لارڈ میکالے نے کہا تھا کہ ہندوستان میں ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جائے جس پہ ہم بآسانی حکمرانی کر سکیں۔ جو رنگ و نسل سے تو ہندوستانی ہو لیکن خیالات، اخلاق و کردار میں انگریز ہو اور بلاشبہ ہمارا نظام تعلیم آج بھی اسی قول کے زیر سایہ پھل پھول رہا ہے۔ کسی بھی ملک و قوم کی ترقی کا انحصار اس کے تعلیمی نظام پر ہوتا ہے۔ تعلیمی نظام دراصل ایک پیمانے کی مانند ہوتا ہے جسے دیکھ کر جانچا اور پرکھا جا سکتا ہے کہ فلاں ملک و قوم کا مستقبل کتنا روشن یا تاریک ہے۔ میں چونکہ خود تعلیمی نظام سے منسلک ہوں اور یورپ سے اعلی تعلیم کے بعد پاکستان میں اعلی تعلیمی اداروں کیساتھ کام کر کے یہ بات مزید عیاں ہونے لگی ہے کہ ہم دنیا کی دیگر ترقی یافتہ قوموں سے کوسوں دور ہیں۔ ہمارے تعلیمی نظام سے نکلنے والی نوجوانوں کی مثال ایسے فائن آٹے کی مانند ہے جو دکھنے میں تو بہت ستھرا اور نکھرا لگتا ہے لیکن حقیقتاً مضر صحت۔ کیونکہ جس بیکار، فرسودہ اور گھسے پٹے نظام تعلیم کی چکی میں پیس پیس کر انہیں تیار کیا جاتا ہے وہ انکی قدرتی ذہانت اور خداداد صلاحیتوں کو ریزہ ریزہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ چند دن پہلے ایک خبر نظر سے گزری کہ محکمہ تعلیم کی جانب سے یکساں تعلیمی نصاب کے سلسلے میں تیسرے مرحلے کا آغاز ہوا چاہتا ہے اور آئندہ تعلیمی سال تک میٹرک کے سلیبس کو مکمل طور پر انگریزی میں بدل دیا جائے گا۔ تمام انگلش نصاب مفت میں فراہم کیا جائے گا گویا ذہنی غلامی مفت میں بانٹی جائے گی۔ یہاں قائرین کرام کو یہ واضح کر دوں کہ میں انگریزی زبان کے خلاف ہر گز نہیں۔ جو نکتہ میں یہاں اٹھانا چاہتا ہوں کہ انگریزوں نے ترقی اپنی زبان کے بل بوتے پر کی۔ یورپ سے پندرہ بیس سالہ تعلیمی تجربے کے بعد میرا یقین مزید پختہ ہو چکا ہے کہ اصل تعلیم، تدریس، تحقیق ، تکنیک ترقی کی کامل حدوں کو نہیں چھو سکتی جب تک کہ آغاز اپنی زبان سے نا کیا جائے۔ امریکہ، انگلینڈ ، جرمنی، فرانس، اٹلی، چین و جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ممالک سبھی کا تعلیمی و تدریسی نظام اپنی زبان سے جڑا ہے۔ ان تمام ممالک میں بنیادی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم تک ، صرف و صرف اپنی زبان میں کی گئی تحقیق و تربیت پر انحصار کیا جاتا ہے اور یہی انکی ترقی کا راز ہے۔ ان ممالک میں دیگر زبانیں تب پڑھائی اور سکھائی جاتی ہیں جب دیگر ممالک کیساتھ مشترکہ تحقیق و تعلیم کا مرحلہ درپیش ہو نا کہ پرائمری اسکول سے ہی غیر زبانیں بچوں پہ لاد دی جائیں جیسا کہ پاکستان میں ہوتا ہے۔ پاکستان کے تعلیمی نظام کو یکساں کرنے کے لیے تمام مراحل کو اردو میں بدلا جاتا نا کہ انگریزی میں کیونکہ ملکہ وکٹوریہ یا ملکہ الزبتھ کا شمار کسی طور پر ہمارے آباؤ و اجداد میں نہیں ہوتا۔ پاکستانی معاشرہ آج ہر طرح سے بکھرا ہوا اور منشتر معاشرہ ہے۔ ہم ایک قوم نہیں بلکہ رنگ برنگے لوگوں کا ایک ریوڑ ہیں کہ جتنے منہ اتنی باتیں،جتنے لوگ اتنے اختلافات،جتنی سیاسی جماعتیں اتنا سیاسی انتشار۔کہیں بھی قومی یک جہتی و یکسانیت نظر نہیں آتی اور اسکی بنیادی وجہ یہی بیہودہ و فرسودہ نظام تعلیم ہے،جس نے بچپن سے ہی نوجوان نسل کو کئی جتھوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ آج سائنس اس بات پہ متفق ہے اور انسانی فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ بچپن سے ہی جو تعلیم و تربیت اپنی مادری اور قومی زبان میں دی جائے وہ زیادہ پر اثر اور دیرپا ہوتی ہے۔ اظہار بیان میں روانی اور فہم و تفہیم میں آسانی جو اپنی زبان میں حاصل ہوتی ہے وہ پرائی زبان سے ہرگز حاصل نہیں کی جاسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بچے ابتدائی جماعتوں سے ہی رٹہ سسٹم کے عادی ہو جاتے ہیں۔ محکمہ تعلیم کے کرنے کا اصل کام تو یہ تھا اردو اور انگریزی زبانوں میں بٹے اس تعلیمی نظام کو ایک کرتی۔ تمام انگلش میڈیم سکولوں کو اردو میڈیم میں ضم کیا جاتا اور کم از کم ابتدائی تعلیمی مراحل پر ( پرائمری سے انٹر میڈیٹ تک) اس قوم کو ایک جگہ اکٹھا کیا جاتا۔ یہ محض ایک زبان کی بات نہیں بلکہ ہماری آنے والی نسلوں اور ہماری اردو زبان کی بقاء لے لیے انتہائی ناگزیر ہے۔ لیکن جس ملک کی قومی زبان محض کہنے کی حد تک قومی ہو اور ہر سیاسی ، حکومتی اور ریاستی اداروں میں انگلش زبان بولنے پہ فخرکیا جاتا ہو اور حکم نامے انگلش زبان میں جاری کیے جاتے ہوں وہاں کے کرتا دھرتاؤں سے اسی کج فہمی کی امید کی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل کی اکثریت منہ ٹیڑھا کرکے انگلش بولنے میں تو عبور رکھتی ہے لیکن اس اعلیٰ معیار کی تعلیم و تدریس اور تحقیق میں یکسر نابلد سے جو خود انگریزوں کے ہاں یا دیگر ترقی یافتہ قوموں میں رائج ہے۔ ہمارے بچے محض انگریزی سمجھنے اور بولنے کو ہی ترقی سمجھ بیٹھے ہیں کیونکہ جب اعلیٰ معیار کی سائنسی تحقیق و تدریس کی باری آتی ہے تو نقل / کاپی پیسٹ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اردو زبان کیساتھ ہونے والے سوتیلے پن کا احساس مزید پختہ ہو جاتا ہے جب میں سوشل میڈیا پہ نوجوانوں کے مابین بولی یا لکھی جانے والی اردو زبان کو دیکھتا ہوں۔ جملوں کی ناپختگی اور املاء کی بنیادی غلطیاں جن کا ہمارے دور میں تصور بھی نہیں تھا اب ایک عام سی بات ہو چکی ہے۔ سوشل میڈیا کے بے جا استعمال نے جہاں رومن الفاظ میں بات چیت کو فروغ دیا ہے تو وہیں معیاری اردو زبان کو لکھنے ، پڑھنے اور سمجھنے میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ کسی بھی درجے کے طالب علم سے مشکل ترین مضمون کا پوچھا جائے تو جواب "اردو" ہو گا اور یہیں سے اپنی زبان سے عدم دلچسپی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ نیز میرے نزدیک لمحہ فکریہ تو یہ بھی ہے کہ انگلش میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی ہمارے نوجوان اس قابل نہیں ہو پاتے کہ دنیا میں کسی بھی دوسری قوم سے تعلیمی و تحقیقی میدان میں مقابلہ کر سکیں۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم کے حصول تک بھاری بھرکم فیسیں دینے کے بعد بھی اگر ہم ہمارے نوجوان ہر شعبہ میں نااہل، نالائق اور کام چور ہیں (الا ما شاء اللہ) تو مسئلہ ہمارے نظام تعلیم میں ہے نا کہ ان نوجوانوں میں جو ہاتھوں میں اعلی تعلیمی ڈگریوں کے نام پہ محض فیس کی رسیدیں تھامے بیروزگاری کا شکار ہیں۔ کیونکہ پاکستان کا نظامِ تعلیم مرتب کرنے والوں نے خود اپنی نا اہلی کا ثبوت دیتے ہوئے نا صرف ان سے ذہن چھینا ہے بلکہ روشن مستقبل اور ترقی کی راہیں بھی چھین لی ہی ہیں۔ اس نظام تعلیم نے انہیں محض انگلش زبان سکھائی ہے لیکن اعلیٰ پائے کے تحقیقی اور تعلیمی ادارے اور جدید نظام مہیا نہیں کیا جس کے بل بوتے پر ایک قابل اور ہونہار نسل تیار کی جاتی ہے۔