٹکراؤ کے لیے میدانِ کارزار بنا رہا ہے۔ اب جبکہ افغانستان میں طالبان کواپنا اِقتدار قائم کیے ایک سال مکمل ہوچکا ہے اور انہوں نے عالمی برادری کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ بنیادی اِنسانی حقوق سمیت بین الاقوامی قانون کے عالمی طور پر قبول شدہ اصول و ضوابط کو اپنی بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں کے طور پر پورا کریں گے تو جہاں ایک طرف طالبان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی کمٹمنٹس پوری کریں تو دوسری طرف عالمی برادری کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ اِنسانی بحران اور خصوصی طور پر غذائی اور اجناس کے بحران سے نمٹنے کے لیے افغان عوام کی اِمداد کرے۔ غذائی تحفظ کا مسئلہ بہت نازک ہے کیونکہ افغانستان پہلے ہی خوراک کی شدید قلت کا سامنا کر رہا ہے اور اسے بڑے پیمانے پر قحط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق موسم گرما میں شدید خشک سالی نے افغانستان میں لاکھوں کسانوں کو متاثر کیا ہے۔ اَگرچہ گزشتہ اکتوبر میں، اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے تحت ایک عوامی اقتصادی فنڈ کے قیام کا اعلان کیا گیا لیکن اس سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر وسائل کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ طالبان کو ملک چلانے کے لیے سرمائے اور فنانس کی ضرورت ہے۔ میڈیا کی اِطلاعات کے مطابق، اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے وقت، اَفغانستان کے مرکزی بینک، دا اَفغانستان بینک (ڈی اے بی) کے پاس غیر ملکی کرنسی ، سونے اور دیگر صورتوں میں 9 بلین ڈالر کے زرِ مبادلہ کے مجموعی ذخائر موجود تھے جن میں سے بیشتر اثاثے افغانستان سے باہر رکھے گئے تھے جو ایک سال گزرنے کے باوجود طالبان حکومت کو نہیں دیئے گئے۔ ترقی پذیر ملکوں کے مرکزی بینک بیرون ملک اپنے اثاثے عموما فیڈرل ریزرو بینک آف نیویارک یا بینک آف انگلینڈ جیسے اداروں کے پاس رکھتے ہیں۔ عالمی طاقتوں باالخصوص امریکہ کو چاہیے کہ وہ افغانستان کے مرکزی بینک کے منجمد اثاثے بحال کردے تاکہ نگران طالبان حکومت کو صحت اور تعلیم کے شعبے میں درپیش مسائل کا خاتمہ ہو سکے۔ اِسی طرح افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور علاقائی طاقتیں اپنے ذاتی مفادات کے لیے افغانستان اور افغان عوام کی قربانی سے گریز کریں کیونکہ افغانستان میں امن و اِستحکام، سنٹرل ایشیائی ریاستوں سمیت تمام خطے میں علاقائی اِستحکام اور معاشی خوشحالی کو یقینی بنائے گا۔ مو جودہ صورتحال میں خود طالبان کے لیے اہم سبق یہ ہے کہ وہ بیانات سے نکل کر عملی اقدام اَٹھائیں اور عالمی برداری سے کئے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنائیں جن میں سب سے اہم قدم ایک ایسی حکومت کا قیام ہے جس میں ازبک اور تاجک سمیت تمام قومیتوں کی نمائیندگی شامل ہو جبکہ ان کی حکومت میں خواتین کے حقوق سمیت اِنسانی حقوق کو تحفظ حاصل ہو۔ طالبان کو یہ بھی سمجھنا چاہئیے کہ افغانستان میں بیس برس میں بہت ساری تبدیلیاں ظہور پزیر ہوچکی ہیں خاص طور پر کابل میں ایک پڑھی لکھی اور متحرک مڈل کلاس وجود میں آچکی ہے جو آزاد میڈیا کے دور میں پروان چڑھی ہے اور گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ملی ہوئی آزادی سے موجودہ سوشل میڈیا کے دور میں آسانی سے دستبردار نہیں ہو گی۔