ربا! میرے حال دا محرم توں اندر توں ہیں، باہر تو ہیں، رُوم رُوم وِچ توں توں ہی تانا، توں ہی بانا، سبھ کجھ میرا توں کہے حسین فقیر نمانا، میں ناہیں سبھ توں! محبوب الحق…حضرت شیخ مادھو رحمتہ اللہ علیہ قادری لاہوری ولادت 983ھ…وصال 1054ھ قطب الحق، امام الاوتار …حضرت شاہ حسین مقصود العین المعروف لال حسین قدس سرہُ العزیز…ولادت 940ھ …وصال 30جمادی الثانی 1008ھ عجب شام تھی… شام تو نہ تھی ڈھل چکی رات تھی۔ تقریباً پینتالیس برس پیشتر کی عجب رات تھی۔ اگر مجید امجد ہوتے تو کہتے۔ ’شہر لاہور میں آج چراغاں ہے۔ میلہ چراغاں ہے… ڈھول بجتے ہیں، الائو جلتے ہیں شہر لاہور میں آج چراغاں ہے۔ لاہور ہے یا آتش کدوں کا شہر بلخ ہے کہ جس طرف کوئی دیکھے آگ بڑھکتی ہے چراغوں کی، شعلے اٹھتے ہیں الائو سے…کیا اہل شہر آتش پرست ہو گئے ہیں۔ چار چراغ ترے بلن ہمیشہ، پنجواں میں بالن آئی ہو بھلا جھولے لالن…سندھڑی دا سیہون دا، سخی شہباز قلندر اور یہاں تو چار کہاں انت بے انت چراغ جلتے تھے۔ گویا چراغوں کا چراغاں تھا۔ پنجاب کا، لاہور کا۔ شاہ حسین قلندر…لال حسین، مادھو لال حسین قلندر، مادھو پیا اور عشق حسین پہلو بہ پہلو خاک نشین تھے۔ ’اساں اندر باہر لال ہے، اساں مرشد نال پیار ہے شہر لاہور کے دو نگہبان تھے۔ ایک شریعت کا پابند مظہر نور خدا اور دوسرا بظاہر شریعت سے بغاوت کر کے صرف عشق کی سیڑھی پر چڑھنے والا لیکن وہ سیڑھی تھامنے والا بھی تو علی ہجویری ہوتا ہے جس کے مرقد پر شاہ حسین باقاعدگی سے حاضری دیتا ہے۔ وہ چونکہ خود باغی ہے اور سامنے ایک اور باغی دلا بھٹی کا یار ہے۔ دونوں کے جرم الگ الگ ہیں۔ ایک سماج کی روایتوں سے بغاوت کرتا ہے اور دوسرا غیر ملکی غاصبوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرتا ہے۔ وہ کیسی شب تھی جب شاہ حسین اور دلا بھٹی ایک ہی کال کوٹھڑی میں قید ہیں۔ دونوں کا جرم بغاوت ہے۔ اگلی سویر دلا بھٹی کو تختہ دار پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ 45برس پیشتر کی اس شب میں ایک دوست کے ساتھ چراغاں کے میلے میں آیا اور میں ایک حیران بچے کی مانند اس میلے میں گم ہو گیا۔ میں خود تو گم نہ ہوا مجھے تو اس نے گم کیا جس نے پڑھ لیا کہ یہ دنیا کھیل تماشا ہے تو اس نے شریعت کا جامہ اتارا اور ملامتی چوغا پہن لیا اور اپنے آپ میں گم ہو گیا۔ ’اساں ٹکر منگ منگ کھاونا، اساں ایہو کم کماونا‘ اور بیہوش ہی اچھا تھا، مدہوش ہی اچھا تھا، ناحق مجھے ہوش آیا۔ ہوش آیا تو نصف شب بیت چکی تھی۔ چراغ بجھنے لگے تھے۔ الائو مدھم ہوتے جاتے تھے اور میں ایک الائو کے گرد بیٹھے ملنگوں، فقیروں اور مجذوبوں کے ایک گروہ میں بیٹھا ہوا تھا اور سائیں کے مچ کی چنگاریاں میری آنکھوں میں چراغ ہوتی تھیں اور راکھ کی ایک تہہ میرے چہرے پر اترتی جاتی تھی۔ ان مجذوبوں کی آنکھوں میں لال حسین کی لالی کے ڈورے تھے اور کھڑی کا ایک پیالہ بھنگ کی ہریاول سے چھلکتا گردش کرتا تھا۔ وہ وہاں تھے جہاں ان کو اپنی خبر بھی نہ تھی۔ میری موجودگی کی خبر کہاں ہوتی اور اس عالم میں جگہ جگہ ڈھول بجتے تھے اور ان کی دھمک سے الائو لرزتے تھے۔ ان کی گونجدار آواز عرش تک جاتی تھی اور یوں محسوس ہوتا تھا جیسے سینکڑوں ہائی فائی سسٹم فل والیوم میں کھل گئے ہیں کہ ڈھولوں کی دھمک، دھمک در دھمک دوچند سہ چند ہو کر کانوں میں اترتی تھی اور ان کے پردوں میں دھم دھم کے ارتعاش کو جنم دیتی تھی۔ ملنگوں میں سے کوئی ایک کھڑا ہو کر اکتارا بجاتے ہوئے شاہ حسین کا کلام گانے لگتا۔ ’ایہ جوبن دوچار دہاڑے، کاہے کو جھوٹ کماوناں کہے حسین سنہائے کے، اساں خاک نال سماوناں‘ کتاب ’’حقیقت الفقرا‘‘ کے مطابق حضرت کا نام ڈھڈا حسین تھا اور ڈھڈا پنجاب کے راجپوتوں میں ایک ذات ہے۔ بزرگوں میں جو شخص کہ اول شرف با اسلام ہوا اس کا نام کلس رائے تھا۔ والد کا نام عثمان تھا اور انہوں نے غربت کی وجہ سے پیشہ بافندگی اختیار کیا۔ شاہ حسین نے ہمیشہ اپنے جو لاہے ہونے پر فخر کیا اور راجپوت ہونے کو قابل عزت نہ گردانا… انی حسین جُلاہا نہ اوہ مومن، نہ اوہ کافر جو آہا سو آہا… یعنی میں تو حسین جولاہا ہوں، اور جو ہوں بس ہوں۔ شاہ حسین اپنی پوری شاعری میں اسی پیشے کی رمزوں، ترکیبوں اور استعاروں کو بروئے کار لا کر معرفت کی کھڈی پر چڑھایا اور ایسے ایسے کھیس، رانگلے رنگ رنگیلڑے بنے جن کی ہرگرہ میں سے عشق الٰہی کے بوٹے پھوٹتے ہیں۔ اتن میں کیوں آئی ساں، میری تند نہ پئی آکائے ہورناں کتیاں پنج ست پونیاں میں کی آکھاں جائے سرت کا تانا، نرت کا بانا ہتھ اٹیرن رہ گئی چھلی کوئی جو تند رولی پے گئی، صاحب مول نہ بھانا چرخا میرا رنگڑا، رنگ لال اپنا سوت تیں آپ ونجایا، دوش جلاہے کیوں؟ گھم چرکھڑیا، تیری کتن والی جیوے ’’حقیقت الفقرا‘‘ میں درج شدہ بے شمار کرامتیں جو شاہ حسین سے منسوب کی گئی ہیں وہ کم از کم مجھے بعید از حقیقت لگتی ہیں۔ حقیقت کی نابینائی کی پروردہ کہانیاں ہیں۔ اگرچہ اس کے مصنف اسے ذاتی مشاہدہ قرار دیتے ہیں۔ البتہ ایک روایت درج کرتا ہوں۔ جس میں بے شک حقیقت ہرگز نہ ہو پر یہ حکایت لذیذ ہے کہ ایک عیاش طبع شخص نے جب دیکھا کہ شاہ حسین رندی اور مستی میں مشغول شہر کی گلیوں میں رقص کرتے پھرتے ہیں اور مردوں کے علاوہ حسین عورتیں بھی ان کو ولی مانتی ہیں تو وہ شاہ کی خدمت حاضر ہو کرعرض گزار ہوا کہ اے لال حسین میں تیرا مرید ہو کر تیری پیروی کرنا چاہتا ہوں۔ جو تو کرتا ہے میں بھی وہی کروں گا تو شاہ نے کہا کہ چلا آ…ایک گلی میں سے شہر کی سب سے دل ربا کشمیری عورت نکلی تو شاہ نے ہم آغوش اختیار کر کے اسے چوما۔ وہ مرید بھی بخوشی آگے ہوا اور عورت سے بغلگیر ہو کر اسے چوما۔ ذرا آگے گئے تو وہاں روٹیوں کا تندور دیکھتا تھا۔ شاہ حسین نے اس میں ہاتھ ڈال کر ایک دہکتا ہوا کوئلہ نکالا اور اسے اپنی زبان پر رکھ لیا۔ مرید خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ گیا تو شاہ نے کہا تو نے کہا تھا کہ جو میں کروں گا تو بھی وہی کرے گا، تو اب یہ بھی کر۔ کہا جاتا ہے کہ وہ شخص اس کرامت سے اتنا متاثر ہوا کہ توبہ تائب ہو کر دل و جان سے شاہ کا مرید ہو گیا۔ لہو و لعب اختیار کرنے سے پیشر معمول تھا کہ تمام رات دریائے راوی میں کھڑے ہو کر تابہ سحر ختم قرآن کرتے اور نماز فجر و اشراق پڑھ کر علی ہجویری کی خانقاہ پر حاضر ہو جاتے لوگ کہتے یہ جولاہا نہیں جوئے الٰہی ہے۔