مٹی کے انسان نے با لآخر مٹی ہونا ہوتا ہے۔ 15جون 1945کو حیدر آباد دکن میں پیدا ہونے والے نصیر ترابی 10جنوری 2021کو کراچی میں ہم سے جدا ہو گئے۔ خانوادہ علامہ رشید ترابی کے چشم و چراغ اردو کے درخشاں ستارے اور نئی نسل کے نمائندے شاعر اب ہم میں نہیں رہے۔ نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل غزل بھی وہ جو کسی اور کو ابھی سنائی نہ تھی نصیر ترابی کے لئے اعزاز کی پہلی سند ہی یہ تھی کہ وہ علامہ رشید ترابی کے صاحبزادے تھے۔ علامہ رشید ترابی کا کیا کہنے ،وہ تو علم و دانش کے مینار تھے ۔ ان کی انداز خطابت اور علمی خزینے پر لکھنا تو سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ کالم نویسی کے انداز و اسلوب کو نت نئے رنگ دینے والے انعام درانی مرحوم کہا کرتے تھے کہ اگر کسی کو الفاظ کو تراشنے کا سلیقہ سیکھنا ہو ، تاویل سے تاویل کھڑی کرنے کا ہنر جانتا ہو تو وہ علامہ رشید ترابی کے خطابات کی ویڈیوز دیکھ لے۔ مجھے یاد ہے کہ نصیر ترابی سے چار دہائی قبل پہلی ملاقات ایک اخبار کی لائبریری میں ہوئی تھی۔ جہاں اسلا می صفحہ کے انچارج مفتی جمیل نے ا نہیں محرم الحرام میں انٹریو کے حوالے سے مدعو کیا تھا۔ اس وقت نصیر ترابی ایک سجیلے جوان تھے۔ ان کے لب و لہجے شائستگی کی کرامت شاید اپنے والد سے ورثے میں ملی تھی۔ ان کے انتقال کی خبر سنی تو اندازہ ہوا کتنا وقت گزر گیا۔ نصیر ترابی بیدار مغز ،اعلیٰ پائے کے شاعر ، شریعت کو سمجھنے اورمعاشرتی بگاڑ کی اصلاح کے لئے خواہش مند رہتے تھے ۔ وہ خانوادہ علامہ رشید ترابی کے چشم و چراغ اور اردو ادب کے درخشاں ستارے اور نئی نسل کے نمائندہ شاعر تھے، جو اب ہم میں نہیں رہے۔ وہ ایک روشن دماغ چراغ کے مانند تھے ،جو اب ہمیشہ کے لئے بجھ گیا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کیسے کیسے زندہ دل، قیمتی لوگ ایک ایک کرکے رخصت ہو تے جارہے ہیں ۔ عبد الحمید چھاپرا اور رئوف طاہر جیسے پیارے لوگوں نے بھی آنکھیں موند لیں ۔ علامہ نصیر ترابی نے کم عمری میں یعنی 1962میں شاعری کا آغاز کیا ’’عکس فریادی‘‘ ان کا ابتدائی مجموعہ تھا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں اکیڈمی ادبیات کی جانب سے انہیںعلامہ اقبال ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ ایک محبوب نظر انسان تھے اور ایسٹرن فیڈرل یونین انشورنس کمپنی میں بحیثیت آفیسر تعلقات عامہ ملازمت کرتے تھے۔ معتبر اور مقبول شاعر اور شعرو ادب کے استاد تھے۔ نعتوں ، منقبت اور سلام پر مشتمل مجموعہ ’’لاریب‘‘ بھی ان کی کاوشوں کا شاہکار تھا۔ پاکستان کی مقبول ڈرامہ سیریل ’’ہم سفر‘‘ کے ٹائٹل گیت :۔ ’’وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی ‘‘ جو سقوط ڈھاکہ کے پس منظر میں لکھی ہوئی ایک کاوش تھی۔ وہ ہم سفر تھا، مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی کہ دھوپ چھائوں کا عالم رہا، جدائی نہ تھی عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی یہ ہو سکتا ہے بہت سے لوگ میری اس دلیل سے اتفاق نہ کریں کہ شاعری کو نہ تو کسی روایات کا پابندہونا چاہیئے نہ کسی مخصوص نظریئے کا ۔میرے خیال میں اچھی شاعری اور فکشن وہ ہے جو خود رو ہو اور فطرت کی ترجمانی کرتی ہو۔ نصیر ترابی مشاعروں کی جان تھے ، وہ اپنے خوبصورت اشعار اور اسلوب و بیان سے محفل لوٹ لیا کرتے تھے۔ نصیر ترابی جیسے نا بالغہ لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے، وہ کہتے تھے آپ جب تک سننے کا حوصلہ اور سلیقہ پیدا نہیں کرتے ، اس وقت تک آپ بولنے کا آرٹ نہیں سیکھ سکتے۔ یہاں میں فقیر عارف امام کی تحریر کے چند اقتباسات ضرور نقل کرنا چاہونگا۔ نصیر بھائی کو یاد کرنا ،پھر ان کے بار ے میں لکھنا، میرے لئے اتنا سہل نہیں ۔ نصیر بھائی کم آمیز تھے، مگر ان کی یاد مجمع ساز ہے، کبھی اکیلی نہیں آتی۔ کسی بالیں سے زیڈ اے بخاری کا گونج دار لہجہ سنائی دیتا ہے، کسی گوشے سے مصطفیٰ زیدی دکھائی پڑتے ہیں تو کسی سمت سے روشن علی بھیم جی ۔کسی روشن دان سے پروفیسر مجتبیٰ حسین جھلملاتے ہیں تو کسی کھڑکی سے ابراہیم جلیس ۔ کسی نیم روشن گوشے سے عزیز حامد مدنی سیاہ عینک اور کالا اوور کوٹ پہنے دکھائی دیتے ہیں۔کسی کونے سے جون ایلیا سر نیہوڑا ئے بیٹھے ہوئے ہیں تو کسی دروازے سے عبید اللہ علیم پیارے صاحب کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ نوجوان شعرا کے لئے نصیر ترابی بھائی ایک ایسی یونیورسٹی تھے، جسے ہم آج کی زبان میں ورچوئل درسگاہ کہہ سکتے ہیں ۔ جب نصیر ترابی بھائی گفتگو کرتے تو کسی اور کو بولنے کی مجال ہوتی نہ ضرورت ۔ چائے پر چائے آتی جاتی، سگریٹ پر سگریٹ راکھ ہوتی جاتی اور دیوار پر آویزاں رشید ترابی کی سیاہ و سفید تصویر ہماری آنکھوں میں جھانکتی اور زیر لب مسکراتی رہتی۔ نصیر ترابی بھائی جہاں قدیم و جدید لسانیات کے عالم تھے وہاں وہ نئے لفظیات اور محاورے بھی ایجاد کرتے تھے ۔ ان کی نثر پڑھنے اور سننے سے لفظ کے ایسے ایسے نادر قرینے سامنے آتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی کہ واللہ اس لفظ کو اس طرح بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وہ اوروں کی طرح لفظ گڑھتے نہیں چمکاتے تھے اور اس کے وہ پہلو دکھاتے جو عام نگاہ پہ نہیں کھلتے ۔نصیر بھائی اور دیگر گردوں قد شخصیات جنہوں نے آبیاری کی اور کراچی کا ادبی منظر نامہ تشکیل دینے میں اپنا کردار ادا کیا، یہ سب لائق تحسین ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اس نہایت شائستہ برد بار اور عاجز انسان کے ساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔ آمین