چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ نے لاہور ہائیکورٹ بار ملتان سے خطاب کے دوران ججوں کی کارکردگی اور سماجی امن کو ایک دوسرے کے ناگزیر قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ جج اگر سماعت کے بعد فیصلے نہیں دیتے تو ان میں اور ایک عام قاصد میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ محترم چیف جسٹس نے کہا کہ ججوں کو معاشرے میں اس لیے عزت ملتی ہے کہ وہ فیصلے کرتے ہیں۔ محترم چیف جسٹس نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ معاشرہ غیر متوازن ہو گیا ہے۔ عدالتی نظام کسی ریاست کی بقا اور داخلی استحکام کا سب سے اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ فرد اور ریاست کے مابین جس معاہدے کے نتیجے میں جدید ریاستیں قائم ہوئیں اس معاہدے کو آئین کہا جاتا ہے۔ عدالتیں آئین کی تشریح اور قانون کی وضاحت کرتی ہیں۔ فرد جب ریاست کے سامنے اپنی طاقت، اختیار اور مفادات کا سر جھکا دیتا ہے تو ریاست طاقتور ہونے لگتی ہے۔ ریاست کی طاقت پھر شہری کو مضبوط اور محفوظ بنانے پر خرچ ہوتی ہے۔ جن معاشروں کو مہذب کہا جاتا ہے وہ اپنی فوج یا صنعتی ترقی کی وجہ سے مہذب نہیں بلکہ اپنی سماجی اقدار اور رویے کی وجہ سے معزز ہیں۔ ان کی اقدار، اصولوں اور قانون کی بالادستی کے عمل میں عدالتی نظام ریڑھ کی ہڈی ہے۔ وکلاء اور جج حضرات وہاں اس بات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں کہ ان کا بنیادی فریضہ نا انصافی اور کسی ظالم کے ظلم کے شکار افراد کی قانونی داد رسی ہے۔ وہ ریاست کا ہاتھ بن کر کام کرتے ہیں، کمزوروں کو بدلہ دلاتے ہیں۔ پاکستان کا نظام انصاف شروع دن سے ایسے مسائل کا شکار رہا جو شہری اور ریاست کے درمیان تصادم کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ شہری چاہتے تھے کہ وہ طرز زندگی آزاد مسلمان کے طور پر ڈھالیں۔ شہری توقع کرتے تھے کہ ریاست اور اس کے ستون جمہوری اقدار کی عزت افزائی کریں۔ شہری خواہاں تھے کہ نظام انصاف کو صرف حکمران اشرافیہ اور اس کے اتحادیوں کی ضروریات کے تابع نہ کیا جائے بلکہ قانون کی نظر میں تمام شہری مساوی ہوں۔ آئین میں ججوں کی تعیناتی کا جو طریقہ کار دیا گیا اس سے عشروں تک عوامی حلقے مطمئن نہ ہوئے۔ یقینا اس معاملے میں اب بھی بہت سی اصلاحات کی ضرورت ہے تا کہ طاقتور لابیوں کے نمائندوں کا راستہ روک کر قانون کی بالادستی قائم کرنے کا عزم رکھنے والوں کو ایسی ذمہ داریاں تفویض ہو سکیں۔ حال ہی میں اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے لیے تشکیل دی گئی پارلیمانی کمیٹی نے قواعد و ضوابط میں ترامیم متعارف کرائی ہیں۔ ان ترامیم کے تحت پارلیمانی کمیٹی نامزد شدہ جج کو انٹرویو کے لیے بلا سکے گی۔ نامزد جج اگر انٹرویو کے لیے دستیاب نہیں ہو گا تو اس کی نامزدگی مسترد تصور ہو گی۔ کمیٹی کے ترمیم شدہ مسودے میں کہا گیا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کو سب کمیٹی تشکیل دینے کا بھی اختیار ہو گا۔ پارلیمانی کمیٹی کو ترامیم کا اختیار ہو گا اور اسے کسی منظوری کی ضرورت نہ ہو گی۔ ان ترامیم کے بعد ججوں کی تعیناتی کا عمل زیادہ احتیاط اور پارلیمانی نگرانی میں مکمل ہو گا۔ عدالتوں سے متعلق عوامی عدم اطمینان کی ایک بڑی وجہ کرپشن کی شکایات ہیں۔ ماتحت عدلیہ میں یہ شکایات بہت زیادہ ہیں۔ ہرکارے، اہلمد، کلرک اور سٹینو کی مدد سے مجرم بچ نکلتے ہیں۔ کچھ لوگ تو اس سے بھی اوپر معاملات طے کرنے کی بات کرتے ہیں۔ پھر مقدمات کی سماعت اور فیصلے کے درمیان برسہا برس کی مدت ڈال دی جاتی ہے۔سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ادوار میں ایسے کئی فیصلے ہوئے جن کے مقدمات پچاس سے ستر سال تک سے چل رہے تھے۔ عدلیہ کی ساکھ اس بات سے متاثر ہو رہی تھی۔ عدلیہ کی ساکھ اور وقار کی بحالی اس لیے بھی ازحد ضروری تھی کہ حکمران طبقات کی بدعنوانی کے مقدمات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو رہے تھے۔ اس عمل کو خامیوں سے پاک کرنا مقننہ کی ذمہ داری تھی، مطلوبہ قانون سازی سے کس قدر اغماز برتا گیا اس کا ثبوت آرمی چیف کی مدت ملازمت کی توسیع سے متعلق عدالت عظمیٰ کی حالیہ سماعت اور فیصلہ ہے۔ بہتر برس ہو گئے کسی حکومت نے اس قدر اہم منصب کے متعلق قانونی اصول ترتیب نہ دیئے۔ سابق حکومتوں نے قانون سازی کا بنیادی تقاضہ پورا نہ کر کے پارلیمنٹ کے وقار کو بھی مجروح کیا۔ دو دو تہائی اکثریت لے کر حکومت بنانے والے جو کام نہ کر سکے اسے اگر چند نشستوں کے فرق سے حکومت بنانے والی تحریک انصاف کر گزری تو یہ بڑی بات ہو گی لیکن اس قانون سقم کی نشاندہی کرنے اور رہنمائی فراہم کرنے پر حکومت کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا ضرور مشکو رہونا چاہئے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو پاکستانی عدلیہ کی تاریخ کے لائق ترین چیف جسٹس حضرات میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے عدالتوں کی کارکردگی کو کسی عذر کے پیچھے چھپنے کا موقع نہیں دیا بلکہ اپنے طور پر بہتری سے جو اقدامات ہو سکتے تھے وہ کیے۔ ماڈل کورٹس کا قیام بھی ان میں سے ایک ہے۔ ماڈل کورٹس مختصر مدت میں لاکھوں مقدمات کا فیصلہ سنا چکی ہیں۔ ان مقدمات میں قتل جیسے معاملات بھی ہیں۔ وکلاء کو اپنی اصلاحی کوششوں میں شریک کر کے محترم چیف جسٹس نے وکلاء برادری میں اس شعور کو پروان چڑھانے میں مدد دی کہ ہنگامہ آرائی اور ہڑتالیں قانونی عمل کو سست روی کا شکار کرتی ہیں۔ وکلائ، قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں کوتاہی دکھائیں تو شہری اور ریاست کے درمیان وہ معاہدہ مسخ ہونے لگتا ہے جس کے تحت فرد ظالم سے خود بدلہ لینے کی بجائے ریاست سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس کو انصاف دلائے۔ چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ نے معاشرے کے عدم توازن پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ان کی اصلاحات کا سلسلہ جاری رہا اور قانون کی بالادستی کو فروغ ملا تو معاشرے کا کھویا ہوا توازن جلد بحال ہو سکتا ہے۔