کہیں ریشم ، کہیں اطلس ، کہیں خوشبو رکھ دوں یہ تمنا ہے تِری یاد کو ہر سُو رکھ دوں یہ تبسم ، یہ تکلم ، یہ نفاست ، یہ ادا جی میں آتا ہے تِرا نام مَیں اُردو رکھ دوں دوستو! قوموں کی زندگی محض سانس لینے سے عبارت نہیں ہوتی بلکہ ان کی نبض کو متحرک رکھنے میں اس خطے کی تاریخ، تہذیب، ثقافت، روایات اور اجتماعی شعور بھرپور کردار ادا کرتے ہیں اور جہاں کسی قوم کی جڑیں براہ راست کسی دین اور تہذیب میں پیوست ہوں، وہاں ان چیزوں کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہ خطۂ ارضی کہ جسے مملکتِ خداداد بھی کہا جاتا ہے اور جس کا نام پاکستان ہے، اس شجرِ سایہ دار کی جڑیں تو دین و ثقافت کی زمین کے اندر اتنی گہری ہیں کہ ان کے انقطاع کی صورت میںاس کا علیحدہ تشخص اور (خدانخواستہ) وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ اس حقیقت سے کون آشنا نہیں کہ قیام پاکستان کے چند بڑے مقاصد میں ایک اہم مقصد اس خِطے کی من موہنی زبان اُردو کا تحفظ و فروغ بھی تھا بلکہ دو قومی نظریے کی گٹھلی تو پھوٹی ہی اُ ردو ہندی تنازعے کے بطن سے تھی۔ مکاّر اور متعصب ہندو لیڈروں کو اس زبان اور رسم الخط کا کائنات کی عظیم ترین کتاب قرآن سے براہ راست تعلق کھٹکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ گاندھی اپنی تقاریر میں بار بار اسی قلق کا اظہار کرتا تھاکہ: ’’اُردو مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے جو قرآنی حروف میں لکھی جاتی ہے۔‘‘ یہ حقیقت ہر طرح کے شک و شبے سے بالا ہے کہ اردو نہ صرف دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے بلکہ یہ برعظیم کی واحد زبان ہے جو کراچی سے راس کماری اور جموں سے ڈھاکہ اور بنگلور تک آسانی سے سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ یہ ہندوستان کے بیرونی حاشیوں تک میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس ساری حقیقت بیانی کے باوجود قابل داد ہے ہندو قوم کہ جو اپنے لیڈر کی اس ہٹ دھرمی پہ بھی آنکھیں بند کرکے ایمان لے آئی۔ ایک طرف ہم ہیں کہ دنیا کی وسیع اور فصیح ترین زبان کے مالک ہونے کے باوجود اس کو کھلے دل سے اپنانے سے شرمندہ ہیں۔ ہمارے جملہ قومی راہنما اردو کی افادیت اور اہمیت سے آگاہ کرتے کرتے سدھار گئے مگر ہمارے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ سرسید احمد خاں اپنی تمام تر انگریز پروری اور انگریزی نوازی کے باوجود اس بات پر مُصر رہے کہ برعظیم کے مسلمانوں کی قومی و سرکاری زبان اردو ہوگی۔ مولانا حالی کے بقول:ہندوستان کی قومی زبان اردو ہے، اسی بنا پر ۱۸۳۵ء میں سرکاری دفتروں اور عدالتوں کی زبان اردو قرار دی گئی۔ بانیِ پاکستان کے بارے میں بھی یار لوگوںنے یہی مشہور کر رکھا ہے کہ وہ ذہن اور مزاج کے اعتبار سے مکمل انگریز تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ روانی سے اردو نہیں بول سکتے تھے اور اپنی اردو کو ’’تانگے والے کی اردو‘‘ کہا کرتے تھے۔ لیکن پاکستان کی قومی و سرکاری زبان کے سلسلے میں وہ کسی تذبذب کا شکار نہیں تھے۔ ۱۹۴۸ء کے ایک خطاب میںانھوں نے واشگاف الفاظ میں اس بات کا اعلان کیا کہ: ’’میں آپ کو صاف طور پر بتا دوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی اور کوئی دوسری نہیں، جو کوئی آپ کو غلط راستے پر ڈالے، وہ درحقیقت پاکستان کا دشمن ہے۔ ایک سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم نہ تو مضبوط بنیادوں پر متحد و یکجا رہ سکتی ہے اور نہ ہی بہ حیثیت قوم اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔‘‘ایسا نہیں کہ بانیِ پاکستان کو اردو کی اہمیت کا احساس قیام پاکستان کے بعد ہوا بلکہ وہ تو شروع دن سے مسلمانوں کے لیے اسی زبان کو لازمی قرار دیتے چلے آئے تھے۔۱۹۲۸ء میں جب نہرو نے اپنی متعصبانہ ’’نہرو رپورٹ‘‘ پیش کی تو اس کے جواب میں قائداعظم نے اپنے مشہور چودہ نکات میں بھی مسلمانوں کی تعلیم و زبان، رسم الخط اور اسلامی اداروں کی ترقی و حمایت پر خصوصی زور دیا۔ اس حقیقت سے کون آگاہ نہیں کہ انگریزوں نے اٹھارھویں صدی کے اختتام پر جب برعظیم میں حکمرانی کا خواب دیکھنا شروع کیا تو انھوں نے عوام و خواص سے رابطے کے لیے اسی اردو زبان سے شناسائی کی ضرورت محسوس کی، جس کے لیے کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ اس کالج کا زیادہ فائدہ انگریزوں کو پہنچا یا اُردو زبان کو۔ اس سے یہ بات تو بہرحال ثابت ہوتی ہے کہ وہ زبان جو آج سے دو سو سال قبل بھی برعظیم میں ابلاغ و تخلیق کا سب سے بڑاذریعہ تھی۔ اس کے آج اپنے ہی گھر میں اجنبی بن جانے کی وجہ اس کی کم مائیگی نہیں بلکہ ہمارے اربابِ اختیار کی بدنیتی اور ذہنی غلامی ہے۔ غلامی کا یہ طوق ہمارے مقتدر طبقوں کے گلے میں اس قدر کس دیا گیا ہے کہ وہ انگریزی کے دو فقرے سیدھے نہ بول سکنے کے باوجود اس بدیسی اور سابقہ آقائوں کی چہیتی نشانی کو سینے سے لگانے پر مجبور ہیں۔ اگر یہ زبان اس خطے کے لیے ایسی ہی ضروری ہوتی تو سرسید اور جناحؒ اس کی بہتر انداز سے وکالت کرسکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا اس لیے نہیں کیا کہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ اس خطے میں اردو کے علاوہ کوئی بھی زبان اختیار کرنے سے ہم دینی، تہذیبی اور ادبی اقدار سے دور جا پڑیں گے اور ہماری حیثیت گھونسلے سے گرے ہوئے چڑیا کے بچے کی سی ہو جائے گی۔ زبان ہی وہ تعارفیہ ہے، جس میں کسی قوم کی ثقافت، تہذیب، ادب اور مذہب کے تمام تر اصول قاعدے محفوظ ہوتے ہیں۔بچے کو اس کی زبان بھلا دیجیے، لامحالہ وہ اپنے دین، تہذیب اور ادب سے بیگانہ ہوجائے گا۔ اب تو دنیا کے تمام دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ اگرکسی قوم کو ذہنی اور جسمانی طور پر غلام بنانا مقصود ہے تو اس پر لشکر کشی کر کے اپنی فوجی قوت مت ضائع کیجیے، بس اتنا کیجیے، ان کی یاد داشتوں سے ان کی زبان محو کر دیجیے۔ اس تلخ حقیقت کو اب ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ بانیِ پاکستان سے ہمارا تعلق نوٹوں پر تصویر چھاپنے، دفتروں میں قائد کا پورٹریٹ لگانے، اخبارات اور خبرناموں میں فرمان قائد شائع /نشر کرنے اور پیدائش و وفات پر ایامِ قائد منانے تک رہ گیا ہے۔ وگرنہ تو سب لوگ اس سانحے سے آگاہ ہیں کہ ۱۱ ستمبر۱۹۴۸ء کے بعد سے وطن عزیز کی سیاست پہ انھی جاگیرداروں، وڈیروں اور ٹوڈیوں کا قبضہ ہے، جن کے بارے میں ناصر کاظمی نے کہا تھا: چند گھرانوں نے مل جل کر کتنے گھروں کا حق چھینا ہے باہر کی مٹی کے بدلے گھر کا سونا بیچ دیا ہے یہ وہی لوگ ہیں جو قیام پاکستان سے قبل قوم کو یرغمال بنانے کا عوضانہ مربعوں، جاگیروں اور رنگارنگ عہدوں کی صورت وصول کرتے رہے ہیں اور اب انھوں نے اپنا ضمیر وزارتوں، سفارتوں اور ڈالروں کے عوض ملک میں جہالت کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی صورت رہن رکھا ہوا ہے ۔ بیوروکریسی ، اس المیے کا دوسرا بڑا فریق ہے، جسے قومی زبان کے نفاذ میں عوامی مساوات کا جن چھپا نظر آتا ہے، جو ظاہر ہے افسر شاہی کی موت ہے۔ اس المیے میں تیسری بڑی برائی سرمایہ داروں کی شکل میں داخل ہوئی، جس نے عزت، غیرت اور تہذیب کی قیمت پیسے کی صورت وصول کر لی۔خود کھربوں کھرے کر لیے، عوام کو پائی پائی کا نشہ لگا کے اصل قومی مقاصد سے دور کر دیا، اکبر الہٰ آبادی نے سچ کہا تھا: مچھلی نے ڈھیل پائی ، لقمے پہ شاد ہے صیاد مطمئن ہے کہ کانٹا نگل گئی