سندھ کے سوشل میڈیا پر اب تک وہ ویڈیوتیر رہی ہے۔ جوویڈیو حاکم علی زرداری کی بیٹی اور آصف علی زرداری کی بہن محترمہ فریال تالپورکی ہے۔ ویسے تو سندھ کی سوشل میڈیا پر ان کی وہ ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’اپنے سروں میں بھری ہوئی ہوا نکال دو۔ ووٹ صرف تیر کو دینا ہے‘‘ مگر اس بار ان کی وائرل ہونے والی ویڈیو دیکھ کر سندھ کا ہر فرد سوچ رہا ہے: ’’میں روؤں یا ہنسوں کروں میں کیا کروں؟‘‘ وائرل ہونے والی وہ ویڈیو جس میں ’’زرداری سسٹر‘‘ نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہم سچے ہیں۔ ہم نے کوئی کرپشن نہیں کی۔ ہم نے تو عوام کی خدمت کی ہے‘‘ سندھی کی مشہورکہاوت ہے کہ ’’ایک بھوکا انسان ہنسنے کی عیاشی کس طرح کر سکتا ہے؟‘‘ اس لیے سندھ سوچ رہا ہے کہ وہ فریال تالپور صاحبہ کی ویڈیو پر ہنسے یا روئے؟ بھوکے انسان کو لطیفوں پر بھی ہنسی نہیں آتی۔ خلیل جبران نے کہا تھا ’’اگر تم بھوکے شخص کے سامنے گیت گاؤ گے تو وہ کانوں سے نہیں پیٹ سے سنے گا! اس وقت سندھ کی حالت زار یہ ہے،وہ سندھ جو کبھی مک کا مزاحمتی صوبہ تھا۔ اس سندھ کو سیاسی غلام بنا دیا ہے۔ زرداری خاندان نے جو سب کچھ لوٹ کر کہتے ہیں ’’ ہم تو معصوم میں‘‘ فیض احمد فیض نے کہا تھا: گنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ہیں دل کے مقتل میں مرے قاتل حساب خوں بہا ایسے نہیں ہوتا سندھی میں ایک اور کہاوت بھی ہے کہ ’’اس شخص کا تم کچھ نہیں بگاڑ سکتے جو دریا کے دوسرے کنارے کھڑے ہوکر یا تمہارے منہ پر جھوٹ بولے‘‘فریال تالپور کے اس بیان پر تو ان کی اپنی پارٹی کے وڈیرے بھی ہنسے ہونگے۔کیوں کہ وہ ہنس سکتے ہیں۔جس کے پیٹ میں پسند کا کھانا ہو وہ جی بھر کے ہنس سکتا ہے۔فریال تالپور کے اس بیان پر تو وہ وزیر اور وہ بیوروکریٹ بھی ہنسے ہونگے،حکومتی جماعت کوجو کمیشن دیتے ہیں۔فریال تالپور کے اس بیان پر وہ غریب لوگ کس طرح ہنسے جنہوں نے زندگی میں صرف دکھ دیکھے ہیں۔ ان کے لیے فریال تالپور صاحبہ کا بیان تو ’’ایک اور دکھ‘‘ کا سبب بن گیا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ سندھ میں جس طرح کی لوٹ کھسوٹ ہوئی ہے،اس کی مثال سندھ کے پورے ماضی میں نہیں ملتی۔ جب مارشل لا لگتا ہے تب قانون معطل ہو جاتا ہے۔ وطن عزیز جو کئی بار اور کافی وقت تک بغیر آئین اور قانون چلنا پڑا ہے اور سندھ نے آمریتوں کا بہادری کے ساتھ مقابلہ بھی کیا ہے مگر یہ سچ ہے کہ اس زرداری کے دور اقتدار میں جو کرپشن ہوئی ہے،وہ کسی آمر کے دور میں بھی نہیں ہوئی۔ اس وقت سندھ میں جو لوگ دوسری پارٹیوں کو چھوڑ کے پیپلز پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں،ان کے کردار ہی بتا رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا سندھ میں سیاسی امیج کیسا ہے؟ پیپلز پارٹی میں جو اچھے لوگ سمجھے جاتے تھے وہ کس طرح عیاری کے ساتھ خاموش کروائے گئے؟ یہ الگ داستان ہے۔ آصف علی زرداری کے بارے میں کسی سے بھی پوچھو وہ آپ کو ان کے سیاسی کردار کے بارے میں بتا سکتا ہے۔ سندھ میں آج بھی وہ کردار زندہ ہیں،جو آصف زرداری کے ساتھ اس وقت تھے،جب آصف زرداری اور بینظیر بھٹو کا رشتہ نہیں ہواتھا۔ لوگ آج بھی بینظیر بھٹو کی عزت کرتے ہیں۔ ان سے محبت کرتے ہیں۔ حالانکہ ان پر سیاسی مبصرین تنقید بھی کرتے ہیں مگر اس کے باوجود بھی بینظیر بھٹو کے لیے عام لوگ آج بھی یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ’’بینظیر صاحبہ کی بات الگ تھی‘‘ جب گفتگو ذرا آگے بڑھتی ہے تو وہ کہتے ہیں ’’بھٹو خاندان تو پھر بھی بھٹو خاندان ہے‘‘ جب کہ بھٹو خاندان کے نام پر ڈاکہ ڈالنے والے زرداری خاندان کے متعلق آج بھی اندرون سندھ اور خاص طور پر نواب شاہ ضلع میں اتنے افسانے مشہور ہیں، جتنے افسانے پنجابی زبان میں سکھوں کے لیے مشہور ہیں۔ حالانکہ سکھ تو عمومی طور پر سادہ اور زندہ دل لوگ ہیں۔ یہ ان کا بڑا پن ہے کہ وہ اپنے بارے میں لطیفے خود سناتے ہیں اور خود ہی اپنے آپ پر دل کھول کر ہنستے ہیں۔ زرداری قبیلے کی بات الگ ہے۔ یہ ایک عام حقیقت ہے کہ حاکم علی زرداری کی سیاسی بے وفائی کے بعد پیپلز پارٹی نے کبھی کسی زرداری وڈیرے کو اہمیت نہیں دی۔مگر بینظیر بھٹو کے ساتھ شادی کرنے اور شادی کے بعد ان کے اقتدار میں آنے کے بعد جس طرح زرداریوں کے وارے نیارے ہوئے،اس سے پیپلز پارٹی میں اختلافات بھی پیدا ہوئے۔ مگر بینظیر بھٹو کی شخصیت میں اتنا وزن تھا کہ ان کے سامنے ہر مخالفت دب جاتی تھی۔ بینظیر بھٹو کو بغیر بتائے آصف زرادی اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے بہت کچھ کرتا رہامگر اس بات کی گواہی دینے کے لیے میڈیا کی پوری تاریخ موجود ہے کہ بینظیر بھٹو کی زندگی میں فریال تالپور کو یہ ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ ان کے بڑے گھر کے چھوٹے کمرے میں بھی چند روز رہ سکے۔آج بینظیر بھٹو کی ساری ملکیت اور ان کی خاندانی زمینوں کی دیکھ بھال کا اختیار فریال تالپور کے پاس ہے۔وہ وہاں سے نہ صرف فوائد لیتی بلکہ ووٹ بھی لیتی ہیں۔ ان کا حلقہ لاڑکانہ ہے۔جب کہ بینظیر بھٹو کی زندگی میں اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ بینظیر بھٹو سے بے تکلف ہوکر بات بھی کریں۔اگر بینظیر بھٹو کی زندگی میں وہ نواب شاہ کی ناظم بنیں،تو اس میں آصف زرداری کی منتوں کا بہت بڑا کردار تھا،مگر یہ بات پیپلز پارٹی کے روایتی حلقوں میں بہتر نہیں سمجھی گئی تھی مگر بینظیر تو بینظیر تھیں۔ ان کے سامنے کس کا بس چلتا تھا؟ بینظیر بھٹو کے بعد جس طرح پیپلز پارٹی کا امیج کرپشن کے حوالے سے ایک علامت بن گیا،اس علامت کو آصف زرداری نے ساتھیوں سے ملکر پوری دنیا میں مشہور کیا۔سندھ پر اس وقت جو سب سے بڑی مصیبت موجود ہے،وہ پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔سندھ جس سیاسی سزا کو جھیل رہا ہے وہ پیپلز پارٹی کی سرکار ہے۔ سندھ کے دل میں جو بڑے زخم ہیں،وہ پیپلز پارٹی کی وجہ سے لگے ہیں۔جب پی پی پی کے رہنما معصومیت سے کہتے ہیں کہ ’’ہم تو سچے ہیں۔ہم نے کبھی کرپشن نہیں کی۔ہم نے تو ہمیشہ خدمت کی ہے‘‘ تب زور سے قہقہہ لگانے کی حسرت رکھنے والے سندھ کی آنکھیں اشکوں سے بھر آتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر فریال تالپور کی مذکورہ ویڈیو کے چرچے تو اب تک جاری ہیں، مگر کسی ایک حساس سندھی شخص نے جو تبصرہ لکھا ہے ،وہ پڑھ کر بھرے پیٹ والے بھی ہنسنا بھول گئے ہیں۔ اس شخص نے فریال تالپور کی اس ویڈیو پر اپنے تبصرے میں صرف اتنا لکھا کہ : ’’یہ زخم آپ کے لگائے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ ان زخموں کا علاج نہیں کریں گے۔ آپ ہمارے زخموں پر مرہم نہ ملیں مگر کم از کم نمک پاشی تو نہ کریں ‘‘