ایک ماہ قبل کی بات ہے۔صبح صبح دفتر سے فون آیا۔ آج ایک اہم میٹنگ ہے وقت سے پہلے دفتر پہنچ جائیں۔جس میٹنگ کا ایجنڈا معلوم نہ ہو وہ ویسے ہی مشکوک ہوتی ہے اور تجربہ بتاتا ہے کہ منحوس بھی ثابت ہوگی۔خیر حکم حاکم مرگ مفاجات۔سلیس پنجابی میں اس کا ترجمہ ہے کہ نوکری کی تے نخرہ کی۔بھاگم بھاگ دفتر پہنچے تو دیکھا بڑے صاحب کے چہرے پہ بڑی پراسرار سی مسکراہٹ ہے اور خدا گواہ ہے ایسی مسکراہٹ تباہیاں لاتی ہے ۔ کچن میں گئے تو دیکھا کہ آفس بوائے جو سلیقے اور بدتمیزی کا حسین امتزاج ہے، جمائیکا سے درآمد شدہ اپنی ہم رنگ بلیک کافی دم دینے کی تیاری کررہا ہے۔ تھائی لینڈ سے درآمد شدہ کراکری بھی نکال رکھی ہے۔ہر دو اشیا اسی وقت نکالی جاتی ہیں جب کوئی تگڑا کلائنٹ قابو میں کرنا مقصود ہو۔ اندازہ تو ہوگیا کہ کچھ ایسے مہمان قدم رنجہ فرمانے والے ہیں جن کا نام لیتے ہر ایک کو حیا آرہی ہے لیکن زیرلب مسکراہٹ ہے کہ کھلی پڑ رہی ہے۔کچھ دیر بعد کیا دیکھتے ہیں کہ تین نامعلوم افراد کے جلو میں ایک نہایت معلوم قسم کے حضرت ہنستے مسکراتے تشریف لارہے ہیں۔ کھل کر نام نہیں لیا جاسکتا کہ صحافتی آداب اجازت نہیں دیتے، اگرچہ کہ ایسی کوئی پابندی بھی نہیں تھی، بس اتنا سمجھ لیجیے کہ وہ سابق صدر مشرف کے نہایت قریبی ساتھی رہے ہیں۔اپنے ہولے ہولے انداز بیان اور شائستگی کے سبب ہمیں بھی پسند رہے ہیں۔حسب معمول شفقت سے ملے اور ہماری میٹنگ شروع ہوئی جو چار گھنٹے جاری رہی۔اس میٹنگ کا ایجنڈاکیا تھا وہ ایک الگ داستان ہے جو کسی مناسب وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں، بس اتنا سمجھ لیجیے کہ اس روز اگر ہم نے بھولو پہلوان کی طرح قینچی داو لگا کر ،قابو میں نہ کرلیا ہوتا تو بدمست ا نقلاب ہماری میز سے نکل کر سارے ملک میں قیامت برپا کرکے ہی رہتا۔ شکر ہے وہ اگلی میٹنگ تک ٹل گیا۔ حاصل وصول اس ساری داستان کا جلد یا بدیر سامنے آہی جائے گا۔اصل بات جو اس کالم کی بنیاد بنی وہ مذکورہ محترم کے دست راست نے بسکٹ ٹماٹو کیچپ میں ڈبو ڈبو کر کھاتے ہوئے بتلائی۔موصوف جوانی میں کٹروہابی قسم کے مارکسٹ تھے۔انہوں نے پاکستانی سیاست کا نظریاتی دور اپنے دل پہ جھیلا تھا۔ ہم نے تو وہ دور نہیں دیکھا لیکن سرخ ہے سرخ ہے ایشیا سرخ ہے کے نعرے لگانے والے نوجوان کی آنکھوں میں اب بھی بالشویک انقلاب کہیں کہیں ٹمٹماتانظر آتا تھا۔یہ بھی مزے کی بات ہے جس انقلاب کی موت اس کی اپنی زمین پہ ہوئی ، اس کی گونج لاہور کے ایک دفتر میں آج بھی سنائی دیتی ہے۔یہی نظریے کا حسن ہے۔ کامریڈ صاحب نے جس خاتون سے شادی کی،وہ بھی کامریڈنی تھیں۔بھٹو کا روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ عروج پہ تھا۔سوشلسٹوں کو ہر آن اشتراکی انقلاب کی آہٹ سنائی دیتی تھی۔کھدر پوشی پرولتاریہ سے مثالی یک جہتی کی علامت تھی۔کئی ایک تھے بھی پرولتاری لہٰذا کھدرپوشی مجبوری بھی تھی۔حالات بدلے تو موصوف نے کمانے کھانے کے لئے سرمائے کی طرف ہاتھ بڑھایا اور یوٹرن لے کر اشتراکیت سے بظاہر تائب ہوگئے۔پھر ان کے اپنے حالات بدل گئے اور موٹر سائکل کی جگہ کار نے لے لی۔بیگم صاحبہ کو اشتراکیت سے یہ بے وفائی کچھ پسند نہ آئی اور انہو ں نے گھر میںا نقلاب برپا کرتے ہوئے موصوف کا تختہ الٹ دیا یعنی انہیں گھر سے نکال دیا ۔ موصوف آج کل بڑے بڑے سرمایہ داروں کے دست راست بنے نجی محفلوں میں مارکس کی جان کو روتے اور واڈکا پی کر وہ دن یاد کر کرکے دھاروں دار روتے ہیں جب پاکستان میں نظریاتی خلیج اتنی گہری تھی کہ اس نے زن و شوئی کے درمیان دراڑ ڈال دی تھی۔ بھٹو کے بعد جنرل ضیا کے دور میں نظریاتی سیاست کا خاتمہ ہوگیا۔ مذہب کو نظریے نہیں بلکہ حربے کے طور پہ استعمال کیا گیا۔ دوسری طرف بائیں بازو والوں نے یا تو سبز چولا پہن کر منصب قبول کرلئے یا خاموشی اختیار کرلی۔سیاست میں سرمائے کی آمیزش بلکہ اس کی سرپرستی نے ایسا کھیل کھیلا کہ نظریہ کہیں منہ چھپاتا رخصت ہوگیا۔ وہ چاہے دائیں بازو والے تھے یا بائیں بازو والے، مصلحت اور تن آسانی نے دونوں کا ستیاناس کیا۔ نظریات تو مصائب میں پروان چڑھتے ہیں۔بھٹو کے لئے کوڑے کھانے والے تو درحقیقت مارشل لا کے خلاف نکلے تھے ، سوشلزم کے لئے کوڑے کھانے والے کتنے تھے؟اسی طرح بھٹو نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے مخالفین پہ ہر آمرانہ حربہ آزمایا۔ اس کا کوئی تعلق کسی نظریے سے نہیں تھا۔ ہماری نسل نے تو نظریہ دیکھا ہی نہیں ۔صرف چند بڑے خاندان دیکھے جنہوں نے اپنی اولاد کا مستقبل بیرون ملک محفوظ بنا لیا تھا۔ یہاں نظریہ ایک ہی تھا،سرمائے کی ریل پیل اور وراثت میں بٹتا اقتدار۔بائیں بازو کب کا فریکچر ہوچکا تھا اور دایاں بازو بڑی منافقت سے اقتدار میں اپنا حصہ بٹورنے میں مصروف تھا۔ نظریے کی ایسی کی تیسی۔پھر بھی ایک بھلا وقت وہ تھا جب راتوں رات امیر ہوجانے والے بدنامی کے خوف سے محلہ چھوڑ دیا کرتے تھے۔ اصل مقصد ہر حال میں اقتدار میں رہنا، اس سے فائدے بٹورنا، اپنے خاندان کو نوازنا اور اثاثوں میں اضافہ کرنا تھا۔ ایک وقت آیا جب بدعنوانی اور کرپشن سے راتوں رات امیر ہونے والے معزز ہی نہیں مطلوب و مقصود بھی ہوگئے۔یہ ہمارے معاشرے کے اخلاقی انحطاط کا تاریک ترین دور تھا۔سرماے اور سیاست کے گٹھ جوڑ نے ہماری اخلاقیات ہی بدل ڈالی تھیں۔ اب معزز وہی تھا جو سب کچھ خرید سکتا تھا اور سیاست ان معززین کا بازار بن گئی تھی۔ کیا سوچنے والے غور نہیں کرتے کہ عمران خان نے ہماری تباہ شدہ اخلاقیات کو وہ جوہر لوٹا دیا ہے جو کبھی ہمارا سرمایہ افتخار ہوا کرتا تھا۔ آج ہمارا نوجوان جس چیز سے نفرت کرتا ہے وہ حرام اور کرپشن سے حاصل کی ہوئی وہ دولت ہے جو سابق حکمرانوں نے معمول کی بات بنا دی تھی۔یعنی کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے۔ آج کے نوجوان نے اس باطل نظریے کو شکست دی ہے۔ وہ ہر اس شخص سے نفرت کرتا ہے جس نے اس ملک کے وسائل کو لوٹ کر اپنی اولاد کا مستقبل محفوظ کیا۔اس نے ہر اس شخص کو اپنے قول وفعل سے ذلیل کردیا ہے جو کبھی حرام کے سرمائے سے معزز بنا پھرتا تھا۔وہ روٹی کپڑا اور مکان کے خیراتی نعرے سے تعلیم صحت اور روزگار کے باعزت مطالبے تک آن پہنچا ہے۔ پاکستان میں نظریئے کی سیاست لوٹ آئی ہے ۔ نظریاتی خلیج ایک بار پھر گہری ہوگئی ہے۔ملکی وسائل لوٹ کر معزز بننے والے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں اور اس نظریئے کے ماننے والے نوجوانوں نے اسباب سمیت انہیں گھر سے نکال پھینکا ہے۔