زندگی میں دو کام ایسے ہیں جو بچپن میں جس پرجوش سرگرمی کے ساتھ شروع کئے اسی جوش و خروش کے ساتھ آج پچاس برس کی عمر میں بھی کئے جا رہا ہوں۔ایک کتابیں پڑھنا اور دوسرا فلمیں دیکھنا۔ لطف کی بات دیکھئے کہ ان دونوں "جرائم" پر بچپن میں پٹا بھی بہت ہوں۔پٹنے کا سبب یہ ہوا کہ کتاب کے معاملے میں صاحب ذوق تھا اور طالب علم میں مدرسے کا تھا، جو اس لحاظ سے ایک تضاد تھا کہ دنیا کی سب سے بدذائقہ کتب درسی کتب ہوتی ہیں اور اگر یہ کتب مدارس کی ہوں تو سمجھئے کریلا نیم چڑھا۔ دنیا کی تمام معقول درسی کتب وہ موضوع سکھانے کے کام آتی ہیں جس پر وہ لکھی گئی ہوں۔ یوں دوران سبق زیر بحث وہ موضوع ہی ہوتا ہے جس سے متعلق کتاب لکھی گئی ہوتی ہے، یعنی کیمسٹری کے پیریڈ میں کیمسٹری پر ہی محنت ہورہی ہوتی ہے۔لیکن ہمارے مدارس کی درسی کتب میں موضوع ثانوی حیثیت اختیار کرجاتا ہے۔ لگ بھگ ہر استاد کی مرکزی محنت یہ راز دریافت کرنے پر ہوتی ہے کہ زیر نظر عبارت میں مصنف درحقیقت کہنا کیا چاہتا ہے ؟ اگر ایک کتاب کی عبارت اپنی مراد کے حوالے سے ہی مبہم ہو تو اس میں وہی رغبت رکھ سکتا ہے جو علم سے زیادہ ثواب میں دلچسپی رکھتا ہو اور جب بات گناہ ثواب کی ہو تو اس اعتراف میں مجھے کوئی تامل نہیں کہ یہ آوارہ بڑا ہی گنہگار ہے۔سو ان درسی کتب کو طبیعت کبھی بھی قبول نہ کرسکی حتیٰ کہ آج بھی کسی درسی کتاب کا مطالعہ مجھ پر ٹارچر کی غرض سے مسلط کیا جاسکتا ہے۔ میری نظر میں دنیا کی بہترین کتب وہ ہیں جنہیں "غیر نصابی" ہونے کادرجہ حاصل ہے مگر مدرسے میں غیر نصابی بھی صرف "تبلیغی نصاب" ہی پڑھا جاسکتا تھا۔ اس کے سوا ہر غیر نصابی حرف مسطور وہاں ممنوع تھا۔ مدرسے کے پرنور نصابی ماحول میں صندوق یا لاکر میں "ممنوعہ اشیائ" رکھی نہیں جاسکتی تھیں۔ سو ہر مدرسے میں میرا اپنا ایک خفیہ گوشہ تاریک رہا جہاں میں زیر مطالعہ غیر نصابی کتاب سنبھال کر رکھتا۔ جب بھی فرصت ملی، کتاب اس گوشے سے نکالی اور مدرسے سے دور جاکر کسی چائے خانے یا پارک میں پڑھنی شروع کردی چونکہ میرے بارے میں سب ہی جانتے تھے کہ یہ غیر نصابی کتب کے مطالعے اور سینما جانے جیسے کام بکثرت کرتا ہے سو ناظم اعلی، ناظم تعلیمات، ناظم دارالاقامہ، ناظم کتب خانہ، ناظم مطبخ اور ان کے وہ جملہ لوگ جو مخبری جیسا کام کرکے ایسا محسوس کرتے جیسے کوئی بڑاکارنامہ سر انجام دے دیا ہو ، میری تاک میں رہتے۔ لطف کی بات یہ کہ آٹھ دس برس میں مجھے ممنوعہ کتب کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑنے میں دو چار بار ہی ان کو کامیابی میسر آسکی۔ اب چونکہ یہ دو چار بار بھی انہیں کئی کئی مہینوں کی اعصاب شکن محنت سے میسر آئے سو پٹائی ایسی بدتر ہوئی کہ مولوی کے بید کے آگے تھانیدار کا لتر کیا بیچتا ہے۔ اس زمانے میں میری غیری نصابی کتب زیادہ تر ناولز رہے، جنہیں میں کمرے سے باہر کسی کھانچے میں چھپا کر رکھتا۔ چھٹی کے اوقات میں قمیض کے نیچے اڑس کر رہائشی کمرے، درسگاہ یا کسی پارک لے جاکر پڑھتا۔ اس غیر نصابی مطالعے کے لئے اٹھا گئی مشقت کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ جن تین سالوں میں بفرزون میں قائم دارالعلوم رحمانیہ میں زیر تعلیم رہا معمول یہ رہا کہ مدرسے سے دو ڈھائی کلومیٹر دور واقع سخی حسن قبرستان کے مقابل واقع پارک روز پیدل آتا جاتا۔اس پارک کے شمال مغربی کونے میں ایک بڑے درخت کے نیچے نصب بینچ پر لگ بھگ تین سال میرا "خرافاتی مطالعہ" جاری رہااور یہ تردد اس لئے اٹھانا پڑتا کہ مدرسے میں پکڑے جانے کا اندیشہ رہتا۔ اس خوف کے نتیجے میں مطالعے کے دوران ارتکاز ہی نہ بن پاتا کیونکہ دونوں کان اور ایک آنکھ دروازے سے کسی ایسی ہستی کے دخولی امکان پر رہتی جس کے لئے حبیب قاآنی نے "ثقیل" کی اصطلاح اختیار کی تھی زاں پیش کہ ناگاہ ثقیلے رسد از در مگر ہوتا یہ کہ موقع ملنے پر مختصر دورانیے کے لئے کمرے میں بھی تھوڑے بہت صفحات چاٹ لئے جاتے۔ اگر اس دوران کوئی ثقیل اس طرف نکل آتا تو ناول فوری طور پر کسی بہت ہی صوفی قسم کے رومیٹ کے بستر تلے چھپا دیتاکیونکہ صرف درسی کتب کا شغف رکھنے والے طالب علموں کے سامان کی تلاشی نہ ہوتی۔ ایک بار یوں بھی ہوا کہ میرا چھپایا ہوا ناول ایک روم میٹ کے ہاتھ لگ گیا۔وہ اپنے بستر کے نیچے سے برآمد ہونے والی میری’’ خرافات‘‘ کو صدمے سے تکتے ہوئے کچھ دیر تک تو اناللہ و انا الیہ راجعون اور استغفار کے ورد کرتا رہااور جب اس سے فارغ ہوچکا تو ناظم دارالاقامہ کے پاس جانے کا مصمم عزم ظاہر کیا۔میں نے "انکسار" سے بھرپور لہجے میں عرض کیا۔ ’’تمہارے پاس دو آپشنز ہیں۔ پہلا وہی جو تم کرنے کی دھمکی دے رہے ہو مگر اس کے نتیجے میں خدا تمہاری زندگی میرے ہاتھوں کچھ دن کے لئے ایسی تکلیف دہ کردے گا کہ تھک جاؤگے۔دوسری آپشن یہ ہے کہ ناول میرے حوالے کرو اور اگلے ویک اینڈ تک تمہاری عشاء کی نماز کے بعد والی چائے اور دو باقر خانیوں کا بل میرے ذمہ‘‘ وہ نیک سے زیادہ شریف ثابت ہوا، تین دن کی چائے باقر خانی پر رضامند ہوگیا۔ اللہ ہی جانے کیا راز ہے کہ نیک آدمی اکثر و بیشتر بزدل ضرور ہوتا ہے مگر یہ پہلو نظر انداز ہونے کے لائق نہیں کہ ان میں سے وہ قلیل ہی ہوتے ہیں جو خدا کی عظمت کے آگے سر جھکا کر نیک ہوئے ہوتے ہیں ورنہ بیشتر کی نیکی میں شاید ان کی خوفزدگی والی طبعی کمزوری کا ہی ہاتھ سمجھ آتا ہے۔ خدا سے ڈر کا نہیں محبت کا رشتہ ہونا چاہئے جس میں بہادری یا بزدلی کا کوئی کردار نہیں !