کچھ لوگ نسل پرستی اور قوم پرستی کو ایک دوسرے کے ساتھ گڈمڈ کر دیتے ہیں حالانکہ نسل الگ چیز ہے اور قوم الگ، نسل کا تعلق جینز سے ہے اور قوم کا تعلق دھرتی سے، مختلف قوموں کے لوگ جہاں جہاں گئے اُسی قوم کا حصہ بن گئے جبکہ نسلی طور پر وہ اپنا ناطہ اپنے سابقہ حسب و نسب سے جوڑتے ہیں، جیسا کہ جی ایم سید نسلی طور پر عرب ہیں جبکہ جغرافیہ کے حوالے سے وہ سندھی قوم پرست ٹھہرے، کچھ لوگ ایم کیو ایم کے الطاف حسین کو قوم پرست کا نام دیتے ہیں حالانکہ پوری دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کرکے دیکھیں مہاجر کوئی قوم نہیں ہے، الطاف حسین نے قوم پرستوں کے مقابلے میں خود کو حق پرست کہلوایا، کچھ لوگ سرائیکی وسیب کے حقوق اور صوبے کی تحریک کو سبوتاژ کرنے کیلئے یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ سرائیکی تحریک کا کوئی وجود نہیں حالانکہ اُن کا یہ کہنا بھی دراصل سرائیکی تحریک کے وجود کو ظاہر کر رہا ہوتا ہے۔دھرتی اور اُس کی ثقافت کا تعلق فطرت سے ہے، فطری طور پر جو لوگ اپنی دھرتی، اپنے خطے اور اس کی ثقافت سے محبت کرتے ہیں وہ عظیم لوگ ہوتے ہیں، البتہ نسلی تفاخر و تعصب نا پسندیدہ ہے۔ کچھ لوگ بہانے بہانے سے محکوم طبقات کی تحریک کو دبانے کیلئے غلط تاویلات کا سہارا لیتے ہیں، اس سلسلے میں میں عرض کروں گا کہ ایک معرکۃ الآراء کتاب ’’ انسانیت پہچان کی دہلیز پر ‘‘ حال ہی میں ادارہ ادبیات اسلامیہ ملتان کی طرف سے شائع ہوئی۔ کتاب کا موضوع زبان اور قومیت ہے ،کتاب کے مصنف علامہ رحمت اللہ طارقؒ (شعبان ۱۲۴۶ھ۔ ۶ شعبان ۱۴۲۴ھ ) ہیں ۔ کتاب کا آغاز قرآن مجید فرقان حمید کی آیت سے ہوتا ہے۔ ترجمہ:’’ جو لوگ استحصال اور جبر کے ہاتھوں ( اپنے ہی دیس میں ) بے بس و کمزور بنائے گئے ، ہم چاہتے ہیں کہ انہیں اُبھار کر پیشوائی عطا کریں اور ( اپنی ) سر زمین کا وارث بنائیں ۔ ‘‘ ( القصص۔ 5 ) ۔ کتاب کا انتساب سرکار رسالت مآبؐ کے نام سے اس طرح شروع ہوتا ہے ’’ انتساب ‘ محمد الرسول اللہ ؐ کے نام جنہوں نے کائنات بشری کو جہالت اور نکارت کی دلدل سے نکال کر تعارف کی ڈگر پر چلایا ۔جنہوں نے انسان جو کہ نسب اور قومیت کے بغیر ’’ نامعلوم ‘‘ اور مجہول تھا اسے قومیت اور زبان کے احاطے میں لا کر معلوم اور متعارف بنایا ۔ جنہوں نے مہاجرین اور انصار میں ضابطۂ اخوت قائم کر کے مہاجروں کو احساس دلایا کہ ’’ جذبہ و تحلیل ‘‘ سے ہی ہم آہنگی اور مفاہمت کے جذبات پروان چڑھ سکتے ہیں ۔ جنہوں نے انسانی نفسیات، ضروریات اور اخلاقیات کو مدنظر رکھتے ہوئے مدینہ کی طرف مہاجرین کی بڑھتی ہوئی یلغار کو ’’ لا ہجرۃ بعد الفتح ‘‘ کہہ کر ہمیشہ کیلئے مقامی ملک / علاقہ پر ناروا بوجھ کا خاتمہ فرما دیا ۔ جنہوں نے ’’ حب الوطنی من الایمان ‘‘ کا پیغام دیکر وطن سے محبت اور وابستگی کے فطری جذبے کو ایک نئی جِلا بخشی ۔ ’’ قرآں قومی تشخص کو لازمی قرار دیتا ہے اور قومیت کو ابہام میں رکھنے والے کی گواہی مسترد ہے ‘‘ کے عنوان سے مصنف راقم طراز ہیں کہ قوموں اور قومیتوں کے وجود کی نفی کرنے میں وہی لوگ پیش پیش ہیں جن کے مفادات اور حقوق محفوظ ہیں لیکن نفسیاتِ وحی کی نظر میں رکھنے والے بخوبی احساس کرتے ہیں کہ اسکے نزدیک ہر قوم اور قبیلہ اس انداز سے متعارف اور مختشخص ہو کہ دوسرا اسکی پہچان کی مسخ یا نفی نہ کر پائے ۔ فرمان الٰہی ہے ، ترجمہ: اے نوع انسان ! ہم نے عورت و مرد کے ملاپ سے تمہاری تخلیق کی اور پھرقوموں اور قبیلوں میں اس لئے تقسیم کیا کہ تم ( اپنے حقیقی تشخص کے ساتھ ) متعارف بنو اور متعارف رہو (الحجرات 13 )‘‘ ۔ ’’ قومیت اور زبان کے بابت قرآ ن کی مجموعی پالیسی‘‘ کے عنوان سے مصنف لکھتے ہیں کہ دنیا میں ہر چیز اپنے وصف سے پہچانی جاتی ہے۔ بغیر وصف کے نہ شخصیت تکمیل پاتی ہے اور نہ ہی قانونِ فطرت نے کسی کو ’’بے وصف ‘‘ پیدا کیا ہے۔ اس طرح وصف تخلیق کی نیچر میں شامل ہو جاتاہے۔ اب جہاں بھی وصف کو حذف کر دیا جائیگا وہاں تخلیق کا کمال ختم ہو کر ’’ نقص ‘‘ کا روپ دھار لے گا ۔ پرندے کا وصف اڑنا اور بہت سی دیگر مخلوقات کا وصف چلنا، تیرنا اور رینگنا ہے ۔ اس قاعدے کی رو سے انسان کے بھی کچھ اوصاف ہیں جو اس کے خمیر میں شامل اور اس کی شخصیت تکمیل کے اساسی عنصر ہیں ۔اس میں ’’ قوم ‘‘ بھی شامل ہے ، ’’ قومیت ‘‘ بھی ہے اور ’’لسانیت ‘‘ بھی ۔ کوئی بھی انسان بغیر قوم و قومیت کے کوئی بھی قوم بغیر زبان کے متعارف نہیں ہوئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ: ’’ ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس نے اپنی ہی قوم کی زبان میں بات کی ( سورہ ابراہیم 4 ) ‘‘ ۔ یعنی رسول وہی بنایا گیا جس کی قوم اور قومیت بھی تھی اور زبان بھی ۔ گو کہ وہ ابھی ایمان نہ لائے تھے مگر پھر بھی قوم تھے۔ قوم پرستی اور نسل پرستی کو ایک دوسرے سے الگ الگ کرکے دیکھنے کی ضرورت ہے، اگر کوئی شخص اپنے وسیب کے حقوق کی بات کرتا ہے تو اُسے شاباش دینی چاہئے، اُس کے خلاف فتوے جاری نہیں ہونے چاہئیں کہ اب فتویٰ فروشی کا دَور گزر چکا، خطہ، زبان، ثقافت یہ فطرت کے خوبصورت مظاہر ہیں، فطرت کے رنگوں سے اور اُس کی خوشبو سے پیار کرنا چاہئے، آج زبان سائنس کا درجہ حاصل کر چکی ہے، یورپ میں زبان کو انسان اور انسان کو زبان کا نام دیا جاتا ہے، اسے محبت کے اظہار کا وسیلہ ہونا چاہئے، جو لوگ اسے تعصب کا ہتھیار بناتے ہیں اور مذہبی لبادے اوڑھ کر دوسروں کے خلاف فتوے بازی کرتے ہیں دراصل وہ دوسروں کی زبان و ثقافت کیخلاف اپنے اندر کا تعصب باہر نکال رہے ہوتے ہیں جبکہ تمام زبانیں خالق کائنات کی خوبصورت تخلیق ہیں، ان سے پیار کرنا چاہئے۔