یہ تو ابھی کل کی بات ہے۔ صرف دو صدیاں قبل جب ابھی تک مسلم دنیا تہذیب و تمدن، علم و عرفان اور خوشحالی کی علامت سمجھی جاتی تھی، خلافتِ عثمانیہ کا استنبول، شاہانِ ایران کا اصفہان اور برصغیرپاک و ہند کا دلّی و لاہور ایسے مراکز تھے جن کی جانب دنیا بھر کے سیاح سفر کرنے کے خواب دیکھا کرتے تھے۔لاہور کے شاہی قلعے میں یورپ کے مصوروں کی پینٹنگز کی ایک بہت بڑی تعداد ’’پرنسز بمبا کا مجموعہ‘‘ (Princess Bamba Collection)کے نام سے موجود ہے۔ یہ ،یورپ کے ان مصوروں کی تصاویر ہیں جو ہندوستان کا سفر اس امید پر کیا کرتے تھے کہ وہ یہاں کے راجاؤں، مہاراجاؤں، نوابوں ، ریاست کے والیوں اور ان کے خاندان والوں کی تصویریں بنا کر سال بھر کا خرچہ یہاں سے لے کر جائیں گے۔ میر تقی میر، سودا اور انشاء کی محفلیں جمتی تھیں، غالب و داغ کے اشعار گونجتے تھے، لکھنؤ میں امراؤ جان کے سُر بکھرتے تھے اور پورے برصغیر میں جہالت نام کو نہ تھی کہ اس وقت اس خطے میں شرح خواندگی نوے فیصد سے بھی زیادہ تھی اور یہ خواندگی ایک ایسی سطح کی تھی کہ لارڈ میکالے کے 1835ء کے نوٹس کے مطابق ہندوستان کی گلیوں کے تھڑوں پر جن موضوعات پر بحث ہوتی تھی وہ موضوعات آکسفورڈ اور کیمرج میں بھی نہیں چھیڑے جاتے تھے۔ ایسا ہی ایک ’’تھڑا‘‘ لاہور کے بھاٹی گیٹ میں بازار حکیماں کے بیچوں بیچ فقیر خانہ کے روبرو آج بھی موجود ہے، جہاں علامہ اقبال اور ان کے ہم نشینوں کی محفل سجتی تھی اور یہ ایسی تمام مجالس کا ایک تسلسل تھی جو دہلی و لاہور کے علمی مراکز میں کئی صدیوں سے سجتی چلی آرہی تھیں۔ ٹھیک اسی دور میں جدید سیکولر، لبرل جمہوریت کی علامت’’ریاست ہائے متحدہ امریکہ‘‘ میں گذشتہ تین سو سال سے مقامی آبادی کے مسلسل قتل عام کے آخری معرکے جاری تھے۔ وہ مقامی ریڈ انڈین جو کبھی 1492ء میں کولمبس کے اس سرزمین پر قدم رکھتے وقت سولہ کروڑ کے قریب تھے، اب چند لاکھ ہی رہ چکے تھے۔ صدیوں انہیں بدترین تشدد سے قتل کیا گیا، ان کی بستیاں اجاڑ دی گئیں، یہاں تک کہ چیچک کے جرثومے لا کر ان میں وبا کی صورت پھیلائے گئے جن کی وجہ سے انکی آبادیوں کا صفایا ہو گیا۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ 1862ء میں چیچک کی وبا سے صرف اور صرف مقامی ریڈانڈین آبادی ہی موت کی آغوش میں گئی بلکہ اکثر علاقوں میں تویہ لوگ نوّے فیصد تک صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ ایسی ہی ایک کالونی آج کے کینڈا کی ’’برٹش کولمبیا‘‘ تھی، جس کے بارے میں تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہاں کے گورے حکمرانوں نے مقامی آبادی میں چیچک کے پھیلاؤ کو نہ صرف روکنے کی کوشش نہیں کی ، بلکہ اسے مزید پھیلانے کے لیئے زبردستی لوگوں کو آپس میں ملنے اور حفظانِ صحت کے اصولوں کو ترک کرنے کا روّیہ اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ یوں اس علاقے میں ایک دن کے بچے سے لے کر سو سال کے بوڑھے تک سب ’’رنگ دار‘‘ (Colored)ریڈ انڈین موت کی آغوش میں چلے گئے اور علاقہ ’’مہذب‘‘ سیکولر، لبرل جمہوریت پرست سفید فام، نیلی آنکھوں اور سنہری بالوں والوں کے لیئے خالی ہو گیا۔ اسی علاقے کے ایک سکول کے احاطے سے مئی 2021ء میں ایک اجتماعی قبر دریافت ہوئی ہے ،جس میں 215بچوں کی باقیات ملی ہیں۔ یہ برٹش کولمبیا کے شہرکیملوپس (Kamloops)کا ایک سکول ہے،جسے 1890ء میں رومن کیتھولک انتظامیہ نے کھولا تھا۔ اس سکول میں وہاں کے مقامی ریڈانڈینزہی کے بچے باقاعدہ بورڈنگ میں رکھے جاتے تھے۔ ایسے بیشمار رہائشی سکول 1863ء میں قائم ہونا شروع ہوئے تھے اور 1998ء تک تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ریڈ انڈین بچوں کو ان کے اہل خانہ سمیت ایسے سکولوں میں رکھا جاتا رہا، تاکہ وہ عیسائی مذہب پر بہتر کاربندہوسکیں۔ کیملوپس کا یہ سکول 1969ء تک کیتھولک چرچ کے تحت رہا، پھر 1978ء تک مرکزی حکومت کے پاس رہا اور آخرکار اسے بند کر دیا گیا۔ اس سکول سے برآمد ہونے والی 215 بچوں کی یہ اجتماعی قبردھاگے کا وہ سرا ہے، جس کو پکڑ کر اگر تاریخ میں الٹا سفر کیا جائے تو آپ کو صرف گذشتہ دو سو سال کی ’’مہذب‘‘ تاریخ میں بدترین قتل و غارت، ظلم و تشدد اور خوفناک داستانیں نظر آئیںگی۔ یاد رہے کہ دو تین سو سال پرانایہ وہ زمانہ تھا، جب مسلم دنیا اپنے زوال کے باوجود اپنی تہذیبی اور علمی روایت کے تسلسل اور انسانی فلاح کے حوالے سے پہچانی جاتی تھی اور پورا یورپ اور امریکہ دنیا بھر میں جمہوریت، سیکولرازم، کیمونزم اور لبرل ازم کے نفاذ کے نعروں کے غلغلوں سے گونج رہا تھا،لیکن اس گونج تلے امریکہ کے براعظم میں موجود نوّے فیصد مقامی آبادی ایسی ہی بڑی بڑی اجتماعی قبروں میں دفن کی جا چکی تھی۔ وہ امریکہ جو کبھی ان لوگوں کا ہی گھر تھا،آج وہ اسکی پوری آبادی کا صرف 1.6فیصد یعنی صرف باون لاکھ رہ چکے ہیں۔ یہ چند لاکھ بھی جب جان بچا کر امریکہ کے ویران علاقوں میں جا کر آباد ہوئے تو مہذب دنیا نے ایک اور درد ناک تماشہ دیکھا۔ امریکی آزادی اور آئینی جمہوریت جب 1777ء میں آئی تو گوروں نے ان بیچارے ریڈ انڈینز کے لیئے وسیع عریض امریکہ میں سے صرف چند علاقے مخصوص کر دیئے جنہیں ’’ریزرویشنز‘‘ (Reservations)کہتے تھے۔یہ 365ریزرویشن آج بھی موجود ہیں جن میں یہ ریڈ انڈین چڑیا گھر کے مکینوں کی طرح رہتے ہیں۔ ان قبائل میں سے پانچ قبائل، چیرکی (Cheeraki)، مسکوجی (Muscogee)، سیمی نول (Seminole)، چوکٹوو(Chochtaw)اور پونکا (Ponca) کو مہذب قبائل سمجھا جاتا تھا ،جو دریائے مسس سپی کے کنارے پر جاکر آباد ہوگئے تھے۔ ان کی بدقسمتی یہ ہوئی کہ 1928ء میںجارجیا کے علاقے دھلوینگا(Dahlonega)میں سونے کے ذخائر دریافت ہوگئے۔ یوں تو یہ سفید فام لوگوں کا علاقہ تھا لیکن انہیں اردگرد آباد ’’رنگین‘‘ (Colored)ریڈانڈین بھی برداشت نہیں تھے۔ سیکولر جمہوریت کے سب سے جدید ادارے ‘‘امریکن کانگریس‘‘ نے ان تمام ریڈ انڈین کواپنی جگہوں سے بے دخل کرنے کے لیئے 1830ء میں ’’انڈین بے دخلی ایکٹ ‘‘(Indian Removal Act)پاس کیا جس کے تحت ان خانماں برباد ریڈ انڈین کو جو صدیوں پہلے سے ظلم سہتے سہتے ابھی سانس بھی نہیں لینے پائے تھے کہ انہیں نکالا جانے لگا۔ سب سے پہلے 1831ء میں چوکٹوو قبیلے کو اس کے علاقے سے نکالا گیا اور پھر اسی طرز پر ایک ایک کرکے باقی قبیلے بھی مزید بے آب و گیاہ اور مزید ویران علاقوں میں جاکر آباد ہونے پر مجبور کر دیئے گے۔ ان تمام ہجرتوں کو ’’آنسوؤں کی راہگذر‘‘(Trail of Tears)کہتے ہیں اور ریڈ انڈین شاعری اور نثران ہجرتوں اور نقل مکانیوں کے دکھوں سے عبارت ہے۔ جب 1996ء میں اکلودہاما کے نزدیک میں چیرکی (Cheeraki)قبیلے کے ہیڈکوارٹر گیا تو اس کے سردار نے ایک گلوکار کو اس آنسوؤں کی راہگذر پر گیت سنانے کو کہا۔ گیت ان کی مقامی زبان میں تھا، لیکن کیفیت ایسی تھی کہ نہ سمجھ آنے پر بھی آنکھ میں آنسو آگئے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق 1834ء میں ہونے والی اس چیرکی نقل مکانی میں چار لاکھ چیرکی موسم کی شدت، پولیس کے تشدد اور خوراک کی کمی کی وجہ سے مارے گئے تھے۔ آنسوؤں کی ایسی کئی راہگذریں ہیں، جن کا کھوج بارہا ملتا رہاہے جیسے کیملوپس کے سکول میں 215بچوں کی اجتماعی قبریں۔ لیکن اس سب کے بعدکیا ہوگا۔۔کچھ نہیں چند لمحے تاریخ کا ماتم ہوگا، شرمندگی کا اظہار کیا جائے گا۔بارہا ’’ہم اپنے ماضی پر شرمندہ ہیں‘‘ کہنے کے بعد یہ سیکولر لبرل جمہوریت پرست کارپوریٹ مغرب و امریکہ، اگلے محاذ پر قتل و غارت شروع کر دیتا ہے، ویت نام میں شرمندہ، لاطینی امریکہ میں قتل و غارت، وہاں شرمندہ، عراق میں قتل، عراق میں نادم، افغانستان میں قتل۔ اسکے باوجود انسانیت اور انسانی حقوق کے پرچم بردار بھی یہی ظالم ہیں۔